... loading ...
(گزشتہ سے پیوستہ)
اوریانا: لیکن فلسطینیوں کا معاملہ ذرا الگ ہے مسز میئر ،کیوں کہ …
گولڈا: ہاں یقینا یہ ہے ۔ کیاتم جانتی ہو کہ کیوں؟کیوں کہ جب جنگ چھڑتی ہے تو لوگ بھاگتے ہیںاور عموماََ وہ ایسے ممالک کو بھاگتے ہیں جہاں کی زبان اور مذہب ان سے مختلف ہوتاہے ۔ لیکن اس کے برعکس فلسطینی ایسے ممالک کی طرف بھاگے جہاں پر ان ہی کی زبان بولی جاتی تھی اور مذہب بھی وہی تھا۔ وہ بھاگ کر شام ،اردن اور لبنان گئے ، جہاں کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی تھی ۔ جیسے کہ مصری ،جنہوں نے غازہ کو اچک لیاتھا،انہوں نے بھی فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کی ۔انہیں نوکری کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ انہیں حالت ِ غربت میں رکھا تاکہ وہ انہیں جنگ میں ہمارے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکیں۔ یہ ہمیشہ سے عرب ممالک کی حکمت ِ عملی رہی ہے، مہاجرین کو ہمارے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا۔Hammarsk Jold نے مڈل ایسٹ کے لیے ایک تعمیری منصوبہ پیش کیاہے اس اس منصوبے میں سب سے پہلے مہاجرین کے لیے نو آبادیت کے مسئلے کا حل موجود ہے لیکن عرب ممالک نے اس کے لیے بھی انکار کردیا۔
اوریانا: مسز میئر ،کیا آپ ان کے لیے ذرہ بھر بھی ہمدردی محسوس نہیں کرتی ہیں؟
گولڈا: یقینا میں کرتی ہوں۔ لیکن رحم دلی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔بلکہ یہ ذمہ داری عربوں کی ہے۔ہم اسرائیل کے اندر عرب سے آنے والے تقریباََ چودہ لاکھ یہودی جذب کرچکے ہیں۔ عراق سے ، یمن سے ، مصرسے ، شام سے ،شمالی افریقی ممالک جیسے مراکو سے، وہ لوگ جب یہاں لائے گئے تو وہ بیماریوں سے لدے ہوئے تھے اور کوئی نہیں جانتاتھا کہ کیا کیا جائے۔ بشمول ان ستر ہزار یہودیوں کے جو یمن سے آئے تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ڈاکٹر یا نرس نہیں تھاجب کہ تقریباََ سبھی کے سبھی ٹی بی کے مرض میں مبتلاتھے۔ اس کے باوجود ہم نے انہیں قبول کیااور ان کے لیے ہسپتال قائم کیے ،ان کی نگہداشت کی اور انہیں تعلیم دے کر کسان ، ڈاکٹر ،انجینئر اور استاد بنایا…بشمول ان ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کے جو عراق سے یہاں پہنچے تھے اور ان میں سے بعض مٹھی بھر لوگ ہی پڑھے لکھے تھے لیکن اس کے باوجود آج ان کے بچے جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ بے شک ہم ان کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں،ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ۔لیکن پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہم نے انہیں سنبھالا اور ان کی مدد کی ۔ اس کے برعکس عربی اپنے ہی لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں۔ وہ بس ان کا استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
اوریانا: مسز میئر ، کیساہو اگر اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو یہاں واپس آنے دے؟
گولڈامیئر: ناممکن ۔۔۔بیس سال سے ان کے اندر ہمارے لیے نفرت کا بیج بویا جارہاہے ،وہ ہمارے بیچ واپس نہیں آسکتے ۔ ان کے بچے یہاں پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ کیمپوں میں پیدا ہوئے ہیںاور انہیں بس ایک ہی سبق سکھایاگیاہے کہ اسرائیلی کو قتل کرو اور اسرائیل کو تباہ کردو۔ ہم نے ریاضی کی کچھ کتب حاصل کی ہیں جو غازہ کے اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیںاور ان میں کچھ اس طرح کے سوالات شامل ہیں:”تمہارے پاس پانچ اسرائیلی ہیں،تم ان میں سے تین کو قتل کر دیتے ہو،کتنے قتل ہونے والے اسرائیلی باقی بچتے ہیں؟ جب آپ سات یا آٹھ سال کے بچے کو ایسی تعلیم دیتے ہیں تو پھر امید کی کوئی کرن نہیں بچتی ۔ اوہ ! یہ تو ایک بڑی بد قسمتی کی بات ہے اگر ان کو یہاں واپس لانے کے علاوہ کوئی بھی اور حل نظر نہ آئے !لیکن ایک حل ہے۔ اس کا مظاہرہ اردن کے لوگوں نے کرکے دکھایاتھاجب انہیں شہریت عطا کرکے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے لیے ایک ملک بنائیںجس کا نام اردن ہو۔ ہاں ، عبداللہ اور حسین نے جو کچھ کیا وہ کئی درجے بہتر ہے جو مصریوں نے کیا۔ لیکن کیا تم جانتی ہو کہ اردن کے بھلے وقتوں میں فلسطینیوں نے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ جیسے عہدے سنبھال رکھے تھے؟ کیا تم جانتی ہو کہ 1922کی اردن کی تقسیم کے موقع پر اردن میں فقط تین لاکھ Bedouinsمقیم تھے جب کہ فلسطینی مہاجر اکثریت میں تھے ؟ کیوں کے وہ اردن کو اپنے ملک کے طور پر قبول نہیں کرتے تھے ،کیوں …؟
اوریانا: کیوں کہ وہ اپنی شناخت اردنی نہیں چاہتے مسز میئر ۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ فلسطینی ہیں اور ان کا گھر فلسطین ہے نا کہ اردن ۔
گولڈا : پھر ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ لفظ فلسطین سے ہمارا مطلب کیاہے ۔ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ جب فلسطین پر ہماری عارضی اجارہ داری اور حکومت تھی تو اس وقت فلسطین ایک زمین کے ٹکڑے کا نام تھاجو بحیرئہ روم اور عراق کی سرحد کے درمیان میں واقع تھا۔ اردن کے دونوں کنارے اس فلسطین میں شامل تھے اور یہ بھی انگلینڈ کی طرف سے مقرر کردہ ہائی کمشنر کے ماتحت تھا۔ تب 1922میں چرچل نے اسے تقسیم کردیااور اردن کے مغر ب کا علاقہ Cisjordaniaکہلانے لگا جب کہ مشرقی علاقہ Transjordaniaکہلانے لگا۔ ایک ہی نسل کے لوگوں کے دو نام ہوگئے ۔ عبداللہ اور حسین کے باپ دادا Transjordaniaکے مالک تھے اور بعد میں انہوں نے Cisjordaniaبھی حاصل کرلیا۔ لیکن میں پھر بھی دہراتی ہوں کہ وہ سارے ایک ہی نسل کے لوگ تھے ۔ایک ہی وہی فلسطین تھا۔ اسرائیل کو تباہ کرنے سے پہلے عرفات کو چاہیے کہ وہ حسین کو تباہ کرے ۔لیکن عرفات بہت جاہل ہے ۔وہ اتنا بھی نہیں جانتاہے کہ پہلی جنگ ِ عظیم کے خاتمے پر وہ علاقہ فلسطین نہیں کہلاتاتھا جو آج کل اسرائیل ہے ،اسے جنوبی شام کہہ کر پکارا جاتا تھا…چلو خیر ! اگر ہمیں مہاجرین کے موضوع پر ہی بات کرنی ہے تو میں تمہیں یاد دلادوں کہ صدیوں تک یہودی اسی طرح مہاجر بنے رہے ،مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے ،جہاں ان کی زبان نہیں بولی جاتی تھی ،جہاں ان کے مذہب کے پیروکار نہیں تھے اور جہاں ان کی روایات کو پہچاننے والا کوئی نہیں تھا… روس ، یوگو سلاویہ ، پولینڈ، جرمنی ، فرانس، اٹلی ، انگلینڈ، عریبیہ ، افریقہ … اقلیت کے لیے مختص علاقوں میں معاشی مجبوریوںکے ساتھ محصور ، سزا یافتہ ، تباہ حال اور پھر بھی وہ جیتے رہے اور انہوں نے ایک ہوکر رہنا نہیں چھوڑا اور پھر وہ دوبارہ اکھٹے ہوئے ،دوبارہ ایک قوم بننے کے لیے…
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔