... loading ...
معصوم مرادآبادی
جمہوریت کے قیام کے بعد راجدھانی دہلی نے کئی نظارے دیکھے ہیں۔ان میں کچھ دلچسپ تھے اور کچھ سبق آموز۔ لیکن اس وقت راجدھانی میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ایک منتخب سرکار کے وزیراعلیٰ کو جیل میں ڈال دیا گیاہے اور اس کے کابینی وزیرو ممبران اسمبلی سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے ہیں جبکہ جمہوری طورپر منتخب ایک پوری صوبائی سرکار اپنے دستوری حقوق کے لیے دربہ در کی ٹھوکریں کھارہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے کارکنان ملک گیر سطح پراحتجاج کرتے ہوئے اروندکجریوال کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔کجریوال کو بدعنوانی اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ای ڈی نے گرفتار کیا ہے ۔انھوں نے ابھی تک اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا ہے ۔
ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک وزیراعلیٰ اپنی کرسی سمیت سلاخوں کے پیچھے ہے ۔یہ وہی وزیراعلیٰ ہے جس نے ایماندارانہ سیاست کی قسمیں کھاکر اقتدار حاصل کیا تھا، لیکن خودبے ایمانی کی دلدل میں پھنس گیا ہے ۔ کجریوال کو دہلی کی آب کاری پالیسی تبدیل کرکے جگہ جگہ شراب خانے کھلوانے کا فائدہ کتنا پہنچا ؟یہ ابھی واضح نہیں ہے ، لیکن اس کا نقصان کجریوال اور ان کی پارٹی کو ضرور پہنچ گیا ہے۔ اپوزیشن نے کجریوال کی گرفتاری کو انتقامی سیاست سے تعبیر کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں کجریوال کی پشت پر جس طرح کھڑی ہوگئی ہیں، اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں بی جے پی کو یہ داؤ الٹا بھی پڑسکتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس حکومت نے بدعنوانی کے الزام میں صرف اپوزیشن لیڈروں کو ہی نشانہ بنایا ہے اوران کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکموں کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔ اس دوران اگر کسی پارٹی کا کوئی بدعنوان لیڈر بی جے پی میں شامل ہوگیا ہے تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں ان ہی لوگوں کے خلاف کارروائیاں انجام دے رہی ہیں جو سرکار کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ عام انتخابات سے پہلے ہورہا ہے اور اس کا سیاسی پیغام بہت واضح ہے ۔
اروند کجریوال تیسری بار دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔70 رکنی دہلی اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 62 ہے اور باقی آٹھ ممبران بی جے پی کے ہیں۔ بی جے پی ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگانے کے باوجود دہلی کے عوام کو کجریوال اور ان کی پارٹی سے بدظن نہیں کرسکی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کجریوال نے دہلی کے عوام کو بہت فیض پہنچایا ہے ۔ بجلی پر سبسڈی، اسکولوں اور اسپتالوں کی کایا پلٹ، عوامی خدمات دروازے پرمہیا کرانے جیسے اقدامات نے انھیں عوام کا مقبول لیڈر بنادیا ہے ۔ اسی مقبولیت نے انھیں پنجاب میں اقتدار تک پہنچایا ہے ۔ اس بار عام آدمی پارٹی نے انڈیا اتحاد کے ساتھ مل کر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دہلی اور پنجاب میں اس نے کانگریس کے ساتھ سیٹیں شیئر کی ہیں۔ دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں میں سے چار پر عام آدمی پارٹی اور تین پر کانگریس کے امیدوار لڑرہے ہیں۔بی جے پی چاہتی تھی کہ کجریوال کانگریس سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں، لیکن مسلسل ہراسانی نے انھیں انڈیا اتحاد کے ساتھ جانے پر مجبور کیا ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار ہے ، جس کی کمان وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے ہاتھوں میں ہے ، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ دہلی میں دوسرکاریں ہیں۔ ایک لیفٹیننٹ گورنر کی سرکار اور دوسری کجریوال کی سرکار۔ یعنی ایک میان میں دو تلواریں۔ کجریوال کا کوئی بھی حکم گورنر کے دستخط ہونے کے بعد ہی نافذ ہوتا ہے ۔ اس لیے کجریوال سرکار اب کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتی ہے کہ کہیں کچھ اور نہ ہوجائے ۔پچھلے سال گورنر نے ایسی حکمت عملی بنائی کہ دہلی حج کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر بی جے پی ایک مسلم خاتون کو کامیاب کرادیا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی سرکار نے عرصے سے دہلی اردو اکادمی، وقف بورڈ اور اقلیتی کمیشن کسی تقرری کا جوکھم نہیں اٹھایا ہے اور یہ ادارے بے یارومددگار پڑے ہیں۔ دہلی میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ عدالت میں ہے ۔ دہلی میں پولیس، دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر کلیدی محکمے مرکزی حکومت کے پاس ہیں اور باقی وزیراعلیٰ کے پاس۔یہی وہ پیچ ہے جس میں دنوں پھنسے ہوئے ہیں۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال پر کئی مہینوں سے گرفتاری کی تلوارلٹکی ہوئی تھی۔ نئی شراب پالیسی کامعاملہ جس میں ان کے دو سابق کابینی وزیر،ایک راجیہ سبھا سمی ممبراورکئی دیگرلوگ تہاڑ جیل میں قید ہیں، ایک ایسا معاملہ ہے جس کی پرتیں مسلسل کھل رہی ہیں۔ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعلیٰ کو عہدے پر رہتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے ، ورنہ اس سے پہلے جن وزرائے اعلیٰ پر بھی بدعنوانی یا ہیرا پھیری کے الزامات لگے ہیں، انھوں نے استعفیٰ دے کر ہی گرفتاری پیش کی ہے ۔ ان میں بہار کے لالو پرشاد یادو، تمل ناڈو کی جے للتا، کرناٹک کے بی ایس یدی روپا اور جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین شامل ہیں۔پچھلے دنوں جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین پر جب شکنجہ کس دیا گیا تو انھوں نے استعفیٰ دے کروزیراعلیٰ کی کرسی اپنی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کو سونپ دی۔ لیکن دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے گرفتاری کے بعد کہا ہے کہ وہ جیل سے ہی سرکارچلائیں گے ۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ سیاست کا آٹھواں عجوبہ کہا جائے گا۔انھیں وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے ۔
کجریوال عام آدمی پارٹی کے بانی ہیں اور انھوں نے سیاست میں ایمانداری کے نام پر سرکار بنائی ہے ۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ اسی ایمانداری کی بخیہ ادھیڑنے کے الزام میں یکے بعد دیگرے ان کے لوگ سلاخوں کے پیچھے جارہے ہیں اور وہ خود بھی وہیں پہنچ گئے ہیں۔ دہلی کی نئی آب کاری پالیسی کی دلدل ایسی ہے جس میں ان کی پارٹی کے تمام بڑے لیڈر پھنس گئے ہیں۔ کجریوال نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا، لیکن انھیں وہاں بھی راحت نہیں ملی۔اس کے بعدشام کو ای ڈی کی ٹیم دسواں سمن لے کر ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچی۔ ان سے دوگھنٹے پوچھ تاچھ کی۔ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔عدالت نے کجریوال کوچھ دن کے لیے ای ڈی کی حراست میں دیا ہے ۔
آئیے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ آخر وہ تبدیل شدہ آبکاری پالیسی کیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی پر بدعنوانی کے ایسے سنگین الزامات لگے ہیں کہ اس کی ساری سیاسی کمائی مٹی میں جاتی ہوئی نظرآرہی ہے ۔ دراصل نومبر2021میں راجدھانی دہلی میں ایک نئی شراب پالیسی
متعارف کرائی گئی جس کے نتیجے میں یہاں جابجا شراب کی بڑی بڑی دکانیں کھل گئیں۔ حکومت پر الزام لگا کہ اس نے شراب کے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان کا کمیشن بڑھایاجس سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا۔اس میں رشوت خوری کا بھی الزام عائد ہوا۔مجموعی طور پر دوسو کروڑ روپے کی ہیرا پھیری ہوئی اور یہ رقم عام آدمی پارٹی نے گووا کے اسمبلی انتخابات میں خرچ کی، جہاں اسے اقتدار میں آنے کی امید تھی۔دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ان سبھی الزامات اور شکایتوں کی جانچ کرائی اور اس میں مالی بے ضابطگیاں پائے جانے کے بعدسی بی آئی سے تحقیقات کی سفارش کی گئی۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں ملک گیر سطح پر کئی جگہ چھاپے مارے اور پندرہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، ان میں بی آرایس لیڈر کویتا بھی شامل ہیں، جنھیں چند دن پہلے ہی گرفتار کیا گیا ہے ۔ اسی معاملے میں سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اورممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ بھی جیل میں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کجریوال کی گرفتاری کے بعد دہلی سرکار میں جو آئینی بحران پیدا ہوا ہے ، اس کا حل کیسے نکالا جائے گا۔