وجود

... loading ...

وجود

حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخب

هفته 06 اپریل 2024 حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخب

ریاض احمدچودھری

جماعت اسلامی پاکستان نے جمعرات کو آئندہ پانچ سال کے لیے حافظ نعیم الرحمان کو نئے امیر کے طور پر منتخب کر لیا ہے۔ان کی بطور امیر جماعت اسلامی مدت 2024 تا اپریل 2029 تک ہو گی۔حافظ نعیم الرحمان حال ہی میں میئر کراچی کے لیے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔تین ماہ کے عرصہ میں مختلف مراحل کے دوران جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے تجویز کردہ تین امیدواروں کو ملک بھر سے جماعت کے اراکین نے اپنے ووٹ بیلٹ پر کاسٹ کر کے بھجوائے تھے اور گنتی کے بعد چار اپریل کو نئے امیر کا اعلان کیا گیا۔ ملک بھر سے 46 ہزار اراکین نے اپنا ووٹ خفیہ بیلٹ کے ذریعے کاسٹ کیا۔
اس سے قبل آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے فوراً بعد ہی جماعت اسلامی کے سینئر رہنما سراج الحق نے جماعت اسلامی کی امارات سے استعفیٰ دے دیا تھا۔جناب سراج الحق اپنی دوسری مدت امارات آٹھ اپریل کو پوری کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ خود حافظ نعیم الرحمان بھی انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر سندھ اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ چھوڑ چکے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن سماجی کارکن، سیاست دان اور جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ مرکزی امیر ہیں۔ اس سے قبل وہ 2013 سے 2024 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہ چکے ہیں۔انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ اور جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ دو سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ بھی رہے۔ 2000ء میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ انھوں نے اسسٹنٹ سیکرٹری ، جنرل سیکرٹری اور نائب امیر کراچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ 2013ء میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے۔حافظ نعیم الرحمٰن الخدمت کراچی کے صدر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔چونکہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک انجینئر ہے، اور انہیں رہائشی منصوبوں میں واٹر ٹریٹمنٹ انجینئر کی حیثیت سے 20 سال کا تجربہ ہے۔
حافظ نعیم ایک طویل عرصے سے کراچی کی سیاست کی توانا آواز ہیں، شہر کے مسائل اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے بیک وقت کے الیکٹرک، واٹر بورڈ، نادرا، سوئی سدرن گیس سمیت مختلف عوامی مسائل کے لیے دھرنوں، مظاہروں، حقوق کراچی مارچ کی صورت میں کراچی کے مظلوم عوام کا مقدمہ ایک تسلسل سے لڑ رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی پر تاریخی کامیاب دھرنا ،کراچی کی مردم شماری ،بااختیار شہری حکومت کے قیام، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، پر حافظ نعیم الرحمن آواز اٹھاتے ہیں۔ جس کی وجہ حکومت کی جانب سے یوٹیلی ٹی کمپنی کے ساتھ مبینہ تعصب اور کراچی کے لوگوں کو کمپنی پر لاگو ہونے والی شق کے تحت اپنے صارفین کو ان کے پیسے واپس نہ کرنے کے معاملے میں اس کی خدمات سے انکار ہے۔ رحمان نے دعوی کیا کہ 2020 میں کمپنی کا 9 ارب روپے کا منافع حکومت کی طرف سے موصول ہونے والی بڑی سبسڈی کی قیمت پر تھا، جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کے پیسے یوٹیلیٹی کمپنی کے مالکان کو فائدہ پہنچا رہے تھے۔کراچی کی بارشوں اور کورونا کے دنوں میں ان کی امدادی سرگرمیاں بھی قابل تعریف ہیں۔وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات 2023ء کے لیے جماعت اسلامی کے نامزد کردہ امیدوار برائے مئیر ہیں۔جنہیں نظامت کراچی کے لیے پسندیدہ ترین امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ حافظ صاحب کی قیادت میں جے آئی پی 2023 کے کراچی بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ جے آئی پی نے 24 جنوری 2023 تک کے نتائج کے مطابق مقبول ووٹوں کے 30% سے زیادہ اور 85 یو سی نشستیں حاصل کیں۔ 2023 کے انتخابات میں، مرتضی وہاب اور حافظ نعیم اور رحمان نے کراچی کے میئر بننے کے لیے مقابلہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مرتضیٰ وہابنے 173 ووٹوں کے ساتھ الیکشن جیتا، جبکہ جماعت اسلامی سے تعلق کرنے والے حافظ نعیم رحمان نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق 160 ووٹ حاصل کیے۔ جے آئی نے حکومت سندھ پر پاکستان تحریک انصاف کے 29 ارکان کو اغوا کرنے کا الزام لگایا جنہیں رحمان کو ووٹ دینا تھا کیونکہ پی ٹی آئی نے جے آئی کی باضابطہ حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل 26 اگست1941 کو جماعت اسلامی قیام پزیر ہوئی اور بعد میں یکم جون 1957 کو اس کا دستور نافذ العمل ہوا۔ اس جماعت کی شاخیں بھارت، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں گلبدین حکمت یار اس کے سربراہ تھے۔پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی شروع سے اپنی سیاست کا تعین کرنے کی کوشش میں رہی ہے۔مولانا مودودی کی موجودگی میں بھی جماعت کے پاس نظریہ تھا، وہ اپوزیشن کی ایک توانا آواز تھے مرکزی دہارے میں بھی شامل تھے۔مگر جب 1970 میں انتخابات ہوئے تو جماعت کے نتائج مایوس کن تھے جس پر مولانا مودودی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہوگئے۔ قاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ایک اور شکل اختیار کی اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا جماعت اسلامی کو ایک اور چہرے کی تلاش تھی جو منور حسن کی شکل میں آیا۔اس کے بعد جماعت اسلامی بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر سراج الحق کی صورت میں ایک ماڈریٹ چہرہ لے کر آئی۔ وہ دس سال امیر رہے ۔
جماعت اسلامی کو ایک نئے چہرے کی تلاش تھی اور حافظ نعیم الرحمان بہت بہتر چوائس لگ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے کراچی میں تنظیم کو منظم کیا ہے۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت ہمیشہ سے کراچی میں مضبوط پارٹی کے طور پر رہی ہے۔ پاکستان کے دونوں ساحلی بندرگاہوں والے شہروں کراچی اور گودار میں شہری مسائل کے بیانیے پر عوام میں جماعت اسلامی کو پزیرائی ملی۔ چونکہ جماعت اسلامی اپنے آپ کو ایک مذہبی و سیاسی جماعت گردانتی ہے، اس لیے انتخابی میدان میں انھیں بھرپور محنت کی اشد ضرورت ہے۔نئے سیاسی منظرنامے میں توجہ حاصل کرنے کے لیے نئے امیر کو کئی طرح کے چیلنجرز کا سامنا ہو گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر