وجود

... loading ...

وجود

بھارتی مسلمان شدید مشکلات کا شکار

پیر 18 مارچ 2024 بھارتی مسلمان شدید مشکلات کا شکار

ریاض احمدچودھری

بھارت میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں چند ماہ ہی باقی ہیں جس میں نریندر مودی تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے خواہاں ہیں۔بھارت ہیٹ لیب نے 2023 میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے 668 نفرت انگیز واقعات کو دستاویزی شکل دی۔گروپ نے 2023 کی پہلی ششماہی میں 255 واقعات ریکارڈ کیے جب کہ سال کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد بڑھ کر 413 واقعات تک پہنچ گئی جس میں 62 فیصد اضافہ ہوا۔ایسے واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں قائم ہیں۔مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات 2023 میں اگست سے نومبر تک عروج پر تھے یہ ایک ایسا عرصہ تھا جب بھارت کی چار اہم ریاستوں میں انتخابات کے دوران سیاسی مہم اور ووٹنگ کے مراحل جاری تھے۔ مغربی ریاست مہاراشٹرا سب سے زیادہ متاثر ہوئی جہاں ایسے تقریباً 118 یا 18 فیصد واقعات پیش آئے حالانکہ یہاں بھارت کی صرف 9.3 فیصد آبادی رہتی ہے۔نفرت انگیز تقریر کے تقریباً 104 واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے جہاں تین کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ وسطی بھارت میں مدھیہ پردیش ریاست میں 65 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ دیگر چھوٹی ریاستوں جیسے ہریانہ اور اتراکھنڈ میں بھی نفرت انگیز تقریر کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ تقریباً 216 یا 32 فیصد نفرت انگیز واقعات انتہائی دائیں بازو کے ہندو مذہبی گروپ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل نے منظم کیے ہیں۔دونوں گروہوں کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے جو نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی قیادت میں مختلف ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک اجتماعی نام ہے۔ بی جے پی اس نیٹ ورک کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے۔گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اعداد و شمار کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل دی گئی ہیٹ سپیچ کی تعریف کا استعمال کیا جس میں مذہب، نسل، قومیت، نسل یا جنس سمیت صفات کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک جامع ڈیٹا بنانے کے باوجود اعداد و شمار کا یہ سیٹ بھارت میں نفرت انگیز واقعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتے۔ بھارت میں گذشتہ سال مسلمانوں کے خلاف ہر روز اوسطاً دو نفرت انگیز تقاریر کے واقعات پیش آئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقریر کو تاریخی طور پر کمیونٹیز کے خلاف قتل و غارت اور نسل کشی سمیت شدید مظالم کے لیے ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر کے کل 668 واقعات میں سے 63 فیصد نے اسلامو فوبک سازشی نظریات کا حوالہ دیا۔ان نظریات میں ‘لو جہاد’ سمیت بے بنیاد الزامات کا ایک سلسلہ شامل ہے۔ ‘لو جہاد’ بے بنیاد سازشی نظریہ ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔اسی طرح ‘لینڈ جہاد’ کے ذریعے مسلمانوں پر مذہبی عمارتوں کی تعمیر یا نماز کے انعقاد کے ذریعے عوامی زمینوں پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، ‘حلال جہاد’ کو اسلامی حلال طریقوں کے ذریعے اقتصادی طور پر غیر مسلم دکانداروں کو دور کرنے کی سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ‘آبادی جہاد’ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر اپنی شرح پیدائش میں اضافہ کر رہے ہیں جس کا مقصد دوسری کمیونٹیز کی آبادی کو پیچھے چھوڑنا اور بالآخر پورے ملک پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ‘صرف پانچ سپیکرز 146 نفرت انگیز تقریر کے واقعات یا آئی ایچ ایل کی جانب سے دستاویز کردہ تمام نفرت انگیز تقریر کے واقعات میں سے 22 فیصد کے ذمہ دار تھے۔’ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 100 واقعات میں نمایاں طور پر بی جے پی سے وابستہ رہنما ہی شامل تھے۔2023 میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کے تجزیے کے مطابق 169 واقعات میں ایسی تقاریر شامل تھیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حالیہ مہینوں میں ہندو سادھوؤں کے کئی پروگراموں میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی اور بعض مقررین کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔رواں ماہ کی دو تاریخ سے لے کر اب تک متعدد ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کا الزام ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں پر مسلمانوں کے پتھراؤ کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔جب کہ مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارے جاتے ہیں اور مسجدوں کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے جب کہ مساجد میں داخل ہونے اور وہاں زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوس کے دوران تقریباً ایک درجن ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے اور مسجدوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات پیش آئے۔مبصرین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسی مقصد سے کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے اور حکومت آئین کے تحت چل رہی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر