وجود

... loading ...

وجود

عدلیہ میں مداخلت ،سو موٹو نوٹس، چیف جسٹس کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

جمعرات 04 اپریل 2024 عدلیہ میں مداخلت ،سو موٹو نوٹس، چیف جسٹس کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں،اب ایک نیا کام شروع ہو گیا ہے، وکیل ہمیں کہتے ہیں ازخود نوٹس لیں،سو موٹو کا کہنے والے وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے، ہائی کورٹ ججز کے خط کے کئی پہلو ہیں، توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہائی کورٹ کو آئین نے دیا،جس عدالت کی توہین ہو رہی ہے کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے،کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں بھی احترام چاہتے ہیں،اس وقت سپریم کورٹ میں 7 ججز ہی موجود تھے، یہ بھی سوال اٹھا 7 ججز بیٹھے ہیں فل کورٹ کیوں نہیں بیٹھا؟ تو جتنے ججز اسلام آباد میں دستیاب تھے وہ یہاں موجود ہیں،دوسرے شہروں میں جانے والے ججز عید کے بعد دستیاب ہوں گے ۔بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا، سماعت کا آغاز کیسے کریں؟ پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، ہم نے کیسز فکس کرنے کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، ہم دنیا والوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں مگر ہمیں خود پر انگلی اٹھانی چاہیے، میں کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا، دوسروں پر انگلی اٹھانے سے بہتر خود کو دیکھنا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب ایک نیا کام شروع ہو گیا ہے، وکیل ہمیں کہتے ہیں ازخود نوٹس لیں، وکیل کہہ رہے ہیں کہ سوموٹو لیں، ان وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ ایک بات واضح کرتا چلوں کی عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔حامد خان نے کہا کہ بار ایسو سی ایشن تو سو موٹو کا کہہ سکتی ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی بات نہیں کر رہے ہیں آپ اپنے پر نا لیں، چار سال تک سپریم کورٹ میں فل کورٹ نہیں ہوئی، اس وقت ساری بارز اور وکلا کہاں پر تھے؟چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیے، پاکستان میں درجنوں بار ایسو سی ایشنز ہیں مگر ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہے، دوسری باڈی ہے پاکستان بار کونسل یہ بھی منتخب لوگ ہیں جنہیں آپ نے چنا ہے، انہیں ہم نہیں منتخب کرتے اس لیے ہم ان کی قدر کریں گے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہا ان کو بھی مان لو جو آپ کا مخالف ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طور پر نہیں ملتا۔چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ 26 تاریخ کو ہمیں ہائی کورٹ کے ججز کا خط ملا، اسی روز ہی افطاری کے فوری بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت تمام ججز سے ڈھائی گھنٹے ملاقات ہوئی، اگر ہم اس بات کو اہمیت نہ دیتے تو فوری چیف جسٹس ہاؤس میں فل کورٹ اجلاس نہ بلاتے، انہوں نے جرمن سیاستدان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ’گوئبلز‘ کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں، عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے ہیں، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، میں نے وزیر اعظم، وزیر قانون اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی، چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیر اعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لیے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کیا کہ چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، جب میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پہلی فرصت میں ملاقات طے کی جائے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ بھی بتا دیں کہ جو انکوائری کمیشن کیلئے نام ہم نے تجویز کیے تھے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل جسٹس (ر) تصدق جیلانی سمیت دیگر نام عدلیہ کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے، کابینہ کی میٹنگ کے بعد جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا نام فائنل کیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، تمام حکومتی ادارے حکومتی کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کے لیے سامنے آیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ تصدق جیلانی صاحب ایک غیر جانبدار شخصیت کے مالک ہیں، وزیر اعظم سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملے اور کمیشن کی تشکیل کا بتایا، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے کہا ٹی او آرز کے بعد جواب دوں گا۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، وکلا تب کیوں نہیں بولے جب چار سال تک فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا؟ ہم کسی قسم کا دباؤ نہیں لیں گے۔انہوںنے کہاکہ یہ تاثر کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو یا کمیشن کو دے دیے بالکل غلط ہے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آئین کا آرٹیکل 175 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آرٹیکل 184 سے شروع ہوتے ہیں، آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مگر میڈیا پر ایسا تاثر بنایا گیا کہ جیسے وفاقی حکومت اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تصدق جیلانی پر حملے کیے گئے، شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا وہ کہے گا آپ سنبھالیں، پتا نہیں کیا ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ میں آپ کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ میں پھر سیٹ بیلٹ باندھ لوں، چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقے لگ گئے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو مرزا افتخار نے قتل کی دھمکیاں دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ میری بات چھوڑ دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات کرنا بہت ضروری ہے، تاریخ سب کے سامنے آنی چاہیے، سرینا عیسیٰ ایف آئی آر درج کروانے گئی مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، اس وقت کی وفاقی حکومت نے معاملہ ایف آئی اے کو بھیج دیا، سرینا عیسیٰ 2 افراد کے بارے بیان ریکارڈ کروایا، مگر اس وقت کی وفاقی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا، اس سارے دور میں دو چیف جسٹس پاکستان ریٹائر ہو گئے مگر آپ نے 24 گھنٹوں میں معاملے کو اٹھایا کیا۔بعد ازاں جسٹس تصدق جیلانی کا کمیشن سربراہی سے معذرت پر مبنی لکھا گیا خط عدالت میں پیش کر دیا گیا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے تصدق جیلانی کا خط عدالت میں پڑھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ تصدق جیلانی نے مجھے اختیار دیا کہ معاملے کو حل کروں، میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں، ہائی کورٹ ججز نے ملاقات میں کہا آپ دونوں جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے خط میں بیان کچھ واقعات ایک سال یا اس سے کچھ پرانے ہیں، ان واقعات کے شواہد جمع کرنے ہوں گے اس لیے کمیشن تشکیل دینا مناسب سمجھا، عدالت کو آج بھی جو معاونت درکار ہے وفاقی حکومت فراہم کرے گی، ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی داؤ پر ہے، اس بات کی نفی کرتا ہوں کہ حکومت کی عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی پالیسی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ آپ ججز کا لکھا گیا خط پڑھیں، ہائی کورٹ ججز کا خط کئی مرتبہ پڑھا ہے اس کے کئی پہلو ہیں، خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے میں صرف اس کا چیئرمین اور ممبر ہوں، تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا، عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ججز کو دباؤ ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے، آج کل سوشل میڈیا کی نئی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز نے خط میں کہا کہ معاملے کی انکوائری کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے، انکوائری پولیس، ایف آئی اے یا پھر کمیشن کر سکتا ہے، ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کر دیا ہے، کبھی کسی جج کو توہین عدالت کی کارروائی سے نہیں روکا، توہین عدالت کی کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سمیت کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں۔چیف قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہائی کورٹ کو آئین نے دیا ہے، جس عدالت کی توہین ہو رہی ہے کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے۔اس پر منصور اعوان نے کہا کہ ججز کے خط میں 19 مئی 2023 کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کا بھی ذکر ہے، ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔اس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ وضاحت کر دوں کہ میں سینئر ترین جج تھا میرے بعد جسٹس سردار طارق سینئر تھے، ہم دونوں سینئر ججز کو چھوڑ کر جسٹس اعجاز الاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا، مجھ سے اس معاملے پر کبھی کوئی مشاورت بھی نہیں ہوئی تھی، ہائی کورٹ کے ججز سے ملاقات ہوئی لیکن میرے پاس بطور سینئر ترین جج کوئی اختیار ہی نہیں تھا، وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلا سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی استثنی حاصل ہے۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دیں گے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں بھی احترام چاہتے ہیں۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روکتے ہوئے کہا کہ یہ بات نہ کریں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں موجودہ حکومت کی بات کر رہا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی الیکشن کا معاملہ ہوا، لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہوں گے، ہم نے الیکشن کا کیس سنا اور 12 دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، ہم اپنا کام کریں گے اور سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے 300 وکلا کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تین سو وکلا کا خط چل رہا ہے مگر اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں، صرف نام لکھے ہیں وہ تو میرا بھی لکھ دیں۔بعد ازاں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا، انہوںنے کہاکہ ہم شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں، اس وقت سپریم کورٹ میں 7 ججز ہی موجود تھے، یہ بھی سوال اٹھا 7 ججز بیٹھے ہیں فل کورٹ کیوں نہیں بیٹھا؟ تو جتنے ججز اسلام آباد میں دستیاب تھے وہ یہاں موجود ہیں۔چیف قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ دوسرے شہروں میں جانے والے ججز عید کے بعد دستیاب ہوں گے، کیس کی سماعت 29 اپریل کو دوبارہ رکھ لیتے ہیں، تاریخ کے حوالے سے ججز شیڈیول دیکھ کر طے کریں گے۔بعد ازاں عدالت نے معاونت کے لیے تحریری معروضات مانگتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔یاد رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر