... loading ...
زریں اختر
(گزشتہ سے پیوستہ)
انٹرویو جس کی اُردو مصاحبہ کی گئی ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے اور یہ ترجمہ ہم نے ایران سے درآمد کیاہے،کسی انگریزی لفظ کا متبادل تلاشنا ہوتو سب سے مقدم علاقاقی و مقامی اس کے بعدفارسی ،ہندی ، عربی، ترکی زبان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ انگریزی زبان سے خدانخواستہ کوئی بغض یا تعصب پر نہیں بلکہ اپنی زبان کو اس کی جڑوںسے جو کمزور ہو رہی ہیں مضبوط کرنے کی کوشش ہے ۔
مصاحبے میں شخصیت دو پہلو سے منکشف ہوتی ہے اور اس کو منکشف کرنے میں بنیادی کردار اداکرتاہے ”سوال”،جواب شخصیت کو سوال کرنے والے بھی منکشف کررہا ہوتاہے اور اس کو یہ احساس ہوتاہوگاکہ وہ کچھ حوالوں سے خود پر بھی آشکار ہورہاہے۔ مصاحبے سے متعلق یہ بات بھی ہر مصاحبے پر صادق نہیں آسکتی ،اگر سوالات کا دائرہ سیاسی معاملات ہیں تو وہ جماعت یا حکومت کی طے شدہ حکمت ِ عملی پر مشتمل ہوگا۔ لیکن اوریانا کے سوالات محض سیاسی نہیںتھے، ان کی نوعیت ذاتی بھی تھی ،جو اندرا جی کے ماضی کا حصہ بن چکی تھی ،ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اندراجی پر اپنا آپ منکشف ہوا ہوگاجو اس سے قبل کیسے آشکار ہوتا جب کہ کوئی بیرونی محرک ہی نہیں تھا۔
ایلگورتھم اپنا کام کررہاہے اور میرے پاس اندرا جی کی وڈیو آنے لگیں گویاکہ :
اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے
مصاحبے کا وہ حصّہ جہاں اندرا جی نے سامنے بیٹھی مغربی ذرائع ابلاغ کی نمائندہ کے سامنے مغرب کو لتاڑ دیا۔اوریانا اس اعتماد کا کھل کر استعمال کرتے ہوئے جو اسے مغرب کی بدلتی ثقافت ، مغربی ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ان سب سے بڑھ کر خود اس کی سچ کی کھوج کی جستجو سے ملا ہے، اس تمہید کے ساتھ کہ یہ سوال اندرا جی کے لیے پریشان کن ہوگاان سے پوچھتی ہے:
اوریانا: یہ سوال آپ کے لیے پریشان کن ہوگا۔آپ ہمیشہ طاقت ور ملکوں سے مدد نہ لینے والی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں،کیوں کہ آپ خود بھی فخر کی دولت سے مالا مال ہیں۔
اندرا: نہیں ۔اس کے برعکس وہ میں نہیں ہوں ۔ نہیں۔
اوریانا: بے شک آپ ہیں۔ کیا وہ غرور نہیں تھا جو آپ نے اس امداد کو ٹھکرادیا جو 1966کے قحط کے دوران دنیا نے آپ کو پیش کی تھی؟ مجھے یاد ہے ایک بحری جہاز گندم اور کھانے سے لدا ہوا نیپلز کی بندرگاہ سے آگے نہ بڑھ سکااور کھانے کا سارا سامان وہیں خراب ہوتارہاجب کہ انڈیا میں لوگ بھو ک سے مررہے تھے ۔
اندرا: میں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔نہیں،میں نہیں جانتی تھی کہ ایک جہاز لدا ہوا ہے اور سفر کے لیے تیارہے۔اگر مجھے پتاہوتا تو یقینا میں اسے قبول کرنے سے انکار نہ کرتی ۔بہرحال یہ بھی سچ ہے کہ میں بیرونی امداد کو قبول نہیں کرتی تھی ۔ یہ سچ ہے۔ وہ میرا ذاتی فیصلہ نہیں تھابہرحال ساری قوم نے یک زبان ”نہیں” کہاتھا،اور یقین کرو یہ سب کچھ اچانک ہی اور خود ہی ہوگیاتھا۔ہاں، یکایک ہی تمام ہدایات دیواروں پر نمودار ہوگئی تھیں۔ علامات ظاہر ہوگئیں ،اور وہ ”نہیں”ایک وبا کی طرح پورے انڈیا میں پھیل گیااور فخر کا ایک ایسا مظاہرہ تھاجس نے خود مجھے بھی حیران کردیاتھا،اور پھر سرکاری جماعتوں، سب کی سب، حتیٰ کہ ایوان کے ارکان ،ہر شخص نے ”نہیں” کہا؛بھکاریوں کی قوم کہلائے جانے سے مرجانا بہتر ہے۔ مجھے خود کو اس ”نہیں” کی وضاحت کرنے والا بنانا پڑااور اس کا مطلب بار بار ان لوگوں کو سمجھانا پڑا جو ہماری مدد کرنے کے خواہاں تھے اور یہ تمہارے لیے مشکل تھا،میںسمجھتی ہوں۔ میرے خیال میں تمہاری دل شکنی ہوئی تھی۔کبھی کبھی ہم ایک دوسرے کو لاشعوری طور پر دکھ پہنچابیٹھتے ہیں۔
اوریانا: ہم آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔
اندرا: میں جانتی ہوں۔ میں دہراتی ہوں کہ میں سمجھتی ہوں۔ لیکن تمہیں بھی چاہیے کہ ہمیں سمجھنے کی کوشش کرو۔ہمیشہ کم تر جاننا،ہمیشہ کم تر سمجھنا اور کبھی یقین نہ کرنا۔ حتیٰ کہ جب ہم یقین کرتے ہیں،تب بھی آپ نہیں کرتے ۔تم نے کہا ”تشدد کے بغیر لڑائی کیوں کر ممکن ہے؟”لیکن ہم نے تشدد کے بغیر اپنی آزادی حاصل کی تھی ۔تم نے کہا کہ ”ایسے جہلا کے ساتھ مل کر جمہوریت کیوں کر ممکن ہے جو بھوک سے مررہے ہوں؟”لیکن انہی لوگوں سے مل کر ہم نے ایک جمہوریت تشکیل دی ہے۔تم نے کہا”منصوبہ بندی نامی شے اشتراکی ممالک کا خاصہ ہے،جمہوریت اور منصوبہ بندی ساتھ ساتھ نہیں چلتے ہیں”۔ لیکن ، ان تمام غلطیوں کے باوجود جو ہم سے سرزد ہوئی ہیں ،ہمارے منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔تب ہم نے اعلان کردیا کہ بھوک سے مرنا ،انڈیا میں مزید نہیں ہوگااور تم نے ردّ ِ عمل پیش کیا،”ناممکن ۔ تم کبھی کامیاب نہ ہو پائو گے!”لیکن اس کے برعکس ہم کامیاب ہو گئے ۔ آج انڈیا کے اندر بھوک سے کوئی نہیں مرتا،کھانے کی پیداوار ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ ہے۔آخرکار ہم نے شرحِ پیدائش پر قابو پانے کاوعدہ کیا، اور اس بات پر تم نے بالکل یقین نہیں کیا،اور تم تحقیر انگیز انداز میں مسکرائے۔ بہرحال ہم اس معاملے میں بھی خوب رہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم دس سال میں ستر ملین تک بڑھے ہیںلیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم بہت سارے دوسرے ممالک سے کم بڑھے ہیںجن ممالک میں یورپ کے بھی کچھ ملک شامل ہیں۔
اوریانا: عام طورپر ایسا آپ نے خوفناک طریقوں سے کیاجیسا کہ مردوں کی بانجھ کاری کرنا۔ کیا آپ اسے درست قرار دیتی ہیں مسز گاندھی؟
اندرا: ماضی بعید میں جب انڈیا کی آبادی بہت کم تھی تب ایک عورت کے لیے بہترین دعا ہوتی تھی ”تمہارے بہت سارے بچے ہوں۔”ہمارے بہت سارے رزمیہ اور ہمارا ادب اس دعا پہ زور دیتے ہیںاور ایک عورت کے زیادہ بچے ہوں،اس نظریے کو ابھی تک زوال نہیں آیا۔ میں خود اپنے دل میں چاہتی ہوں کہ لوگوں کے اتنے بچے ہوں جتنے وہ چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا غلط نظریہ ہے جیسے
ہمارے ہاں اور بھی بہت غلط نظریے رائج ہیں،جو ہزاروں سال پرانے ہیںاور انہیں جڑسے اکھاڑنا ضروری ہے۔ہمارے لیے خاندانو ں کی حفاظت کرنا ضروری ہے،ہمیں بچوں کی حفاظت عزیز ہے ،بچے جو غیر منقسم حقوق رکھتے ہیں،انہیں پیار ملنا چاہیے،بچے جن کی جسمانی او رذہنی نشوونما ہونی چاہیے اور جنہیں دنیا میں صرف دکھ اٹھانے کے لیے نہیں لایا جانا چاہیے۔کیاتم جانتی ہو کہ کچھ عرصے قبل تک غریب لوگ صرف اس لیے بچوں کی خواہش کرتے تھے تاکہ ان کا استعمال کرسکیں؟لیکن تم ہزاروں سال پرانی عادت کو کیسے ختم کرسکتے ہو، یکایک یا طاقت کے بل بوتے پر؟ واحد راستہ یہ ہے کہ تم شرح پیدائش کے لیے منصوبہ بندی کرو،اور مردوں کی نس بندی شرح پیدائش کو قابو کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ایک تسلی بخش اور بنیادی نوعیت کا حامل طریقہ ہے۔ تمہیں یہ خوف ناک لگتاہے ۔ میرے لیے یہ عمل درآمد کے لیے بہترین ہے اس لیے کسی لحاظ سے بھی خوف ناک نہیں ہے ۔ میرے خیال میں ایسے مرد کی نس بندی میں کوئی قباحت نہیں ہے جو پہلے ہی آٹھ یا دس بچوں کو دنیا میں لانے کا باعث بن چکاہے۔خاص طور پر اگر اس سے پہلے والے آٹھ دس بچوں کو بہتر معیار زندگی میسر آسکے۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،سال ِ اشاعت 2016نے چھاپاہے،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)