... loading ...
ایم سرور صدیقی
لگتاہے پاکستانی شہریوں کے کٹھن دن پھر آنے والے ہیں کیونکہ ہر آنے والے لمحات کے ساتھ عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کا تانا بانا بنا جارہاہے حکومت کا ایک ہی ایجنڈہ ہے ٹیکسز۔۔ ٹیکسز اور ٹیکسز اسی لئے ابتدائی طور پرفیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے ڈیلرز، ریٹیلرز، مینوفیکچرر، امپورٹر کم ری ٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔یکم اپریل سے ابتدائی طور پر 6بڑے شہروں میں رجسٹریشن کی جائے گی، عمل نہ کرنے والے کی نیشنل بزنس رجسٹری میں زبردستی رجسٹریشن کی جائے گی۔ ملک کے 6بڑے شہروں میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں۔ایف بی آر کی تاجر دوست ایپ کے ذریعے تاجروں اور دُکانداروں کا سینٹرل ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، لازمی رجسٹریشن اسکیم پر اسٹیک ہولڈرز سے بھی رائے طلب کرلی گئی ۔تاجروں سے ٹیکس دُکان کی سالانہ رینٹل ویلیو کے حساب سے وصول کیا جائے گا، اسکیم کے تحت ہر دُکاندار کو سالانہ کم از کم 1200 روپے انکم ٹیکس دینا ہوگا، پہلی ٹیکس وصولی 15 جولائی سے ہوگی۔ہر ماہ کی مقررہ 15 تاریخ سے پہلے ٹیکس دینے کی صورت میں 25 فیصد رعایت ملے گی جبکہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے انتہائی دریا دلی سے اعلان کیاہے کہ 2023ء کا انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کروانے والے تاجروں کو رعایت ملے گی۔ لازمی رجسٹریشن اسکیم کی زدمیں50 لاکھ چھوٹے بڑے دکاندار آنے والے ہیں۔ملک میں ٹیکس وصولی کے سلسلہ میں ہوشربافرق سامنے آیا ہے جس کا تخمینہ 58 کھرب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتا ہے، اس میں صرف پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق تقریباً10 کھرب روپے ہے۔ یہ انکشاف وزیر اعظم شہباز شریف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کردہ پریزنٹیشن میں کیا گیا۔ مالی سال 2022-23کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سالانہ بنیادوں پر جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق جی ڈی پی کے تقریباً 6.9فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو 58 کھرب روپے کے برابر ہے۔ اسمگلنگ، ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع سے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق سالانہ بنیادوں پر996 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا تخمینہ ہے۔ ریٹیل سیکٹر کے ٹیکس فرق کا تخمینہ 888 ارب روپے، ٹرانسپورٹ سیکٹر کا562ارب روپے، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)498 ارب روپے، اسمگل شدہ اشیائ355 ارب روپے، برآمدات342 ارب روپے اور رئیل اسٹیٹ کا148 ارب روپے سالانہ بنیادوں پر لگایا گیا ہے۔ دیگر زمروں میںایف بی آرنے سالانہ بنیادوں پر آمدن کے فرق کا تخمینہ16 کھرب روپے لگایا ہے۔ سیلز ٹیکس میں ریونیو کا سب سے زیادہ فرق موجود ہے اور کچھ اندازے یہ بتاتے ہیں کہ یہ سالانہ بنیادوں پر29 کھرب روپے تک جا سکتا ہے۔ انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ سمیت سالانہ بنیادوں پر کسٹمز میں فرق کا تخمینہ تقریباً600 ارب روپے ہے۔ ایک اور اہم بات جس پر حکومتی ذرائع پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹیکسزکے اہداف میں ناکامی پر بجلی،گیس،رئیل سٹیٹ انڈسٹری اور پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی کرنے لئے جو تجاویز دی جارہی ہیں۔ اس کو فی الحال چھپایا جارہاہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اپنی تشخیصی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ پالیسی کی سطح پر ٹیکس کا فرق بہت زیادہ نہیں اور یہ جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ12.9فیصد تک جا سکتا ہے۔ پی ایم اور ایس آئی ایف سی کو دی گئی اس پریزنٹیشن میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے کہ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان واضح فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجموعی قومی محصولات اور جی ڈی پی کے حساب سے اخراجات کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ وفاقی ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا9.1 فیصد رہا جبکہ وفاقی نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا1.2فیصد رہا۔ جی ڈی پی میں صوبائی ٹیکسوں کا حصہ جی ڈی پی کے 1فیصد کے قریب ہے۔ کل آمدنی جی ڈی پی کا11.4فیصد رہی۔ اخراجات کے محاذ پر وفاقی اخراجات جی ڈی پی کا تناسب12.9فیصد رہا جبکہ جی ڈی پی کے صوبائی اخراجات 6.1 فیصد کے قریب رہے، اس طرح جی ڈی پی کے کل اخراجات جی ڈی پی کے 19فیصد تک پہنچ گئے۔ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جی ڈی پی کا7.6 فیصد کا فرق ہے۔ جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق کے خلا کو اگر رساؤ کو ختم کر کے پورا کیا جائے تو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے5.8فیصد تک قومی خزانے کو پْر کیا جا سکتا ہے۔ اس مالیاتی فرق کو مالیاتی خسارہ کہا جاتا ہے اور اس کی مالی اعانت ملکی اور بیرونی راستوں سے قرضے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ماہر ین ِمعاشیات کا کہناکہ ملک قرضوں کے جال میں ڈوبا ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی شہریوںکا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے۔ نازک مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت فیڈرل پالیسی بورڈ، ٹیکس پالیسی آفس کی علیحدگی، جوائنٹ ویلیوایشن، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی علیحدگی، نادرا کے ساتھ تعاون پی آر اے ایل کی تنظیم نو، ڈیجیٹل انوائسنگ، ایس ڈبلیو اے پی ایس، تاجر دوست ریٹیلرز اسکیم، دستاویزی قانون اور جدید گورننس کا ڈھانچہ اور نگرانی بورڈ کے ذریعے ایف بی آر کی تنظیم نو کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس ضمن میں ہماری تجویز یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوںکی ادائیگی کے لئے تمام اشرافیہ بیوروکریسی ، ارکان ِ اسمبلی ،وزیر و مشیروںسے یہ رقم وصول کی جائے عوام یر ٹیکسز کیوں لگائے جا رہے ہیں ۔عوام نے تو یہ قرض نہیں لیا وہ تو ہر چیز پر ٹیکسز پہلے ہی ادا کررہے ہیں ۔یہ تجویز طبع ِ نازک پر گراں گزری ہے تو حکومت کے لئے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ ٹیکسزکے اہداف پورے نہیں ہوتے تو لازمی رجسٹریشن اسکیم کے تحت ہر وہ شخص جس کا شناختی کارڈ بناہواہے اس پر فکس ٹیکس لگادیا جائے یقینا اس سے حکومتی اخراجات، وزیروں ،مشیروں اورپروٹوکول مافیا کیلئے آسانیاں پیداہوں گی اور احسن طریقے سے معاملات چلائے جاسکتے ہیں۔