... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاکستان کی معیشت ناہموار ہونے کے ساتھ شدید دبائو کا شکار ہے جسے پیداواری شعبے پر توجہ اوربرآمدات بڑھاکر ہی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ملک کو اربوں ڈالر قرض ادائیگی کا سامنا ہے تو ساتھ ہی برآمدی سے درآمدی حجم بڑھتاجارہا ہے۔ یہ صورتحال معیشت کے لیے بدشگونی ہے مگر صاحبانِ اقتدار نے پیداواری شعبے کو ترقی دینے اور برآمدات بڑھانے پرتوجہ دینے کی بجائے تیل و گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ٹیکس لگانے کے نسخے پر انحصار کر رکھا ہے جس سے نہ صرف مہنگائی بلکہ پیداواری لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوتاجارہا ہے حالانکہ موجودہ حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے انتخابی مُہم کے دوران مہنگائی میں کمی لانے، دو سو سے لیکر تین سو تک بجلی مفت دینے اور تیل و گیس اور بجلی کے نرخ کم کرنے کے وعدے کیے تھے لیکن اب حکومت تشکیل دینے کے بعدتمام وعدے یکسر فراموش کردیے ہیں جس سے عدمِ استحکام جنم لینے کاخدشہ ہے معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں ایساہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈانواں ڈول معیشت کی وجہ سے ملک کی معاشی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آتیں سرکاری خزانہ خالی ہے اور دہشت گردی نے الگ ملک کو جکڑ رکھا ہے حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر قرض ملنے کا انتظار ہے لیکن خود پالیسی بنانے کی بجائے اب تک گومگوں اور بدحواسی کے عالم میں ہے ۔ مذکورہ مسائل کوحکمرانوں نے حل کرنا ہے مگر جب حکومتی ترجیحات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا جن سے یقین آئے کہ معاشی جادوگرملک کودرپیش مالی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ایسا تاثر گہر اہورہا ہے کہ مسائل کا تدارک حکومتی ایجنڈاہی نہیں اوروقت گزار پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
اسحاق ڈارایک سے زائد بار ملک کے وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں تجارت کا قلمدان بھی رہا اور وہ ہمیشہ دعویدار رہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے آئیں گے لیکن بطوروزیرِ خزانہ ااور وزیرِتجارت ناکام ہی ثابت ہوئے اور قرضوں پرملک کا انحصار بڑھتا گیاجس سے معیشت مزید ناہموار ہوتی گئی، اُن کی ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اب وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا ہے لیکن اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے وزارتِ خزانہ کو مشورے دینے لگے ہیں۔ہفتہ 23 مارچ کولندن میں پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان کے تاجر چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہو حکومت اِس کا جائزہ لے گی اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاملات کو سنجیدگی سے دیکھیں گے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اگست 2019میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات کو دھچکا لگا ۔اسحاق ڈار کا بھارت کے ساتھ تجارتی حوالے سے موقف بے وقت کی راگنی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان نے بھارت سے آزادانہ تجارتی پالیسی اپنائی تو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا کیونکہ تجارتی حوالے سے ہمیشہ بھارت کو برتری حاصل رہی۔ مکار وعیار بھارت نے پاکستان سے چاول اور نمک منگوا کر عالمی منڈی میں اپنے نام کے ساتھ بیچ کرخوب منافع کمایا ممکن ہے ایک آدھ تاجر کو بھارتی سامان منگوانے سے نفع ہوا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارت سے تجارت میں پاکستان ہمیشہ خسارے میں رہا ۔
بھارت کے ساتھ کئی ایسے مسائل ہیں جن کی موجودگی میںتجارت اصولی موقف سے انحراف ہوگا۔ ویسے بھی جب وزیرِ تجارت کی حیثیت سے اسحاق ڈار کو بخوبی تجربہ ہو چکا کہ بھارت صرف پاکستان کو اپنے سامان کی منڈی بنانے کے سوا کچھ اہمیت نہیں دیتا تو اب وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے دیارِ غیر میں بیٹھ کر اُنھیں کیا سوجھی کہ بھارت سے تجارت کے فوائد گنوانے لگے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس میں اُن کا اپنا کوئی مفاد ہے؟بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کی حالتِ زار کے باوجود تجارتی تعلقات مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ اِس لیے بہتر ہے کہ اسحاق ڈار وزارتِ تجارت کے معامالات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کریں اور جن کاکام تجارتی معاملات دیکھنا ہے۔ انھیں اپنی ہدایات کے مطابق چلانے کی بجائے آزادانہ کام کرنے دیں جب یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھارتی قیادت کو پاکستان سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں نہ ہی وہ پاکستان سے تجارت کی آرزو رکھتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وزرا کیوں تجارت کے لیے ہلکان ہیں ؟
پاک بھارت تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے مبصرین متفق ہیں کہ اِس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاقِ رائے کا فقدان ہے نیز دفترِ خارجہ کے اندربھی منقسم رائے پائی جاتی ہے توپھر اتنا تو دریافت کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی کے تناظر میں کسی ٹھوس تجویز پر غور ہی نہیں ہورہا تو وزیرِ خارجہ کو یہ بے پرکی چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے یہ بیان عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے دیا ہے اور اِس بیان کو عالمی طاقتوں کی آشیر باد حاصل ہے بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کے حامیوں کاخیال ہے کہ علاقائی تجارت پاکستان کو اپنی معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک میں حقیقی تجارتی صلاحیت بیس سے پچیس بلین ڈالر تک موجودہے مگر سرکاری ذرائع ایسے اندازوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ بھارت سے تجارت شروع کرنے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حدتک کم ہو سکتے ہیں ۔
حکومت کو چاہیے کہ کسی فیصلے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ ایسے حالات میں جب بھارت میں رواں برس اپریل سے عام انتخابات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے جو مئی تک جارے رہے گا۔ اِن حالات میں انتظار کرناہی دانشمندی ہے کیونکہ مئی میں نئی دہلی میں نئی حکومت تشکیل پانے کے بعدہی معلوم ہو گا کہ اُس کی ترجیحات کیا ہیں اور کیاپاکستان سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہے؟ابھی تک تو بھارتی قیادت کی طرف سے ایسا کوئی اِشارہ نہیں مل رہا کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کشیدہ تعلقات کے باوجود شہبازشریف کو تہنیتی پیغام موہوم سا اشارہ ہے کہ مودی سرکار پاکستان سے مزاکرات کے دروازے بالکل بند نہیں کرنا چاہتی ۔پانچ اگست2019 کومتنازع جموں و کشمیر خطے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی ایسا فیصلہ نہیں جو اتنی جلدی بھلا دیا جائے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ مارچ2021میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC)نے جزوی طورپر تجارت شروع کر نے کا فیصلہ کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر عوامی حلقوں نے شدیدردِ عمل ظاہر کیا۔عوامی مزاج کو بھانپتے ہوئے ہی جزوی تجارت شروع کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا گیا ۔اب اسحاق ڈار کا اچانک اصولی موقف کے برعکس تجارتی تعلقات کی وکالت کرنا عوامی جذبات کو اُبھارنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب تحریکِ انصاف احتجاجی سیاست پر متفق ہے ،عوامی مزاج کے برعکس حکومتی فیصلوں سے اپوزیشن کوفائدہ ہوسکتاہے جس سے ایک بڑی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ عوامی غصے کو شدید ترکرنے سے گریز کیا جائے۔