... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
اِسے ہم جرائم کی سیاسی سرپرستی کا نام دے سکتے ہیں جس کا خمیازہ روشنیوں کا شہر ایک طویل عرصہ سے بھگت رہا ہے!
جانبدار الیکشن کمیشن نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کا حق خودارادیت چھیننے میں وہ کہاں تک جاسکتا ہے ؟عوام دشمنی میں دو بڑی جمہوری پارٹیوں کی لیڈر شپ نے جہاں تک جانا تھا وہ جاچکیں ، اس سے بڑی عوام دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والی جماعتیں شکست کی راکھ فارم 47کی شکل میں اُڑا رہی ہیں ،سیاست کے ڈاکٹر کی اختراع جس نے بھی گھڑی بلاوجہ گھڑی ،جس کیلئے گھڑی گئی وہ شکست خوردہ عناصر کو حکمرانی میں حصہ دار بنانے پر بضد ہے ،سیاست کا منصوبہ ساز ذہن یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ سینکڑوں لوگوں کے قاتلوں کو براہ راست حکمرانی سے بالواسطہ حاکمیت کا اختیار اقتدار کی شراکت کے ذریعے چاہتا ہے ۔اسے ملک دشمن قوتوں کی دلالی کہا جا سکتا ہے دو بڑی پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست نے جمہوریت کو متروک اور اکثریت کی زندگی کو عذاب مسلسل میں ڈال دیا ہے ،عوام ذلت اور سماجی اذیت سے چھٹکارا چاہتے ہیں ،پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔
ان جمہوری مافیاز میں گھرے ہوئے عوام کسی مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں جو روشنیوں کے شہر کے باسیوں کے اعتماد کی بحالی اور دلوں میں اُمید کی شمع روشن کرے ، محض اٹھارہ ماہ کے دور اقتدار میں جمہوریت نے شہر کی رگوں پر اپنے دانت پیوست کئے ڈریکولا سے نمٹنے کیلئے اپنی ناممکن کے تصور کی سوچ کے تحت وطیرہ اپنایا ،اسی شہر میں فیکٹری میں بھتہ خوروں نے زندہ انسانوں کو راکھ بنا ڈالا ،ولی بابر کی لاش گری مگر جمہوری ناخدائوں نے ان لاشوں پر بھی منافعوں کی سیاست کی جن کے گماشتے خون میں ڈوبے شہر سے اپنے ناجائز منافعوں کو وسعت دیتے رہے ۔
آج بھٹو پارٹی کی قیادت کی راسیں ایک ایسی لمپن قیادت کے ہاتھوں میں ہے جو بھٹو دشمن قوتوں کی اطاعت پر اترا رہی ہے جس نے قائد عوام کی پارٹی کو ضیاء باقیات کا گماشتہ بنا کر رکھ دیا ،نواب شاہ کی فضائوں میں الفاظ ایک بازگشت کی شکل میں آج بھی معلق ہیں کہ ”ہم بھٹو خاندان کو داستان ِعبر ت بنا دیں گے”اور پارٹی چیئرمین کی شکل میں سب پہ بھاری بے ہودہ ناٹک رچایا جا رہا ہے ۔بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء جس پارٹی کو گیارہ برس میں ختم نہ کرسکا ایک لمپن قیادت نے اُس کا تیا پانچہ کر ڈالا۔ حادثاتی طور پر مسلط ایک ایسی نو مولود قیادت جو نظریاتی ورکروں کے روایتی تنقیدی رویئے کو ”پارٹی دشمنی ”قرار دیکر اُنہیں اپنے لے پالک غنڈوں کے ذریعے رستہ سے ہٹاتی رہی۔
احباب کی محفلیں کئی طرح کے سچ اگلتی ہیں ،نظریاتی ورکروں کے بے وقت کھو جانے کا دُکھ جتنا محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا اُتنا بھلا کسی جعلی قیادت کو کیسے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہم 17جون 2004میں شہر قائد میں گرنے والی ایک نظریاتی ورکر منور سہر وردی کی لاش سے لگا سکتے ہیں جس کی موت کے کرب کی پرچھائیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے حواس پر چھائی رہیں۔ اُن کے ان ریمارکس کو اس موت پر بھلایا نہیں جاسکتا کہ ”مجھے منور سہر وردی کے کھو جانے کا غم اتنا ہی ہے جتنا اپنے سگے بھائیوں شاہ نواز اور مرتضٰی بھٹو کے جدا ہو جانے کا ہے ۔کیا اقتدار کی خواہش رکھنے والے کسی ”ہوس زدہ ”پر دکھ کی یہ کیفیت طاری ہوسکتی ہے جس کی حکمرانی اُن 650شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو انصاف نہ دے پائی جنہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں امن کی قیمت اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر چکائی۔ جمہوریت تو ہر دور میں لاشوں کا تماشا رہی انسانیت کے نبض شناس شہید حکیم سعید کو بھتہ خور مافیا کے مذموم عزائم کی بھینٹ اسی سنگدل جمہوریت نے دانستہ چڑھایا۔ ایک مجاہد غازی صلاح الدین کی اذاں کو خاموش کرادیا گیا، قاتل دندناتے ہوئے خونی جمہوریت کی سر پرستی میں انسانیت کی پو شاک لہو سے تر کرتے رہے ،جمہوری ناخدا ان لاشوں کی بساط پر اپنی چالیں چلتے رہے۔
محب وطن دانشوروں کا دامن تو اس سوچ میں اُلجھا ہوا ہے کہ نیٹو اسلحہ کے 19ہزار کنٹینرز کس کے دور حکومت میں روشنیوں کے شہر نے نگل لئے شہر قائد پر مسلط مافیا کا ماضی لوٹانے کی ناکام خواہش پروان چڑھانے کی سعی مگر اس بار جمہوریت کی مصلحت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ جمہور کا قتل عام کرنے کیلئے مفاہمت کی جمہوریت قاتلوں کے جتھے پال کر تاریخ کے چہرے پر دھوکے اور فریب کی کالک ملتی رہی۔ کیا ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی آج ثریا کی بلندیوں سے ذلت کی گہرائیوں میں جاگری ہے ؟ پھر بھلا ایسی جمہوریت جس کے ہونٹ عوام کے لہو سے رنگین ہوں کب تک جاری رہ سکتی ہے ؟
عوام ایسے نظام کو جو اُن کی زندگیوں کو بر باد کرنے پرتُلا ہو کب تک برداشت کر سکتے ہیں ؟اس جمہوریت کا ،اس نظام کا کہیں نہ کہیں تو The End بھی آنا ہے ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا اورپیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے اپنی پارٹی کی ایک خوبصورت ماضی سے جان چھڑا دی ہے ۔
زرداری کے اس نظریئے نے کہ ”ایم کیو ایم کو سندھ میں شریک اقتدار بنایا جائے” ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ووٹ کی طاقت سے معصوم انسانوں کی جانوں کے ضیاع پر بند باندھنا چاہتی ہے ،الیکشن کمیشن نے باور کرایا کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کے شانہ بشانہ ہے،کیا پیپلز پارٹی کی نظریاتی اکثریت موجودہ قیادت کو بھٹو کی پارٹی کا چہرہکہہ سکتی ہے؟ کیا اسے حقیقی قیادت کا نام دیا جاسکتا ہے ؟کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اگر زندہ ہوتیں تو پارٹی کے حالات یہ ہوتے ؟ کیا مظلوم اور استحصال زدہ نظریاتی ورکرزتبدیلی کی جدوجہد سے لاتعلق رہتے ؟کیا قاتلوں کی سر پرستی کرنے والا جمہوریت کا کردار اِسی طرح بقا پاتا ؟ہرگز نہیں !
جمہوری نا خدائوں کے مد مقابل عمران نے ثابت کر دیا کہ قائد اور اقبال کے پاکستان کی بقا کی جنگ اگر کوئی لڑ رہا ہے تو وہ عمران خان ہی ہے۔