... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور جلد عوام خوشحال اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیگا ۔یہ سنتے سنتے ہم بچپن سے جوانی اور اب جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں لیکن یہ نازک موڑ گزرنے کا نام تک نہیں لے رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو ہمیں اس لفظ کی گردان سنانے والے حکمران ہیں،وہ کب کے ترقی اورخوشحالی کی منزل عبور کرکے اپنی خوشحالی کے جھنڈے دنیا بھر میںگاڑ چکے ہیں۔ان کے اداروں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرلی۔ ان کے مقابلہ میں سرکاری ادارے خسارے میں جاتے جاتے بند ہوگئے اور کچھ بیچ دیے گئے۔ رہے سہے اب بکنے کے لیے تیار ہیں۔ حکمرانوں کا سرمایہ پاکستان کے مجموعی قرضے سے کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف کے قرضہ کی واپسی کے نام پر قربان کیا جارہا ہے۔ غربت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کے پاس سحری اور افطاری کا بھی انتظام نہیں ہے۔ ایک طرف ٹیکسوں کی بوچھاڑ ہے تو دوسری طرف بے رزگاری حد سے زیادہ بڑھتی جارہی جبکہ مہنگائی کا دبائوپاکستان کے مستقل کے لیے تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے۔ شہریوں کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے اور اوپر سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے جو پہلے سے بڑھے ہوئے گھریلو بجٹ پر اضافی بوجھ بن چکا ہے جبکہ حکومتی مالی خسارہ حالیہ برسوں میں وسیع ہوتا جا رہا ہے جو پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے ۔ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کے ساتھ پاکستان کے بیرونی شعبے کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ ہماری انڈسٹری بند ہوتی جارہی ہے پیدواری کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیںہر چیز باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ برآمدات کو بڑھانے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور برآمدات کی آسانی کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت، توانائی اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں انقلابی تبدیلیاںلائی جائیں جبکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں شفافیت اور گڈ گورننس سب سے اہم ہیں۔
عالمی مندی کے درمیان پاکستان کے معاشی چیلنجوں میں استحکام اور فروغ کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے تیز اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر، حکومت کو معاشی کمزوریوں کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے اور زیادہ لچکدار اور خوشحالی کی منزلیں طے کرنا ہوں گی پاکستان کو پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ پر کھڑا کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے اس وقت پاکستان کے سرمایہ کار بھی سخت مشکل میں ہیں اور گزشتہ روز تک حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے 44ارب19کروڑ ڈوب گئے۔ اس صورتحال میںپاکستان میں سرمایہ کاری کون اور کیسے کریگا ۔شاید اسی نازک موڑ اور نازک صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے لاہور چیمبر کے سابق صدر اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے نام ایک جامع خط لکھا ہے جس میں ٹیکس دہندگان کو درپیش اہم مسائل کو اجاگر کرنے اور اضافی ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے سہولت فراہم کرنے پر زور دیا ہے انہوں نے خط کی کاپی وفاقی وزیر خزانہ اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی ہیںصدر لاہور چیمبر نے اپنے خط میںلکھا ہے کہ SRO 350 (I) 2024کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی حالیہ ترامیم ٹیکس دہندگان اور نجی شعبے کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ الیکٹرانک ریٹرن فائل کرنے کے لیے اگر آئی سیلز سرمائے سے پانچ گنا بڑھ جاتی ہے یا تیس دنوں کے اندر بیلنس شیٹ جمع نہ کرائی جائے توانٹیگریٹڈ رسک انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کمشنر کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عمل ٹیکس دہندگان کے لیے غیر ضروری مشکلات پیدا کرے گا اور انہیں ٹیکس نیٹ سے باہر جانے پر مجبور کرے گا۔ اسی ایس آر او کی دفعات کے تحت، فروخت کنندہ کی جانب سے مقررہ تاریخ تک ریٹرن جمع کرانے میں ناکامی کے نتیجے میں خریدار کی واپسی میں ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ انٹیگریٹڈ رسک انفارمیشن سسٹم بعد میں غیر تعمیل کرنے والے بیچنے والے سے رسیدیں ختم کردے گا اور اسی طرح خریدار کی واپسی سے ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کاٹ لے گااور خریدار کی ٹیکس کی ذمہ داری کا حساب بقیہ انوائسز کی بنیاد پر کیا جائے گا اس طرح ان پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑے گا اور ان کی سیلز ٹیکس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے SRO 1842 (I)2023 مورخہ 21.12.2023 کی بھی نشاندہی کی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ریٹیلر جس کا انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 236H کے تحت کٹوتی ود ہولڈنگ ٹیکس ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے وہ پوائنٹ آف سیل سسٹم کے ساتھ ضم کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس طرح پوائنٹ آف سیل انضمام کے لیے ریٹیلرز کی فروخت کو 20 ملین روپے تک محدود کر دیا ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی اور افراط زر کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ریٹیلرز کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی یہ حد 500,000/-روپے سے کم نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو آسانی سے چلا سکیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریٹیلرز کے لیے پچھلے بجٹ میں 1000مربع فٹ کے احاطہ میں پوائنٹ آف سیل انضمام کی شرط کو واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ایک عدد دکان کے ریٹیلرز جن کے پاس ایک این ٹی این ہے۔ انہیں پوائنٹ آف سیل انضمام سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔ دستاویزات کو فروغ دینے اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے حکومتی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کاشف انور نے موجودہ پالیسیوں کے غیر ارادی نتائج کی نشاندہی بھی کی جن سے ٹیکس دہندگان کو دبانے اور معاشی سرگرمیوں کو روکنے کا خطرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور چیمبر اسٹیک ہولڈرز اور حکومتی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی کوششوں پر زور دیتا ہے کہ وہ ایسی جامع پالیسیاں وضع کریں جو کاروبار کی توسیع کو فروغ دیتے ہوئے ٹیکس کی تعمیل کو ترغیب دیں۔ ٹیکس دہندگان کی سہولت اور معاشی بحالی کو ترجیح دینے والے فعال اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔