... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چین لداخ پرقبضے کے بعد ارونا چل پردیش کا رخ کرے گا۔ ویسے بھی اروناچل پردیش حقیقتاً چینی علاقہ ہے۔ چین نے نہ صرف کشمیر بلکہ اروناچل پردیش کے شہریوں کو چین کے ویزا سے مستثنٰی قرار دے دیاہے۔ بھارت مسلسل الزام لگارہا ہے کہ چین اروناچل پردیش اور لداخ میں مداخلت کرکے بھارت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ حالانکہ بھارت نے اروناچل پردیش میں مداخلت کی تھی۔
بھارت خود کو ایک کامیاب جمہوری ریاست قرار دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شاندار جموریہ آج کل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اروناچل پردیش ان سات ریاستوں میں شامل ہے جن سے بھارتی تعلق ایک تنگ درے کی شکل میں ہے اور یہاں پر آزادی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ ان تحریکوں نے اپنے علاقوں میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔بھارت میں چلنے والی آزادی اور علیحدگی کی تحریکوں میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، بہار، مغربی بنگال، مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔
چین، اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ نئی دہلی اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اروناچل پردیش ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہا ہے۔بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین اروناچل پردیش پر ‘مضحکہ خیز دعوے’ کر رہا ہے، شمال مشرقی ریاست جس کی سرحد چین کے ساتھ ملتی ہے ہمیشہ ‘بھارت کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ’ رہے گی۔چین کی وزارت قومی دفاع کے ترجمان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اروناچل پردیش میں 9 مارچ کو روڈ ٹنل کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ سرحد کے مسئلے کو پیچیدہ بنانے والا ہر قدم اٹھانا بند کردے اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کو برقرار رکھے۔سرنگ کا افتتاح سرحد کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے دونوں طرف کی کوششوں کے خلاف ہے۔2020 میں مغربی ہمالیہ میں ان کی سرحد کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔ان جھڑپوں کے بعد سے دونوں ممالک کی افواج نے اپنی پوزیشنز مضبوط کر رکھی ہیں اور سرحد پر اضافی فوجی اور ساز و سامان تعینات کر دیا ہے۔ دونوں فریقین نے 1962 میں سرحدی جنگ لڑی تھی۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہمالیائی ریاست کا دورے کے دوران چار ہزار میٹر کی بلندی پر تعمیر کی گئی دو لین والی سرنگ کا افتتاح کیا تھا۔اروناچل پردیش میں نئی تعمیر کردہ سرنگ سرحدی ریاست میں فوجیوں اور فوجی سازو سامان کی نقل و حرکت میں سہولت دے گی۔ نریندر مودی نے اپنے دورے کے دوران سڑکوں کی ترقی اور بجلی کی پیداوار سمیت کئی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا۔بھارت ہمالیائی خطے میں سڑکوں اور پلوں جیسے کئی دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو ایسے وقت تیزی سے مکمل کر رہا ہے جب چین کے ساتھ اس کی 3500 کلو میٹر طویل سرحد پر کشیدگی برقرار ہے۔چین ماضی میں بھی بھارتی رہنماؤں کے اروناچل پردیش کے دوروں پر اعتراض کرتا آیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں بھارت نے ان رپورٹس پر بیجنگ سے احتجاج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارتی ریاست کو چین کے علاقے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
بھارت اس وقت سخت مشکل میں ہے کیونکہ حال ہی میں لداخ پر قبضے کے بعد چین نے اروناچل پردیش کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کی تصدیق بھارتی میڈیا خود کرردہا ہے۔ سوشل میڈیا پرکچھ تصاویر بھی بھارتی میڈیا کی طرف سے شیئر کی گئی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ چینی فوج نے ہماچل پردیش کے ایک حصے پرقبضہ کرلیا ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو لداخ کے بعد دیگر علاقے بھی بہت جلد دوبارہ چین کا حصہ بن جائیں گے ۔ پچھلے دنوں بھارت کو لداخ کے محاذ پرجوشکست ہوئی ہے بھارتی فوج پراس کے خوف کے سائے ابھی باقی تھے کہ ہماچل پردیش کے کچھ حصے پرچینی فوج کے قبضے کی خبرنے بھارتیوں کیاوسان خطا کردیئے ہیں۔
اروناچل پردیش کا پرانا نام ”شمال مشرقی سرحدی ایجنسی” تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین” کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ” اور”اروناچل ڈریگن فورس” سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ” بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاؤنٹی” تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
۔۔۔۔۔