... loading ...
زریں اختر
ایک واقعہ لاہور کا ، ایک کراچی کا۔لاہور میں پتنگ کی ڈور نے نوجوان کی جان لے لی اور کراچی میں ایک اندھی گولی نے چالیس سالہ خاتون کی ۔ یہ تقریباًمعمول کے واقعات اور خبریںہیں۔ لاہور میں ہر سال ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوتاہے او ر کراچی میں بھی شہریوں کے دن دھاڑے راہ میں لٹنے ،مزاحمت پر گولی کا نشانہ بننے کی خبریں ۔۔ وقت کی ستم گری دیکھیے کہ خبر جوغیر معمولی واقعے کابیان ہے اب یہ غیر معمولی واقعا ت معمول کی خبریں بن گئے ہیں۔کراچی کامتذکرہ واقعہ سرِ راہ لٹنے میں مزاحمت کا نہیں بلکہ ڈاکو لوٹ مار کرکے فرار ہو رہے تھے ،لوگوں کے شور شرابہ کرنے اور پولیس کے پیچھاپر انہوں نے فائرنگ کی جس کی زد میں خاتون آگئیں۔ حادثا ت کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں بھی فرد کی غلطی کے علاوہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ ان تین مختلف وجوہات سے ہونی والی ہلاکتوں کے ذمہ داران کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے تو جو مشترکہ وجہ سامنے آتی ہے وہ ہے’ قانون کی عمل داری میں ناکامی’ ، اوراس کی کیا وجہ ہے ؟ بد انتظامی اور بدعنوانی ؛اس میں علت کون سی ہے اور معلول کیاہے ،سبب کون ہے اور نتیجہ کون ؟ بد انتظامی وجہ اور بدعنوانی نتیجہ ہے یا بد عنوانی وجہ اور بد انتظامی نتیجہ ؟ یایہ وجوہ ہی بنا ہیں اور نتیجہ بے گناہ شہریو ں کی بے وقت موت ۔
کب تک ہم نثر ہو یا نظم اسی طرح کے نوحے لکھتے رہیں گے ؟ ہم تو اپنے حکمرانوں سے یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ جرائم اور دہشت گردی کے واقعات ہمارا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ لیکن یہ عالمی مسئلہ ہمارا مسئلہ کیوں بناہے؟ اور کیایہ ہمیں یہ بتانے کے لیے ہیں کہ یہ عالمی مسئلہ ہے؟یہ تو ہمیں مہنگائی کے لیے بھی بین الاقوامی بازار کی قیمتوں کے اتار چڑھائو بتاتے رہے ہیں۔اپنے علاقے میں کب آئوگے؟ اپنی زمین پر کب اترو گے ؟ یہ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ سمجھیں کہ مسائل کیا ہیں ؟ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں؟ ان کے کیا حل ہیں اور وہ حل کیسے ممکن ہیں؟عوام کیا آپ کے بیانات سے یہ سمجھیں کہ چلو بھئی کم از کم مسائل میں تو ہم عالمی برادری کے ہم پلہ ہوئے۔
بھاگتے ہوئے ڈاکوئوں کی فائرنگ کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں،یہ ہلاکتوں کی وہ نوعیت ہے جو مزاحمت میںہونے والی ہلاکتوں سے تھوڑی مختلف ہے۔جو نصیحت اپنے بچوں کو کرتی ہوں ،وہی اپنے طالب علموں کو کرتی ہوں اور وہی عوام کے لیے کہ مزاحمت نہیں کرنی ،کیوں ؟ کیوں کہ قانون کی عمل داری نہیں،ہم سماجی طور پر اس دور میں ہیں جہاں خاموشی سے سر جھکا کر جان بچانا ہی عقل مندی ہے۔ یہ بزدلی نہیں ہے ،یہ وقت کاتقاضاہے جس کا سدھار عوام کے ہاتھ میں نہیں ۔اگرچہ کہ عوام کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات اور بعض وہ بھی جواپنی نوعیت میں ہولناک واقعات ہی کہے جاسکتے ہیں ،سامنے آئے ہیں،جہاں قانون کا نفاذ نہیں ہوتاوہاں ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں،لیکن جب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تو پھر قانون ان کے خلاف حرکت میں آسکتاہے اور آتاہے۔
وارداتی ہمیشہ عجلت میں ہوتاہے ،اسے فوراً بھاگناہے ۔ مزاحمت عجلت میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس لیے وہ گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتا۔ جب وہ واردات کرکے بھاگتا ہے تب اگر کوئی مزاحمت عوام کی طرف سے آتی ہے تو پھروہ فائرنگ کرے گا تاکہ اس کا پیچھا نہ کیا جائے ،وہ ردّعمل میں گولی چلائے گا،اب اس کی پستول سے جو گولی نکلتی ہے وہ اندھی گولی اس لیے کہلاتی ہے کہ کسی کو بھی جا لگے ، پیچھا کرنے والے کو یا کسی راہ گیر کو ، یا کنارے پر کھڑی کسی خاتون کو ،جیسا کہ چند روز قبل چالیس سالہ ناذیہ انجم زوجہ عبدالستار اورنگی ٹائو ن قطر اسپتال کی موٹرسائیکل پارکنگ میں اپنے شوہر کے ساتھ تھی ،شوہر کے بیان کے مطابق واقعہ پولیس کی ڈاکوئوں کو پکڑنے کی ناقص حکمت ِعملی کی وجہ سے پیش آیا۔ جہاں شہریوں کی جانیں پولیس کی حکمت عملی کی بھینٹ چڑھ رہی ہوں وہاں عوام کیا کرلیں گے ۔
اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہمارے پرانے محلے جمشید روڈ نمبر ٢ پر ہوا تھا۔ گھر بیٹھے جو خبریں ملیں وہ یہ کہ لڑکے آئے ، دکانوں پر لوٹ مار کی ، اور کھمبے کے پاس جوگولے گنڈے والا کھڑا ہوتاہے اسے گولی لگ گئی ،پھر اطلاع ملی کہ وہ مر گیا، بیو ی تھی ،بچہ کوئی نہیں تھا، والدین کا مجھے پتانہیں۔ روزانہ کے سودا سلف کے لیے میرا بھی بازار آنا جانا رہتاتھا ،گزرتے دیکھتے تھے ،بچے اس سے گولا گنڈا لے کرکھاتے تھے ، آپ کی گلی میں کوئی سبزی بیچنے والا روزانہ آتاہو تو وہ بھی جیسے محلے دار ہی بن جاتاہے ۔ میرے بچوں کو مجھے بڑا افسوس ہوا ۔ ایک دن میں بازار گئی تو اسی جگہ کھمبے کے نیچے اب ایک بھٹے والا کھڑا تھا جو پہلے ذرا فاصلے پر کھڑا ہوتاتھا۔ روح میں کہیں حقیقی واقعہ جاننے کی جستجو موجود تھی ۔ میں نے اس بھٹے والے سے پوچھا کہ اس دن کیا ہواتھا، تم کہاں تھے اس وقت؟ اس نے بتایا کہ لڑکے آئے تھے ،وہ واردات کرنے کے بعد بھاگ رہے تھے ، یہ کہتے ہوئے اس نے گلی کے نکڑ کی جانب اشارہ کیا کہ وہاں پہنچ گئے تھے ، پھر اس نے برف بیچنے والے کی جانب اشارہ کیا جس کی قریب کونے میں دکان تھی کہ’ اس نے ہوائی فائرکیا’ ، میں نے حیرت سے پوچھاکہ کیوں؟ بھٹے والے نے بھی اسی طرح حیرت سے جواب دیاکہ ہاں !کیوں؟ کہنے لگا کہ جب اس نے ہوائی فائرکیا تو انہوں نے کہ وہ گلی کے کونے پر پہنچ گئے تھے جوابی گولی چلائی جو اس گولاگنڈے والے کو لگ گئی ۔ اب کیوں اس برف والے نے ہوائی فائر کیا؟ کیا اس نے کبھی سوچا ہوگاکہ کاش وہ ہوائی فائر نہ کرتا ،جب واردات کے دوران نہیں کیا تو بعد میں کیو ں ، کیا ثابت کرنا چاہ رہاتھا؟ یہ کیسی مہم جویانہ بکواسیت ہے؟ اگر میں اس وقت پیشہ ور صحافی ہوتی اور کسی اخبار میں خبر دینی ہوتی یا کچھ اور تو ضرور اس برف والے سے بھی پوچھتی۔ وارداتیے کو واردات کے بعد بھاگنا ہے ۔ ان کی ذہنی کیفیت خوف اور بے خوفی کی درمیانی کوئی کیفیت ہوتی ہیں ، یہ اس پر بھی منحصر ہے کہ اس راہ پر وہ کتنے آگے جاچکے ہیں۔ لیکن پیچھاکرنا، شور مچانا، مزاحمت کرنا ؛اس سب کا جواب وہ پستول کا دہانہ کھول کر دیں گے۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں ۔