... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
معاشی حوالے سے پاکستان آج تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جسے ایک طرف پھر بد ترین لوڈ شیڈنگ ،بیروز گاری اور مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے تو دوسری جانب بدترین دھاندلی کے ذریعے ایسی حکمرانی کا تصور جس کا پس منظر سابقہ پی ڈی ایم دور کی لوٹ مار ، ناکام معاشی ،خارجی اور داخلی پالیسیاں ، صوبوں میں عدم اعتماد اور اس سے اُبھرنے والی مخاصمت بھی عوامی نفرت کی انتہا کا سبب ہے ۔ یہ پہلی بار ایک گھمبیرصورت حال کی عکاسی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 2024کے عام انتخابات میں وطن عزیز کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری اور حکمرانی کے تاج کی بھی وارث کہلانے کی حقدار قرار پائی ،مگر دانستہ اسے اقتدار سے محروم کر دیا گیا ،تحریک انصاف کے فاتح امیدواروں کی جیت کو ن لیگ کی جھولی میں ڈال دیا گیا ،حتیٰ کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے قیادت کے چہرے پر شکست لکھ دی ، عمران خان کو یہ کریڈٹ تو بہرحال جاتا ہے کہ عالمی فورمز پر بھٹو کے بعدانہوں نے وطن عزیز کا مقدمہ موثر انداز میں لڑا۔ او آئی سی سے لیکرشنگھائی تعاون تنظیم تک لیڈر شپ کے تمام اوصاف ان میں نظر آئے ،مگر انہیں جعلی مقدمات کے انتہائی عجلت میں کئے گئے ٹرائل میں پے در پے سزائیں سنادی گئیں ،امریکہ کیلئے سہولت کاری کے کرداروں نے جو سرکس سجایا اسے عوامی حلقوں نے قبول کرنے سے یکسر انکار کردیا ۔
ماضی کے اوراق اُٹھائیں ،یہ سوال جواب مانگتا ہے کہ کیاامریکہ کی جنگ میں80ارب ڈالر کا معاشی نقصان اور70000معصوم جانوں کا ضیاع ہماری آنکھوں پر بندھی غلامی کی پٹی کھولنے کیلئے کا فی نہیں ، ایک نام نہاد سپر پاور کا حلیف بننا ہمیشہ ہماری خود مختاری اور آزادی کے تشخص کو مسخ کرنے کے مترادف رہا 23کروڑ عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا جو دو بڑی پارٹیوں کے ادوار ِ حکمرانی میں برداشت اور تحمل کے کرب سے گزرتے رہے۔ محب وطن دانشوروں کے یہ مضبوط موقف کی عکاسی ہے کہ لوٹ مار کی تاریخ کا چہرہ ہم نے پہلی بار یوں دیکھا ۔بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ ہمارا مقدر ہو ئی ،جس کی ابتدا ایک بار پھر ہماری منتظر ہے ،ہمارے پاس 48ہزارمیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استطاعت ہے ، طلب 15سے16ہزار میگا واٹ ہے جبکہ بجلی کے بلوں میں ہم سے ایک لاکھ 75ہزار میگا واٹ کی قیمتیں وصول کی جارہی ہیں ،ہم نے ملک میں 7000میگا واٹ کا شارٹ فال بھی ایک ریجیکٹڈ حکومت میں دیکھاجس سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ مخصوص مقاصد کی خاطر بجلی کا بحران دانستہ ہمارے حصہ میں آیا ،بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں IPPsنے پاکستان سے 45ارب ڈالر کا منافع لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کیا جبکہ ہمارے بجلی پیدا کرنے والے اثاثے محض 5ارب ڈالر میں خریدے گئے ،بجلی کا گردشی قرضہ بجلی چوری نہیں ہے بلکہ وہ پاور پلانٹ ہیں جو چل بھی نہیں رہے اور ہم سے پیسے وصول کر رہے ہیں ،کیا ملک پر اقتدار کی لمبی انگز کھیلنے والی دو پارٹیوں کی قیادت کے اندر کبھی حب الوطنی کا یہ جذبہ اورعوام کا درد جاگا کہ ان لوٹ مار کرنے والی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرکے انہیں نیشنلائز کر دیا جائے ۔
عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک نے عوام کی زندگی کو ایک عذاب ِ مسلسل سے دوچار کیا ، ہمارے بجٹ کا نصف ان ساہو کار اداروں کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے ان مالیاتی اداروں کی ماضی کا ہر تخت نشیں من پسند پالیسیوں اور معاہدوں پر عمل درآمد کے ساتھ کڑی اور شرمناک شرائط لاگو کرانے میں ممدو معاون رہا جن پر عمل کرانے کی ریاستی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے ، موجودہ حکومت کیلئے اپنے پیدا کردہ مسائل کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہو گا ، داخلی قرضے جو روپے کی گرتی ہوئی قدر سے دن بدن مہنگے اور اُن کا بڑھتا ہوا حجم روپے کو مزید سستا کر رہا ہے سرمائے کا فرار رکنے میں نہیں آرہا ،ذمہ دار کون ہے؟ بیرونی کمپنیاں بھی جو اِس میں پیش پیش رہیں ایک مثال دینا ہی کافی ہوگا کہ صرف ایک سہہ ماہی میں اِن کمپنیوں نے 41ملین ڈالر کا سرمایہ کما کر باہر منتقل کیا پاکستان میں کاریں اسمبل کرنے والی تین بڑی کمپنیوں نے محض دو سال کے دوران 281ارب روپے کا منافع کمایا جبکہ ان میں سے دو کمپنیوں نے صرف 8ارب کا منافع ظاہر کیا اور تیسری نے ایک ارب سے زائد کا نقصان ظاہر کیا تاکہ ٹیکس کی مد میں کثیر رقم بچائی جاسکے، وطن عزیز ان سابقہ ادوار میں ہی ملک دشمن کمپنیوں کیلئے سرمائے کی ایک پرکشش منڈی بنا روشنیوں کے شہر کا امن ایک چیلنج اور بدامنی ایک روایت کی شکل اختیار کر گئی ،بھتہ خور مافیا اور ٹارگٹ کلرز نے منی پاکستان کی معیشت پر مسلط ہو کر لاشیں گرانے کا کھیل عام شہریوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک جاری رکھا یہ دو پارٹیوں کی مصلحت کا نتیجہ تھا کہ سماج دشمن قوتوں نے جو سیاہ و سفید سمجھا کر گزریں سابقہ ادوار حکمرانی میں ہی مفاہمتی فلسفے سے قائد کے شہر میں دہشت گردی کو فروغ ملا اب مزید خونریزی اور قتل و غارت گری کو روکنا حب الوطنی کا تقاضا تھا جس کا ادراک عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کی شکل میں قوم کو ہوا جنہوں نے کراچی کے معاملے پر تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف انسانیت کے درد کو مد نظر رکھا ،جسے ایک تاریخی سیاسی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے ۔
ایک معاشی بدحال ملک کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے روزانہ کے اخراجات 12لاکھ ،سالانہ 43کروڑ تھے ہماری قومی اسمبلی جس سے پی ڈی ایم نے دھڑا دھڑ عوام دشمن بل منظور کرائے روزانہ 40کروڑ پر چلتی رہی غرباء کی جیبوں سے ٹیکسز کے ذریعے جس قدر روپیہ نکالا جاسکتا تھا نکالا گیا اور بدلے میں صرف عوام کو طفل تسلیاں ،دلاسے اور اُمیدیں ملیں ماضی کی کرپشن ہمارا بڑا مسئلہ رہا سال 2008-09میں 323ارب روپے کرپشن ہوئی جبکہ صرف رینٹل پاور پراجیکٹس میں دوارب ڈالر کی کرپشن ہوئی جس کی تحقیقات کرنے والا ایک ایماندار اوربے گناہ نوجوان نیب آفیسر پر اسرار موت سے دوچار ہوا۔ ا سٹیل ملز میں 43ارب اور ٹی سی پی میں 9ارب کی کرپشن سامنے آئی پاکستان ریلوے ایک بڑے مالی خسارے سے دوچار ہوئی ،پی آئی اے جیسے منافع بخش ادارے کی تباہی ایک نئی ایئر لائن کے قیام کے منصوبے کی بناپر ہوئی ۔پاکستان ا سٹیٹ آئل مختلف اداروں کا ایک کھرب 49کروڑ کا نادہندہ ٹھہرا یہ صورت حال ایک مستقل اور مضبوط انقلابی پروگرام کا تقاضا شدت سے کررہی ہے۔ پرتگال اور یونان کی حکومتوں کو بھی ایسی کیفیات سے گزرنا پڑا۔