... loading ...
.
زریں اختر
میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر لکھنے کا اس سے بہتر موقع کیاہوگاکہ چار اپریل کو صوبہ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ بیک وقت دو کتابوں کا مطالعہ جو آج کل کررہی ہوں ،اس تجزیے تک لے آیا۔ لکھنے سے پہلے سوچاکہ اسی صوبے میں رہتی ہوں اور جس ادارے میں کام کرتی ہوںلیکن پھر لاشعور نے شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک کہنہ مشق (یہ لفظ سینئر کے معنوں میں استعمال کیاہے) اُستاد کی مثال پیش کردی ،ڈاکٹر مہدی حسن ۔۔۔پنجاب یونیورسٹی میں پاکستان کی درست تاریخ پڑھا دی ، عدالت میں پیشی ہوگئی ۔ جج صاحب نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ آرام سے نوکری کریں ،ایسے معاملات میں کیوں پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں فرمایا کہ’ ‘میں ایک اُستاد ہوں اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں اپنے طالبِ علموں کو درست تاریخ نہ پڑھائوں ‘ ‘۔ میرا خیال ہے کہ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایسا کوئی مضمون دوبارہ پڑھانے کے لیے ملانہیں ہوگا ۔مثال استاد کی عدالت میں پیشی کی ہے تو بات یہی تک رہے۔
جن دو کتابوں کا مندرجہ بالا سطور میں حوالہ دیاگیاہے ان میں سے ایک پر کالم کا سلسلہ جاری ہے ،خداکو منظور ہواتو قارئین اتوار کی اشاعت میں سلسلے کی اگلی قسط ملاحظہ کریں گے ۔ دوسری کتاب ‘مستقبل کی تاریخ’ ،مصنف ‘یووال نوح ہراری’ ، مترجم ‘سید سعید نقوی’ ، یہاں باب ‘گھریلو باغات کی مختصر تاریخ’ میں سے اس تحریر کے لیے منتخب جملے اور پارے واوین میں نقل کررہی ہوں:”اگر تاریخ کسی جامد اصولوں کی پابندی نہیں کرتی اور اگر ہم اس کے مستقبل میں سفر کی نشان دہی نہیں کرسکتے ،تو اسے پڑھنے کافائدہ؟ ۔۔۔ مورخین سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ہمارے آبا کی تاریخ کا جائزہ لیں تاکہ ہم ان کے صائب فیصلے دہراسکیں اور ان کی غلطیوں سے اجتناب برتیں۔لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیںہے کیوں کہ ہر حال ماضی سے بہت مختلف ہوتاہے۔۔۔۔لیکن سائنس محض مستقبل کی پیش بینی نہیں ہے۔ ہر شعبے میں ماہرین اکثر ہماری فکر کی سطح بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اس طرح ہمارے سامنے نئے اور نامعلوم مستقبل کے در وا کرتے ہیں۔تاریخ کی بابت بھی یہ سچ مخصوص ہے۔گو کبھی مورخ بھی پیش گوئی کی کوشش کرتے ہیں(کسی واضح کامیابی کے بغیر) ۔تاریخ کا مطالعہ ہمیں ان امکانات کا رخ دکھاتاہے جو شاید عام طور پر ہم نظر انداز کردیتے ۔مورخین ماضی کا مطالعہ اسے دہرانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک فرد ایک مخصوص تاریخی حقیقت میں پیداہوا ہے ،جس پر مخصوص اقدار و معمولات حاکم تھے ، جو ایک انوکھے سیاسی و معاشی نظام کا تابع تھا۔لیکن ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھتے بلکہ اسے فطری ، لازمی اور ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری دنیا مسلسل حادثاتی عملیات سے پیدا ہوئی تھی اور تاریخ نے نہ صرف ہماری ٹیکنالوجی ،سیاست اور معاشرت کو تراشا بلکہ ہماری سوچ ، خوف اور خواب کو بھی۔ تاریخ کا سرد ہاتھ ہمارے آبا کی قبروں سے برآمد ہوتاہے اور ہمیں گردن سے دبوچ کر ہماری نظر ایک واحد مستقبل کی طرف پھیر دیتاہے ۔ ہم اس گرفت کو اپنی پیدائش سے ہی محسوس کرتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے وجود کا ایک لازمی حصہ ہے ،لہٰذا ہم اس سے آزاد ہوکر متبادل مستقبل کا تصور بھی نہیں کرتے ۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں ماضی کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کرتاہے ۔ بالآخر ہم اپنا رخ دائیں بائیں موڑ کر متبادل امکانات دیکھنے لگتے ہیں، جو ہمارے آبا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ،یا تصور نہیں کرنا چاہتے تھے ۔جب ہمیں یہ ادراک حاصل ہوتاہے کہ ہمارے افکار اور خواب کس طرح تراشے گئے ،تو ہماری فکر اور خواب بدلنے لگتے ہیں ۔تاریخ کے مطالعے سے ہمیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ کسے منتخب کریں لیکن کم ازکم امکانات میں ضرور اضافہ ہوجائے گا۔
دنیا کو بدل دینے کی تحریکیں اکثر تاریخ کو بدلنے سے شروع ہوتی ہیںاوریوں افراد کو مستقبل کا ایک نیا تصور فراہم کرتی ہیں۔ چاہے آپ یہ چاہتے ہوں کہ کارکن عمومی ہڑتال پر چلے جائیں ،عورتوں کو اپنے اجسام کے متعلق خود فیصلے کرنے کا حق حاصل ہو،یا مظلوم اقلیتوں کو سیاسی حقوق مل سکیں،پہلا قدم ان کی تاریخ دوبارہ لکھنے سے شروع ہوتاہے ۔نئی تاریخ یہ بتائے گی کہ ہماری نئی صورت ِ حال نہ تو ابدی ہے نہ ہی الوہی ۔ حالات کسی وقت میں مختلف بھی تھے ۔محض حالات کے ایک سلسلے نے دنیا کو ایسا غیر منصفانہ بنادیاہے جیسا آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم عقل مندی کا مظاہرہ کریں تو ہم دنیا کو بدل سکتے ہیں، اور ایک بہت بہتر دنیا تخلیق کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکسسٹ سرمایہ داری کی تاریخ دہراتے ہیں، حقوق نسواں کے علم بردار پدرانہ معاشرے کی تشکیل کی تاریخ پڑھتے ہیںاور کالے امریکی غلاموں کی تجارت کی ہولناکیاں یاد کرتے ہیں ۔ وہ ماضی کو دہرانا نہیں چاہتے بلکہ اس سے آزادی چاہتے ہیں۔۔۔تاریخ کے مطالعے کی یہی سب سے اہم وجہ ہے ،اس سے مستقبل کی پیش گوئی نہیں بلکہ اپنے آپ کو ماضی سے نجات دلاکر متبادل امکانات کی تلاش ملتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ مکمل آزادی تو نہیں ہے لیکن ہم ماضی سے مکمل پیچھا تو نہیں چھڑاسکتے ۔پھر بھی ،کچھ نہ ہونے سے کچھ آزادی تو بہتر ہے ”۔
اصل طاقت فکر اور تخیل کی ہے ۔اس میں اتنی طاقت ہے کہ جس راہ پر لگائیں گے وہی سے رستے بنا کر دے گا ، یہ صحیح غلط، اچھا برا، سچ جھوٹ ،مثبت منفی ،حق باطل؛ یہ کسی بھی صورت یزداں اور ابلیس کے تصادم سے کم کا تصادم نہیں ،میں حکم لگانے کی قائل نہیں لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ یہ وہی ہے۔
میں یونیورسٹی میں اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب’تاریخ کا دریچہ’ میں’ ذوالفقار علی بھٹو’ کا انٹرویو پڑھ رہی تھی کہ میرے کانوں میں ”نعرئہ نعرئہ نعرئہ بھٹو جئے جئے جئے بھٹو اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے”کے نعرے گونجے ۔ میرے ذہن میں تضادات کا ایک باب کھل گیا،کیا میں اس باب کو ‘حقیقت اورفریب’کا عنوان دے سکتی ہوں؟