... loading ...
جاوید محمود
گزشتہ ایک سال کے دوران مجھ سے ایسی شخصیات نے رابطہ کیا جن کی میرے دل میں بڑی عزت ہے اور ان کا شمار ہمارے معاشرے میں بڑے عزت دار گھرانوں میں ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے حالات سے مجھے آگاہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کن مشکلات سے گزار رہے ہیں بنیادی چیزوں کا حصول ان کے لیے ایک مشکل ترین مسئلہ بنا ہوا ہے اور بڑی ہمت سے انہوں نے مجھ سے مدد مانگی تو میرا دل اس وقت بیٹھنے لگا یہ سوچ کے کہ ان کی جگہ اگر میں ہوتا تو مجھ پر کیا گزرتی ۔ انقلاب فرانس سے کئی ممالک نے سبق سیکھا ۔کیا ہم بھی انقلاب فرانس سے کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ ان دنوں یہ سوال میرے ذہن میں بار بار سر اٹھاتا ہے فرانسیسی عوام ہر سال 14 جولائی کو اپنا قومی دن مناتے ہیں۔ اس دن کو تاریخ میں یوم باسطیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کے پیچھے فرانسیسی عوام کی جدوجہد کی ایک الگ ہی داستان ہے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس کا باعث اقتصادی بدحالی تھی مگر کار لال اور دوسرے مورخین اس نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ان کا خیال ہے کہ فرانس کے باشندوں کی مالی حالت دوسرے ممالک کے باشندوں سے کسی طرح بری نہ تھی۔ گو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جنگ آزادی امریکہ میں امریکہ کی اعانت کرنے سے حکومت فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہو گیا تھا۔اسی طرح یہ نظریہ بھی قطعاً غلط ہے کہ انقلاب اس لیے برپا ہوا کہ بادشاہ فرانس لوری شاہز دہم اپنے ملک اور رعایا کا خیر خواہ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوئی شاری پنجم سے کہیں بہتر حکمران تھا۔ مورکین کی رائے کے مطابق عوام کا خیال تھا کہ لوئی کے عہد میں فرانس کو پھر وہ رعب دبدبہ حاصل ہوگا جو رش لویا لوئی چہارم کے دور میں حاصل تھا مگر ان کی یہ خواہش آئندہ توقعات بہت جلد مایوسی میں تبدیل ہو گئی۔ لوئی اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالیہ پن کو دور کرنے سے قاصر رہی بلکہ جنگ آزادی امریکہ نے فرانس کی مالی حالت اور بھی ابتر کر دی۔ اس جنگ کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ امریکہ سے واپس آنے والے فرانسیسی سپاہیوں نے جمہوریت مساوات وغیرہ کے نظریات سے دیہی طبقے کو روشناس کرایا ۔شہری طبقہ روسو اور والٹن جیسے ادیبوں اور مفکروں کی بدولت ان نظریات سے پہلے ہی متعارف تھا۔ اس لیے 1787 میں ذمہ دار حکومت کے حق میں تحریک کا چل نکلنا غیر فطری نہ تھا اور یہی تحریک آگے چل کر انقلاب کا باعث بنی۔ ایک اور رائے یا تاثر یہ بھی ہے کہ برطانیہ سے امریکہ کی جنگ آزادی میں فرانس نے کھل کر امریکہ کی مدد کی جس کے نتیجے میں بالاخر 1776میں امریکہ آزاد ہو گیا لیکن یہی بے جا حمایت فرانس میں بھی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی ۔
فرانس کی اشرافیہ اور کلیسا نے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا تھا اور تمام زمینوں پر قابض تھے، خود ٹیکس نہیں دیتے تھے ،مگر آئے روز عوام پر نیا ٹیکس لگا دیتے اور قانون کا یہ حال تھا کہ پروانہ گرفتاری پر شخص کا نام مدت اور قید خانہ لکھ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا۔ لوگوں کو بغیر وجہ بتائے گرفتار کر کے قید کر لیا جاتا۔ جنگ آزادی میں امریکہ کی مدد کرنے کے سبب فرانس کا خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی۔ غریب غریب ترین اور اشراف امیر ترین ہوتے جا رہے تھے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں پانچ مئی 1789کو ٹیکس کے نفاذ کے لیے پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا۔ پارلیمان کے تین حصے تھے ایک حصہ امرا، دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ عوام کا تھا جو 97فیصد تھا ۔عوام کے نمائندوں کے اختیارات محدود تھے۔ وہ اشرافیہ سے دبے دبے رہتے تھے مگر اج ان کی آوازیں اونچی ہونے لگیں۔ انہوں نے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا مگر بادشاہ نے ان کا اختلاف ماننے سے انکار کر دیا تو جون 1789 میں عوام کے نمائندوں نے اپنا نام قومی اسمبلی رکھ کر اپنا اجلاس پارلیمان کے باہر کیا۔ بادشاہ نے پولیس اور فوج کو انہیں وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا مگر انہوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بآلاخر ڈیڑھ ماہ بعد غیر ملکی سپاہیوں کی مدد سے انہیں وہاں سے منتشر کر کے قید کر لیا گیا ۔بادشاہ مطمئن ہو گیا مگر اس سے اگلے روز عوام کا ہجوم بیسٹیل قید خانے پر حملہ اور ہو کر تمام لوگوں کو آزاد کروا کر جیل میں موجود تمام اسلحہ ساتھ لے گئے۔ اس حملے کے نتیجے میں بادشاہ کی حکومت پر گرفت کمزور ہو گئی۔ دیہات میں بھی بغاوت نے سر اٹھایا بآلاخر جون 1791میں بادشاہ اور ملکہ بھیس بدل کر ملک سے فرار ہونے لگے اور عوام نے پکڑ کر قید کر لیا۔ عوام کی اسمبلی نے جمہوری دستور بنایا۔ عوامی عدالتیں لگائیں جنہوں نے ہر شخص کا سر قلم کر دیا۔ جس کے ہاتھ نرم یا کالر صاف تھے کیونکہ یہ اشرافیہ کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ کے سر قلم کر دیے گئے۔ 1793 سے 1794 تک تقریبا ً40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا اور اس قتل عام کے نتیجے میں جدید فرانس کا آغاز ہوا۔
تاریخ کے الفاظ میں رد و بدل ضرور ہے لیکن کم و بیش انقلاب کا مفہوم وجوہات ایک جیسی ہی نظر آتی ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا ۔تہذیب و اخلاقیات تعلیم حقوق انسانی سیاسیات غرض کے ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا چونکہ عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ سیاسی اصلاح احوال سے سب کچھ درست و صحیح ہو جائے گا۔ لہٰذا جب انقلاب عمل میں آیا تو اس کے سماجی اخلاقی اور انسانی پہلو تو نظر سے او جھل ہو گئے اور نگاہیں سیاسی کا رفرماؤں پر مرکوز ہوگئی اور خیالات و جذبات کے لیے ربط سیل کے سامنے بادشاہ ملکہ شاہی خاندان امرا اور وہ سب اشخاص اور ادارے جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے یا اس کے آئینہ دار تھے کچل دیے گئے ۔
یوم باسطیل کے بعد 8جون 1795ء کو ولی عہد فرانس کو بھی قتل کر دیا گیا اور 9برس تک فرانس کے معاملات کبھی ادھر اور کبھی ادھر ڈولتے رہے یعنی ابھی تک فرانس اپنی اس ڈگر پہ نہیں آیا تھا جس کے لیے اتنی قتل و غارت گری کی گئی تھی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہر انقلاب معاشرے اور ملک کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن عوام نے اپنی طاقت کے اظہار سے بادشاہت اور اشرافیہ کا اثر تو ختم کر دیا تھا جو ان کی بڑی کامیابی تھی لیکن اب بھی انہیں اپنے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے ایک رہنما ایک لیڈر چاہیے تھا۔ ایک عدل و انصاف کا نظام چاہیے تھاکہ وہ اپنے معاشرے کی صحیح معنوں میں تشکیل کر سکیں اور آخر کار 9برس بعد مئی 1804میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا جس سے فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔ایک طرف فرانس اپنی تہذیب اور تمدن پر ناز کرتا تھا تو دوسری طرف اس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔آبادی پادری ،امرا اور عوام میں بٹی ہوئی تھی چرچ کی آمدنی پادریوں کے جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیرا کما لیتا تھا جبکہ عام پادری کی آمدنی بھی ایک لاکھ سے دو لاکھ تھی۔ فرانس میں امرا ء اور جاگیردار خاندانوں کی تعداد 20 اور 30 ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے 10ہزار اعلیٰ پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعداد 60 ہزار تھی۔ اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی۔
فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دو کروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے وہ جاگیرداروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمینوں کے گرد باڑ نہیں لگا سکتے تھے اور فصلوں کو خراب کرنے والے جنگلی جانوروں اور پرندوں کو ہلاک نہیں کر سکتے تھے۔ اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے پوری طرح واقف بھی نہیں تھے۔ ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔ عوام کو معمولی جرائم پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امرا ء قانون سے بالاتر تھے ۔بادشاہ پیرس سے 12 میل دور ورسائی کے محلات میں رہتا تھا۔ اس کے دربار میں 18ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔ محل میں 16 ہزار شاہی خادم تھے صرف ملکہ کے خادموں کی تعداد 500تھی۔ شاہی اصطبل میں 1900گھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے 40 لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اور باورچی خانے کا خرچ 15 لاکھ تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہو چکا تھا ۔دو لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہو چکے تھے۔ ملک کے جیل خانے معصوم اور بے قصور لوگوں سے بھرے پڑے تھے ۔لہٰذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفرت اُبلنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نفرت کو 14 جولائی 1789 ء میں مٹیریل لائز ہونے کا موقع مل گیا پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ انقلاب فرانس کے پس منظر کے حوالے سے رائج تمام کہانیوں سے یہی نتیجہ عکس کیا جا سکتا ہے کہ ریاستی امور چلانے کے لیے فقط تہذیب و تمدن کا ہونا شرط نہیں اور نہ ہی دولت کی فراوانی معاشرے کی تعمیر و ترقی کی بنیاد ہوتی ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل عدل و انصاف کے متوازی نظام کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ امیر اور غریب ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن جب امیر کو ڈر ہو کے اسے اس کے غلط کام کی کڑی سزا ملے گی اور غریب کو اطمینان ہو کے کسی جرم میں وہ بے گناہ جیل میں نہیں ڈالا جائے گا تو یہی اطمینان قوموں کو آگے لے جانے کا سبب بنتا ہے لیکن طبقاتی نظام اور امیر و غریب کے لیے الگ الگ قانون معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ کوئی بھی حکومت یا ریاست کفر پر تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور ناانصافیوں پر اس کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ انقلاب فرانس کی فقط باتیں کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ عوامل کیا تھے جن کی وجہ سے استحصال زدہ کمزور عوام یوں اچانک اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ پوری ریاست اور اس کی فوج سے ٹکر لے لی۔ حکمران کہیں کے بھی ہوں اگر وہ اپنی بقا اور ملک کی قوم کی تعمیر و ترقی کے حقیقی معنوں میں خواہاں ہوں تو انہیں ظلم اور انصافی کے نظام کو ختم کر کے معاشرے میں یکساں نظام انصاف رائج کرنا ہی ہوگا ورنہ کب کہاں سے کوئی انقلاب سر اٹھائے اور سب کو بہا لے جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔