... loading ...
زریں اختر
اتوار کو کالم لکھنے کی چھٹی کا خیال تھا لیکن دو خبروں نے جھنجھوڑ کر کہا کہ لکھو ۔ان دونوں خبروں کی نوعیت میں مشترک عنصر ‘عورت ‘ کا کردار ہے ۔ اگرچہ کہ دونوں مجرمانہ کاروائیوں میں مرد بھی ساتھ ہے لیکن یہاں عورت معتوب ہے ۔ ایک واقعے میں اس نے خود اور دوسرے میں اس کے معشوق نے جس مرد کی جان لی وہ عورت کا شوہر ہی نہیں تھا بلکہ ان کے بچوں کا باپ بھی تھا۔ اس طرح عورت نے اپنے شوہر کو قتل کرکے یا کروا کے اپنے ہی بچوں کو یتیم کردیا ۔ ان بچوں کی زندگی اچانک کتنی ہولناک ہوگئی اس کا تصور بھی محال ہے۔ باپ مقتول،ماں قاتل ؛باپ کے سائے کو چھین لینے والی ماں جیل میں ، یہ بچے کیسے تپتے صحرا میں آگئے!
ایک عورت کو مرد پاکستان سے نکاح کرکے کینیڈا لے گیا، وہاں خاندان بنایا، دوبچے ہوئے۔ عورت نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے بعد شوہر کو کاروبار کے بہانے پاکستان بھیجا ،شوہر اس کی خاطر پاکستا ن آیا ،بعد میںوہ اپنے منصوبے کے مطابق بچوں کو لے کر پاکستان پہنچی ،ایک رات شوہر کو باہر کھانا لینے بھیجا ، اس کا معشوق گلی میں منتظر تھا ، جہاں اس نے اس کے سر میں گولی مار دی۔ کینیڈا میں اس نے بیوی کی خوشی کے لیے الگ گھر لیا، بیوی کاروبار کرنا چاہتی ہے یہ سمجھتے ہوئے کپڑوں کے دوسوٹ کیس لینے پاکستان پہنچا، اس کے کہنے پر رات گئے کھانا لینے گھر سے نکلا ،حالاں کہ آج کل تو کسی بھی وقت گھر بیٹھے کھانے کا آرڈر دیا جاسکتاہے ، لیکن وہ خود ہی گیا۔یہ عورت اب جیل میں ہے اور اس کا معشوق قاتل فرار۔ دوسرے واقعے میں مرد نے کلفٹن پر فلیٹ اپنی عورت کے نام پر خریدا،بیوی چچازاد ، دونوں کی پسند کی شادی ، دو بچے ، دو دو گاڑیاں،یہاں عورت نے خود قتل کیا اور معشوق کے ساتھ فرار ہونے کی کوشش کی لیکن دونوں پکڑے گئے ۔ ایک اور واقعہ جو خبر نہیں بنا ،اس میں عورت بیٹی اور شوہر کو چھوڑ کر معشوق کے ساتھ بھاگ گئی ۔ شوہر نے نیکی کا اتنا اعلیٰ مظاہرہ کیا کہ اگرچہ وہ اس کی منکوحہ تھی اور اس صورت میں کیس کی نوعیت کیا بن سکتی تھی ،لیکن شوہر نے اسے طلاق دے دی اور اس نے خان دان کی ایک لڑکی سے نکاح بھی کرلیا،وہ مرد اور اس کا رہن سہن بھی ایسا تھا کہ لوگ لڑکی کی قسمت پر رشک کرتے تھے ،ادھر وہ لڑکی بھاگی ادھر دوسرے گھرانے نے اپنی بیٹی نکاح میں دے دی۔ اس عورت نے سماجی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی غلط قدم اٹھایا ،لیکن قانون اس لیے حرکت میںنہیں آیا کیوں کہ ایک طرف اس نے جرم کی سرحد نہیں چھوئی اور دوسری طرف اس کے شوہر نے کوئی تھانہ کچہری نہیں کیا بلکہ خود ہی طلاق بھی دے دی۔ ماں بننے کا مطلب ہمیشہ ممتا نہیں ہوتا، یہ عورتیں اس جذبے سے محروم رہیں جسے ممتا کہتے ہیں۔
ان دونوں مجرمانہ واقعات کی مماثلت کہ شوہر اچھا کمانے والا، معیارِ زندگی ایسا جس کا کوئی بھی عورت خواب دیکھتی ہے، شوہر عورت سے محبت کرنے والا بھی کہ ایک اپنی عورت کے کہنے پر پاکستان آیا اور دوسرے نے کلفٹن جیسے علاقے میں عورت کے نام پر فلیٹ خریدا،اللہ نے اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا ،تو پھر کیا کمی تھی ؟
محبت ایک لطیف جذبہ ہے ۔ وہ محبت کیسی جس نے اقدام ِ قتل کی راہ سوجھائی ؟ ان خبروں پر تبصرہ کرنے والوں میںسے ایک نے یہ بھی لکھا کہ طلاق لے لیتی۔ ہاں ! طلاق لے لیتی ،کہتی میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،میں فلاں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور وہ بھی مجھے چاہتاہے ۔ قتل کیوں؟ ہم اس جذبے کو محبت کا نام کیسے دیں جو ان دونوں عورتوں میں بہ حیثیت ”ماں” بھی نہیں جاگا؟یہ کیسا اندھا پن ہے جس نے اپنے بچوں کی طرف نہیں دیکھا کہ جس کو مار ڈالنے کی وہ منصوبہ بندی کررہی ہیںوہ ان بچوں کا باپ بھی ہے۔
یہ محبت نہیں ہے ، اس جذبے کو کسی بھی صورت محبت جیسے پاکیزہ جذبے کا نام نہیں دیاجاسکتا، تو پھر یہ کیاہے؟ یہ وہ جبلت ہے جس کی تسکین نہیں ہوئی اور جس کی مذہب ، معاشرہ ، تعلیم ،تربیت غرض کوئی تہذیب نہیں کرسکا نہ یہ عورتیں خود اپنی تہذیب کرسکیں،یہ جذبہ اتنا سر چڑھ کر بولا کہ اندھاکرکے ہی چھوڑا۔ اگر ان عورتوں کو اقدام ِ قتل پر موت کی سزا دی جائے اور ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی جائے تو یہ اپنے معشوق سے ملنے کی خواہش کا اظہارہی کریں گی اور اب بچا ہی کیاہے۔
وہ سماجی ادارے جو افراد کی تطہیر کرتے ہیںاگرچہ کہ ان کے کردار پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں لیکن ان ہی معاشرتی اداروں سے ایسے افراد بھی وابستہ ہیں جو واقعتا نیک ہیں ،جو اس معاشرے کی ڈھاتی اخلاقی قدروں کے لیے کھونٹیوں جیسے ہیں جس میں سماجی معیارات اور اخلاقیا ت ٹکی ہوئی ہیں ۔ یہ ادارے اپنا کردار اداکریں ۔ سزائوں سے ڈرا کے ہم اس معاشرے کے سدھا رمیںکوئی تبدیلی نہیں لاسکے ، نمازیں ، روزے ، حج عمرے ، قربانیاں؛ ان کی اہمیت اور مسائل پر جتنا وقت خرچ کرتے ہیں اس سے زیادہ اس معاشرے کی اخلاقی تربیت پر صرف کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
کھل کربات کریں ،مرد عور ت سے جنسی طور پر مطمئن نہیں ،عورت مرد سے جنسی طور پر مطمئن نہیں،مرد دوسری شادی کرے اورعورت طلاق لے کر دوسری شادی کرے۔ نہ مرد کی دوسری شادی کو برا سمجھیں نہ عورت کے طلاق لینے کو ۔ مرد کو اجازت ہے وہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے ،رکھے ، عورت کے لیے یہ جائز نہیں تو جو جائز رستہ ہے وہی چنے۔ جس عورت کو ماں ہونا نہیں روک سکا اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی سوائے جیل کی سلاخوں کے ۔ اب توآگ ہی آگ ان کا مقدرہے ، جلتی رہیں،ان کے جلنے پر کسی کو رتی برابر بھی افسوس نہیں۔ افسوس ان مردوں پر جنہیں ایسی عورتیں ملیں اور دکھ ان بچوں پر جن کی قسمت میں یہ مائیںلکھی تھیں۔