وجود

... loading ...

وجود

کالم سرائی

جمعرات 04 اپریل 2024 کالم سرائی

زریں اختر

آج کا کالم غزل نما،کالم غزل نہیں ہوسکتا غزل نما تو ہوسکتاہے ،اوروہ ایسے کہ جس طرح غزل کے اشعار میں ہر شعر منفرد ہی نہیں بلکہ متضاد خیال پر مبنی بھی ہو سکتا ہے ، پہلے شعر میںشاعر عشق ِ حقیقی میں فنا تو دوسرے ہی شعر میں عشق ِ مجازی سے بے حال یا پہلے شعر میں فرقت کی دہائی تو دوسرے شعر میں وصل سے دل بھر اہوا؛شاعرقدرت کی وہ منتخب ہستی ہے جو اضطرابی و اضطراری روح دے کر بھیجی گئی ہے ۔ ہمیں کبھی غزل پڑھتے ہوئے جسے ہم نثر میں ‘جھٹکا’ لگناکہتے ہیں نہیں لگتے ۔ نثر میں خیال کے بیان میں تسلسل نہ ہوتو اسے جھٹکا لگنا کہتے ہیں، قاری کو لگتاہے کہ ابھی تو کچھ اور بات ہورہی تھی اور اچانک کوئی اور ہی بات چل پڑی ہے ۔ اس جھٹکے کا احساس غزل پڑھتے یا سنتے ہوئے بالکل نہیں ہوتا۔ نثر میں جو کوتاہی قابلِ گرفت ہے وہی غزل میں قابل ِ قبول ہی نہیں قابل تحسین ہے،سامع یا قاری کی بے اختیار و بیک زبان و دل صدا نکلتی ہے کہ واہ ! شاعر نے کیسا انوکھا خیال اگلے ہی شعر میں باندھا ہے،اعلیٰ بہت اعلیٰ، میاں یہ تو شاعر ہی کرسکتاہے عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
عام آدمی کے بس کی بات کیسے ہو ؟عام گفتگو میں اسے خبط سمجھا جاتاہے جب کوئی ایک موضوع پر بات کرتے کرتے کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دے ۔اس کا تعلق دماغی عمل سے ہے ۔ جب بات چیت شروع ہوتی ہے تو ذہن اس سمت میں سوچنا اور خیال کی رسد بہم پہنچانے کا کام شروع کردیتاہے ، ایک بات سے دوسری بات ،ایک خیال سے دوسرا خیال ، خیالات کا ایک سلسلہ ترتیب پانے لگتاہے اب اگر اچانک مصنف یا مقرر کسی دوسرے موضوع پر چھلانگ لگادے جس کاقاری یا سامع تصور بھی نہیں کررہا ہوتا ، توخیالات جو ترتیب پا رہے تھے قلابازیاں کھانے لگتے ہیں ،آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ،ایسے میں سامع یا قاری مصنف یا مقرر کو شک بھری نظروں سے دیکھتا اور دل میں سوچتا ہے کہ اس کی طبیعت یا دماغ میں کوئی خلل تو نہیں۔ لیکچر کے دوران بھی ایسا ہوتاہے۔اگر استاد ایک موضوع پر لیکچر دیتے دیتے دائیں بائیں ہوجائے تو شاگردبھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں، اور سچی بات یہ کہ اب ان کابھی حق بنتاہے،استاد دائیں بائیں تو شاگرد آئیں بائیں۔
جو میدان غزل گو شاعر کو حاصل ہے ،نثر نگار اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ کالم نگاروں نے ایک تکنیک ضرور تراشی اور وہ یہ کہ کچھ منتخب خبروں پر مبنی مختصر تبصروں کے ساتھ کالم ترتیب دے لیا، نثری کولاژکہہ لیں ۔لیکن جو آزادی شاعر کو غزل دیتی ہے وہ نثار کو نثر بہرحال نہیں دیتی۔ہمارے دماغ میں کوئی خلل ہے نہ ہم خبطی ہیں بس غز ل سے حسد میں مبتلاکالم سرائی فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں:میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا۔
خواب دیکھا تھا کہ ‘میرے رستے میرے لوگ’کے عنوان سے کوئی پروگرام کرتے ۔عوام کے مختلف پیشے،ان کی حالت اور رستوں سے تعلق وغیرہ ۔اب رستے محفوظ نہیں ہیں۔ روزانہ سرراہ وارداتوں کی خبریں ضرور آتی ہیں ،مزاحمت ،ہلاکتیں زخمی ۔ ہم کہتے ہیںکہ مزاحمت نہ کریں تو کوئی پولیس یا ڈاکوئوں سے تھوڑی ملے ہوئے ہیںنہ یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔جب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ، خبریں لگتی رہیں گی ،ہم بھی اس شہر کا قرض اتارتے رہیں گے کہ یہیں پیدا ہوئے ،یہیں پلے بڑھے ،یہیں عمر گزری تو کیا بس دل میں افسوس کرتے ہی چلے جائیں؟ اپنے لیے ہی تھوڑی جینا تھا۔ ہم وہ نسل ہیں جس نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے عہد میں آنکھ کھولی، کبھی خیال کی مناسبت سے لاشعور کوئی نغمہ چلادیتاہے جیسے ابھی ناہید اخترکا گایا یہ گانا چلادیا:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے تو مشکل ہمت سے کام لینا
گرنے لگے جو کوئی تم بڑھ کے تھام لینا
انسان وہی بڑا ہے جس نے یہ راز جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
لاشعور کا ریکارڈ اتنا ہی بجا۔لو دوبارہ بجا
کرتاہے جیسے مالی اپنے چمن کی خدمت
کرنا اسی طرح سے تم بھی وطن کی خدمت
محنت سے زندگی میں ہرگز نہ جی چرانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ،اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں
ترکی کی خبر ہے ،اخباری سرخی کے مطابق ”ترکیہ بلدیاتی انتخابات،ریپبلکن پارٹی کی 70سال بعد تاریخی کامیابی،صدر اردوان کی جماعت کو بدترین شکست،اپنا احتساب کریں گے ، ترک صدر۔
”اپنا احتساب کریں گے ”بس یہی سرخی کاوہ حصہ ،ترکیہ صدر کا بیان،سوچ ،نیت ،ارادے کااظہار تھا جو قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ حزب ِ اختلاف کی کامیابی پراپنے بیان میں ترک صدر اردوان نے کہاکہ 31مارچ ہمارے لیے اختتام نہیں ٹرننگ پوائنٹ ہے،ترک عوام نے ووٹ کے ذریعے سیاست دانوں کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے،نتائج کا پارٹی میں جائز ہ لیں گے اور اپنا احتساب کریں گے۔
یہ جمہوری رویے ہیں جن سے ملکو ں میں جمہوری اقدار پنپتی اور فروغ پاتی ہیں۔ اگر صدر اردوان کو شاہی بخار چڑھا ہوتا تو یہ
شکست زوال کے سفر کے لیے کافی تھی لیکن اس دانش مندانہ اظہار سے یہ امید کی جاسکتی ہے اور یہ پیش گوئی ممکن ہے کہ صدر اردوان کی جماعت ترکیہ میں دوبارہ بر سرِ اقتدار آئے گی۔ناکامی کے بعد احتجاجی اور الزامی سیاست نہیں بلکہ خود احتسابی اور خود شناسی کاعندیہ ترکیہ کے جمہوری مستقبل کے روشن ہونے کی دلیل اورنوید ہے۔
ہم تو وہاں کھڑے ہیں کہ مخالف کا وجود تو کیا برداشت کریں گے آواز ہی برداشت نہیں۔پتا نہیں یہ ہمارے سیاست دان کن گودوں میں کھیلے اور کس زعم میں پلے بڑھے ہیں۔آواز خاموش کرادی جاتی ہے ، نشان عبرت بنادیاجاتا ہے ،ہماری سیاسی تاریخ مخالفین کو دھمکانے، ٹھکانے لگانے،لٹکانے ، اڑادینے ،بند کردینے کی ہے ۔ہم نے تو یہی دیکھا کہ اقتدار میں آئے تومخالف جماعت کے مقدمات کھل گئے ،جب مخالف جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے اسی عمل کو سنت مبارک سمجھتے ہوئے دہرایا ،اب مقدمات کا سامنا کرنے کی باری دوسری جماعت کی تھی ۔ یعنی ایک جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو دوسری عدالت میں اور جب دوسری جماعت اقتدار میں آتی ہے تو پہلی عدالت میں ۔ باریاں لگ رہی ہیں ۔ایوان سے عدالت اورعدالت سے ایوان تک کے فاصلے انہوں نے بھی کم نہیں ناپے۔ عدالت مقدمات سنتی نبٹاتی ہے کہ شاید یہی چھلنی کام کرے ۔اپنے حق میں فیصلہ آیا تو عدالتیں درست ، مخالف کے حق میں فیصلہ آیا تو وڈیو وائرل ،منصفین بد نام ،ابھی عدالت میں مقدمات کا سامنا کررہے تھے اقتدار میں آگئے تو مقدمات خارج اور دوسری جماعت کے مقدمات کھل گئے۔ یہی دائرے ہیں جس میں قیام کے ازل سے پوری قوم کی تاریخ اور قسمت چکر کھارہی ہے۔صحافیوں کو لفافوں میں گولیاں ملتی تھیں اب اعلیٰ عدلیہ کے منصفین کو لفافوں میں پائوڈر ملا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ ۔۔جوراسک پارک ایک منظر۔۔۔جنگل کا خوں خوار جانور بپھرا ہواحلق تک منہ پھاڑے کہ کوے سے آگے کا اندھیرا بھی دکھائی دے، ناک پھلائے ، دانت نکالے چنگھاڑ رہا ہے ،خو وووو خووووووو خوووووو۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر