... loading ...
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔
آج کل
پاکستان کی اشرافیہ خصوصاً حکمراں خاندانوں کے نزدیک دولت اور عہدہ ہی اصل میں سب کچھ ہے ۔ان کو ملک سے د لچسپی صرف اسی قسم کی بے پناہ مراعات اور دولت کی وجہ سے ہے۔ کسی بھی نامناسب حالات کی پیش بندی کے لیے انہوں نے بیرون ملک جائیدادوں کے ذریعے محفوظ پناہ گاہیں بنالی ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ شاید یہ مرغی ان کے لیے سونے کے انڈے دینا کسی وقت بھی بند کرسکتی ہے ۔حکمراں طبقات نے اپنی دولت کے بارے جو کچھ ظاہر کرکھا ہے، اسے عمومی طور پر جھوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ بظاہر ان کے کاغذات درست ہو سکتے ہیں ، ان کی ملکی اور غیر ملکی جائیدادوں اور کاروبار سے شاید ہی کوئی انکار کرے گا ۔دولت اور عہدے کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتاہے لیکن اس کے حصول کے لیے چور دروازے استعمال کیے جائیں، جائز اور ناجائز کی پرواہ نہ کی جائے تو یہ رجحان ایک کینسر یا تباہی کی آگ کی صورت میں پورے معاشرے میں پھیلنے لگتاہے۔ نتیجے میں خود اعلیٰ عہدوں پر فائزافرادبھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔
8فروری کے انتخابات میں پاکستان کے عوام نے شدید نامناسب حالات ،مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اس آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی تاکہ معاشرہ قانون کی حکمرانی،انسانی حقوق کی بحالی اور مہنگائی کے خاتمے کا سفر شروع کرسکے لیکن 8فروری کی رات نتائج روک کر 9فروری کے بعد سے اب تک دھاندلی سے مسلط کردہ غیر نمائندہ حکومت قائم کردی گئی۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف ،جماعت اسلامی، جی ڈی اے ،بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خواہ ملّی عوامی پارٹی اب بھی انتخابات کے اصل نتائج کو سامنے لانے یا نئے انتخابات کے لیے عوامی تحریک چلارہے ہیں۔ انتخابات میں عوام نے بھر پور کوشش کی کہ پاکستان بھی ایک بہتر جمہوری ملک کی صورت میں سامنے آئے، جس میں ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری ہو ،عوام کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ اور موروثی حکمرانی کے فلسفے پر مشتمل جماعتیں ایک جعلی اور مصنوعی نظا م کو ملک پر مسلط کرکے اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں۔ اب وہ پاکستان میں اس دھاندلی کا موازنہ سابقہ انتخابات سے ملا کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہر قدم پر انہیں اس لیے ناکامی ہورہی ہے کہ خود ان کے لوگ گواہی دے رہے ہیں کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے ۔جب الیکشن کمیشن کے فارم45اور ہارنے والے امیدواروں کے فارم45کا تجزیہ سامنے آنے لگا اور ٹی وی پر بحث شروع ہوگئی جس سے حکمراں جماعت اور ان کے اتحادیوں کو مزید رسوائی کا سامنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام میں صرف ایسے بیانات کو پزیرائی مل رہی ہے جس میں دھاندلی کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور موجودہ حکمراں جماعت کی مخالفت کی جاتی ہے۔ دھاندلی کے خلاف جاری عوامی تحریک میں عوام کی شمولیت کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا اور وہ سیاستدان جو اس دھاندلی زدہ حکمرانوں کا براہ راست یا بالواسطہ ساتھ دیں گے وہ عوام میں اپنی ساکھ کھو دیں گے۔ عوام کا بڑھتا ہوا غم و غصّہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ تمام سیاستدان جو اب تک اپنی بیرون ملک جائیدادوںاور دولت کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہو چکے ہیں ، ان کے عہدے بھی مشکوک ہیں،زمینی حقائق اور میڈیا رپورٹوں سے جس عوامی رجحان کی عکّاسی ہوتی اس سے واضح ہورہا ہے کہ جلد یا بدیرہیراپھیری سے بر سراقتدار غیر نمائندہ اراکین اور وزیروں کو عوامی خواہشات اور انتخابی نتائج کی سچّائی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ جتنے عرصے وہ عہدوں سے چمٹے رہیں گے ا ن پرلگائے گئے مینڈیٹ چوری اور فراڈکے الزامات میں شدّت آتی جائے گی۔ گلی گلی محلے محلے ان کے خلا ف نعرے لگ سکتے ہیں جسے طاقت سے دبانے سے ان کے خلاف نفرت میں شدّت آئے گی اور ملک میں ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوگا جس میں برسراقتدار جماعتوں کے سرکردہ رہنما کو ہر جگہ عوامی نفرت کا سامنا کرنا ہوگا ۔جسے وہ برداشت نہیں کرسکیں گے اور بیشتر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ملک سے فرار ہوجائیں گے۔ دھاندلی کا شور اس لیے زیادہ ہے کہ اس مرتبہ 10 کو کئی جگہ 100 اور100کو1000بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ سب بے نقاب ہو کر میڈیا اور عوام کے سامنے آگیا ۔
یہ ایک مرحلہ وار دھاندلی تھی جو انتخابات سے پہلے گرفتاریوں ، انتخابی نشان سے محروم کرنے ، انتخابی مہم پر پابندی کے ذریعے پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کے اقدامات کے ذریعے کی گئی۔ بعد ازاں انتخابی دن گزرنے کے بعد نتائج روک کر ریٹرننگ افسران کے ذریعے نتائج میں ہیر پھیر کے ذریعے کی گئی۔ اس موقع پر انٹر نیٹ اور موبائل سروس کو بند کردیا گیا۔ان تمام اقدامات کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کا تشخص مزید مجروح ہوگیا ۔بیرون ملک پاکستانی خصوصاً امریکہ اور مغربی مما لک میں مقیم پاکستانی ان ممالک کی جمہوریت اور انسانی حقوق،انصاف ، عقائد کی آزادی اورمذہبی رواداری سے متاثر ہیں ۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ معاشی ترقّی میں بھی یہ عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ ملک کی برسراقتدار جماعتوں سے نالاں ہوکر عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں۔ انتخابات کے بعد ان جماعتوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔ جس مصنوعی پردے کے پیچھے وہ چھپ رہے تھے وہ پردہ گر گیا ہے۔ حکمراں جماعتوں نے اقتدار حاصل کرکے اپنا مذاق بنالیا ہے انتخابات کے اصل نتائج کو قبول کرکے دھاندلی سے نشستیں حاصل کرکے وہ اپنے حامیوں کی نظروںمیں اپنے مقام سے محروم ہو گئے ہیں۔ اگر وہ نتائج میں مداخلت نہ کرتے اور چند نشستوں پر اکتفا کرکے اپوزیشن میں بیٹھ جا تے تو وہ اپنی ساکھ بہتر بنا سکتے تھے۔
انتخابات کے بعد جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت اس سلسلے میں کچھ خاموشی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام شاید بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں یا کسی دبائو کی وجہ سے فی الحال دھاندلی کے مسئلے پر اتنا زیادہ زور نہیں دے رہی ہیں لیکن عوامی دبائو کے پیش نظر مستقبل میں انہیں عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا۔ مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان اس عوامی بے چینی میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ حکومت کے اراکین کی جانب سے تنخواہ نہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ذرئع آمدنی سے کام چلائیں گے یا ممکنہ طور پر اس سے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا ۔ اس طرح کے اعلانات کی ڈرامہ بازی کے سوا کیا حیثیت ہے۔ اصل مسئلہ تو مراعات کا ہے جس پر تنخواہ سے کئی گنا زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ جب تک کارکردگی بہترنہ ہوگی، مہنگائی ختم نہیںہوگی ، امن و امان نہیں ہوگا ،عوام کی خواہشات کا احترام نہیں کیا جائے گا، لو گ مطمئن نہیں ہونگے۔ یہ الزام کہ مینڈیٹ چوری کرکے جبراً نشستوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس الزام پر عمومی طور پر یقین کیا گیاہے۔ ایسی کیفیت میں حکمراں جماعتوں کے رہنمائوں کے پا س اس دلدل میں مزید دھنس جانے کے سوا کوئی صورت نہیں ہے۔ حکمراں جماعتوں کو سہارا دینے والوں کو بھی پچھتاوے کے سوا کیا حاصل ہوسکتاہے؟ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دھاندلی کے خلاف گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ بر سراقتدار سیاسی جماعتوں کی قربت سے جے یو آئی کو نقصان ہوا ہے۔ شاید بعض لوگ یہ سمجھ رہے ہوںگے کہ دھاندلی زدہ سیاہی کو ہاتھ لگانے سے خود اپنے ہاتھ سیاہ ہوسکتے ہیں ۔