... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت فیصلہ صادر کرے گا۔ ڈونلڈ لو کا ”واٹر لو” سائفر ہی ہے۔
امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں پاکستان کے آٹھ فروری کے انتخابات میں برہنہ بے ضابطگیوں پر ایک اجلاس ہوا۔ ڈونلڈ لو کمرہ نمبر 2172 میں ارکان کانگریس کو جواب دے رہے تھے۔دو باتیں پہلے سے واضح تھیں۔ وائٹ ہاؤس ڈیموکریٹس ارکان کو ہدایت کرچکا تھا کہ ڈونلڈ لو کو مشکلات سے بچانا ہے۔اسی ہدایت نے دوسری بات عریاں کر دی تھی کہ وائٹ ہاؤس کا سرکاری موقف برقرار رہے گا۔یعنی دنیا بھر میں امریکی مداخلت کی پوری تاریخ کے باوجود اس کی تردید کی مکروہ روایت کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔ ڈونلڈ لو کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے امریکی آپریشن سے انکار ہی کرنا تھا۔ سوکیا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ اُن اینکرز، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو چھوڑئیے جنہیں ریاستی اقتدار اعلیٰ سے زیادہ عمران خان کی مخالفت عزیز ہے۔ اُنہیں بھی چھوڑئیے جو عمران خان مخاصمت میںریاست کا چہرہ ہی بگاڑنے پر تُل گئے۔ یہ طبقہ چند لحظے ، کچھ گھنٹے اپنی اپنی ذہنی اوقات کے مطابق عاقبت نااندیشانہ مبتلائے مسرت رہا، پھر کانگریس کی سماعت کے اصل احوال کھلنے شروع ہوئے تو تڑاق پڑاق زبانوں پر قُفل لگنے شروع ہوئے۔ پاکستان میں 9 اپریل کو سازش سے حکومت کا پھیر بدل کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ڈونلڈ لو کے حرفِ انکار سے ٹل جائے۔ یہ سازش دراصل واقعات کے ایک زنجیری سلسلے کو پیدا کرچکی ہے جو عمران خان حکومت کے خاتمے سے لے کر سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت اور پھر 8 فروری کے انتخابات کے بعد پی ڈی ایم پارٹ ٹو کے قیام تک ایک دوسرے سے پیوست حالات میں حشرات الارض کی طرح رینگتی نظر آتی ہے۔ سانڈوں کی طرح ڈکارتی اور سانپوں کی طرح پھنکارتی دکھائی پڑتی ہے ۔ حکومت کے پھیر بدل اور سائفر کے شورو شر میں ڈونلڈ لو کے حرفِ انکار و اقرار دونوں کے ہی نقصانات ہیں ، چنانچہ ڈونلڈ لو کا سازش سے جھوٹا انکار بھی عمران خان کے مخالفین کو سازگار نہیں۔ ڈونلڈ لو آگاہ تھا۔ اسی لیے سماعت کے دوران ماتھے پر اپنے پسینے کو چھپانہ پارہا تھا۔
کانگریس کی یہ سماعت دو حیرت انگیز مگر متضاد محرکات کے باعث ممکن ہو سکی تھی۔پہلا محرک تو سرشار کردینے والا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ متحرک ہوئی ہے۔ یہ سہرا بھی عمران خان کے سر جاتا ہے۔ امریکا میں موجود پاکستانی کمیونٹی پہلی مرتبہ بیدار دکھائی دی۔ بھارتی اور یہودی لابی کی طرح پاکستانی کمیونٹی نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا۔ ایک واضح سمت اور مشترک ذہن سے کانگریس کے ارکان کو رابطے میں لیا گیا۔ سوالات تیار کیے گئے۔ پاکستان میں امریکی مداخلت پر ایک حساسیت پیدا کی گئی۔ یہ امریکی سیاست میں پاکستان کے وجود کی حیات بخش نوید ہے۔ مگر اس سرشار کر دینے والے واقعے کو عمران خان مخالفت میں نظرانداز کردیا گیا۔ اگر یہ عام حالات میں رونما ہوتا تو اِسے غیر معمولی واقعہ بنا کر پیش کیا جاتا۔
سماعت کا دوسرا محرک جوبائیڈن انتظامیہ کی اپنی ایک مجبوری اور خیالی خطرہ بھی ہے۔ جوبائیڈن صدارتی انتخابی مہم میں اُترنے والا ہے، جہاں اُس کا براہ راست سامنا ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں امریکی مداخلتوں سے ایک بیزاری رکھتا ہے، خدشہ ہے کہ پاکستان میں امریکی مداخلت صدارتی انتخابی مہم میں ایک مدعا بن جائے یا پھرایک سوال کے طور پر موضوع بحث ہو۔ چنانچہ جوبائیڈن انتظامیہ کی بھی یہ ضرورت تھی کہ سماعت ہو جائے تاکہ وہ کم ازکم انتخابی مہم میں کوئی واضح جواب دینے کے قابل تو رہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے دباؤ اور جوبائیڈن انتظامیہ کی مجبوری سے جنم لینے والی کانگریس کی سماعت میں ڈونلڈ لو کو دیکھنے والوں نے گواہی دی کہ اُس کی بدن بولی ایک ہارے ہوئے شخص کی تھی۔ وہ مضطرب تھا۔ یہ کیفیت اس کے باوجود تھی کہ ڈیموکریٹس ارکان نے پورا بندوبست کیا کہ دو گھنٹے کی سماعت کا متعین وقت غیر متعلق سوالات میں خرچ ہو جائے۔ سماعت کا موضوع تو نہایت واضح تھا۔ یعنی پاکستان میں حکومت کاپھیر بدل اور تازہ انتخابات میں دھاندلی۔ مگر دوگھنٹے کا وقت خرچ کرنے کے لیے غیر متعلق سوالات میں یہ وقت ضائع کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جبری شادیوں سے لے کر پاک ایران گیس پائپ لائن تک پر سوالات اُٹھا کر زیادہ وقت اس میں صرف کیا گیا تاکہ ڈونلڈ لو کو اصل سوالات کے ذریعے زیادہ تپش محسوس نہ ہو سکے۔
پاکستانیوں کو دلچسپی اس سوال سے تھی کہ ڈونلڈ لو امریکی سازش سے حکومت کی تبدیلی کا اعتراف کرتے ہیں یا نہیں؟ واقفان حال پہلے سے آگاہ تھے کہ وہ انکار کرے گا۔ ڈونلڈ لو اس کا اگر اعتراف کرتا تو پاکستان سے کہیں زیادہ امریکا پر اس کے اثرات مرتب ہوتے۔ جوبائیڈن صدارتی انتخابی مہم میں اُترنے سے پہلے ہی انتخاب ہار جاتا۔ چنانچہ وہائٹ ہاؤس کی طرف سے بار بار، بتکرار ، بصدر اِصرار انکار کا سبب بھی یہی ہے۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ڈونلڈ لو نے ایسی کسی سازش میں امریکا کے ملوث ہونے سے انکار کیا تو عین اُسی وقت ”جھوٹے جھوٹے” کے آوازے کسے گئے۔ڈونلڈ لواپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتا رہا۔ تب شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ یقین نہ کرتا ہو کہ ڈونلڈ لو جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ موقع تھا جب کانگریس مین گریگ کسار اور فلوگر نے نہایت نپے تُلے سوالات کیے۔ یہ پاکستانی کمیونٹی کی زبرست لابنگ کا نتیجہ تھا جس میں اُنہوں نے اپنے نمائندوں کو پاکستان کے حالات سے مکمل آگاہ کیے رکھا۔ ان دوارکان کانگریس کے پے در پے سوالات نے ہی ڈونلڈ لو پر وہ دباؤ پیدا کیا ہے جس کے باعث اُسے ماننا پڑا کہ پاکستان کے انتخابات میںدھاندلی ہوئی ۔ مگر دلچسپ طور پر اس کا موقف بھی پاکستان کے طاقت ور حلقوں کی طرح کا ہی تھا کہ ا ن الزامات کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن موجود ہے۔ ایک مضحک ہنسی کے ساتھ ڈونلڈ لو کا یہ جواب چغلی کھاتا ہے کہ وہ خود اچھی طرح آگاہ ہے کہ الیکشن کمیشن ہی دھاندلی کا مرتکب ہے اور فارم 47 کے ذریعے جعلی حکومت مسلط کرنے کا پوری طرح ذمہ دار۔ دھاندلی کی تحقیقات کا یہ فورم ہی شرمناک حد تک الزامات کے کٹہرے میں ہے۔ ڈونلڈ لو ان سوالات کے دباؤ میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ” عمران خان کی گرفتاری اور نو مئی کے مظاہروں کے بعد سے امریکہ نے بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں پر خدشات ظاہر کیے”۔اُس کا مزید کہنا تھا:”ہم نے فوجی عدالتوں کے استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے” ۔
امریکا جرائم میںشراکت دار ہے۔ حکومت کی پھیر بدل میں امریکی مداخلت کے تیقن کے لیے پاکستانیوں کو کسی کانگریس میں ہونے والی سماعت کی ضرورت بھی نہیں۔ اس حوالے سے عوام میں جذبات اُبل رہے ہیں۔ دریاؤں کا دل جس سے دہل جائے وہ طوفان جمع ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں امریکی مداخلتوں کی حقیقت کو واشگاف کرنے والی ولیم بیلم کی کتاب ”روگ اسٹیٹ” تاریخ میں محفوظ ہے۔ خود امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی کھلی دستاویزات پاکستان میں امریکی مداخلت کی پرانی تاریخ کو عیاں کرتی ہیں۔ کانگریس میں ہونے والی یہ سماعت بھی اس حقیقت کا اظہار ہے کہ امریکا دوسرے ممالک کے معاملات کو کس طرح اپنا موضوع بنائے رکھتا ہے۔ مگر سرکاری طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ یہ کوئی باب وڈ ورڈ یا پھر ولیم بیلم ایسا مصنف اپنی کتاب میں حقائق کھولتا ، کھنگالتا ہے۔امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کانگریس کے اجلاس سے یہ معاملہ مزید عریاں ہوگیا ۔ ڈونلڈ لو زیادہ سوالا ت کے نرغے میں آگیا ہے۔ اسی دباؤ میں اُس نے یہ بھی کہا کہ اُسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دھمکیاں اُنہیں کون دے رہا ہے؟ دلچسپ طور پر یہاں ڈونلڈ لو پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ملتے جلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آج کل سکندر سلطان راجہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک نے پاکستان میں سازش کے ذریعے حکومت ختم کی دوسرے نے سازش کے ذریعے فارم 47 کی نئی حکومت مسلط کی۔ دونوں ہی جان کا خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ یہی موقع ہے کہ یہاں اصل خطرے کو بھانپ لیا جائے جورکنِ کانگریس کے الفاظ میںسامنے آیا ہے۔بریڈ شرمین نے کہا کہ امریکی سفیر کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنی ہوگی اور یقینی بنانا ہوگا کہ ‘وہ یہ کہانی بیان کرنے کے لیے زندہ رہیں کہ انھیں کیسے سلیکٹو پراسیکیوشن کے ذریعے غلط سزائیں دی گئیں’۔بریڈ شرمین نے ڈونلڈ لو کو مستقبل کے خطرات سے باندھ دیا ہے۔ ڈونلڈ لو کا واٹر لو یہی بنے گا۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔