... loading ...
زریں اختر
(گزشتہ سے پیوستہ)
کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،ناشر فکشن ہائوس ،سال ِ اشاعت 2016نے چھاپاہے،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔
آج کی تحریر میں اندراجی کے طویل انٹرویو میں سے بقیہ وہ حصے شامل ہیں جو میں قارئین تک پہنچانا چاہتی ہوں،جس میں ایک خاتون صحافی کے بے باک سوالات اور اس کے جواب میں اندرا جی کی شخصیت جس طرح سامنے آتی ہے۔اوریانا فلاشی کا پہلا سوال اندراگاھی سے یہ تھا کہ ”پہلے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیوں لوگ آپ کو سرد مزاج اور سخت مزاج کہہ کر پکارتے ہیں؟
اندرا: لوگ ایسا اس لیے کہتے ہیں کیونکہ میں مخلص مزاج کی عورت ہوں۔ بے حد مخلص مزاج،اور کیوں کہ میں چھوٹی چھوٹی لبھانے والی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتی ہوںجیسا کہ ہمارے ہاں انڈیا میں لوگ کرتے ہیں۔ہمارے ہاں پہلا آدھا گھنٹہ ایک دوسرے کے ساتھ خوب صورت جملوں کے تبادلے میں ضائع کیا جاتاہے۔”کیسے مزاج ہیں حضور کے ”آپ کے بچے ٹھیک ٹھاک ہیں،آپ کے پوتے پوتیاں خیریت سے ہیںناں،وغیرہ وغیرہ۔” میں اس طرح کی گفتگو میں بہک جانے سے گریز کرتی ہوں،اور میں حال احوال پوچھنے کے چکر میں نہیں پڑتی،ہاں ایک بار کام کی بات مکمل ہوجائے تو پھر میںخوب صورت فقرات کا تبادلہ بھی کرلیتی ہوں۔ لیکن ہندوستان میں لوگ میرے اس روّیے کو ہضم کرنے میں ناکام رہتے ہیںکہ جب میں کہتی ہوں ”جلدی کرو ،چلو مدعے کی بات کرتے ہیں،اور وہ اس پر دل شکنی کا شکار ہوجاتے ہیں”۔اور سوچتے ہیں کہ میں سخت مزاج اور سخت گیر ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ ہے کہ جس کے ساتھ میری بے تکلفی ہوتی ہے میں اس کے سامنے کسی طرح کی ڈرامے بازی نہیں کرتی ہوںکیونکہ مجھے باتوں کے بنائو سنگھار کا ہنر نہیں آتا۔میں ہمیشہ خود کو ویسے ہی پیش کرتی ہوں جیسی میں ہوںیا جیسے موڈ میں ہوتی ہوںبغیر کسی لگی لپٹی کے؛اگر میں خوش ہوتی ہوں تو خود کو خوش ہی ظاہر کرتی ہوں اور اگر غصے میں ہوتی ہوںتو بھی اسے ظاہر کرتی ہوں۔جب کوئی اس طرح کی مشکل زندگی گزار رہاہوتاہے جیسی کہ میں گزار رہی ہوںتو وہ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا سوچیں گے اوراب آگے بڑھو ، تم جو چاہو پوچھ سکتی ہو”۔
اوریانا: ٹھیک ہے ۔ میں ایک وحشیانہ سوال سے شروعات کرتی ہوں۔ آپ ایک جنگ جیت چکی ہیں،لیکن ہم میں سے کچھ لوگ آپ کی اس فتح کو خطرناک گردانتے ہیں۔ کیا آپ کو واقعی لگتاہے کہ بنگلہ دیش آپ کا اتحادی ہوگاجیسا کہ آپ امید کرتی ہیں؟ کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ کہیں یہ آپ کے لیے ایک بوجھ نہ بن جائے؟
اندرا: دیکھو، زندگی ہمیشہ خطرات سے بھری رہتی ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ انسان کو خطرات سے منہ موڑنا چاہیے۔ میرے خیال میں انسان کو وہی کرنا چاہیے جو اسے ٹھیک لگتاہو،اور اگر اس میں خطرہ شامل ہو جو اسے ٹھیک لگتاہے تو پھر میرے خیال میں اسے خطرہ بھی مول لینا چاہیے۔ میرا ہمیشہ سے یہی فلسفہ رہاہے ۔۔میں کبھی بھی ناگزیر کام کے نتائج کو خاطر میں نہیں لاتی ہوں۔ میں نتائج کا تخمینہ بعد میں لگاتی ہوںجب ایک نئی صورت ِ حال سر اٹھاتی ہے اور پھر اس نئی صورت ِ حال سے نبرد آزما ہوتی ہوں، اور بس یہی ہے۔ تم کہتی ہو کہ یہ فتح خطرناک ہے ،میں کہتی ہوں کہ ابھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خطرناک ہے، ابھی میں اس طرح کے خطرات نہیں دیکھتی ہوںجن کا تم ذکر کررہی ہو۔لیکن بالفرض اگر وہ خطرات حقیقت کا روپ دھار بھی لیں۔۔تو میں ایک نئے وقوع پزیر ہونے والے حالات کے مطابق ان کا سامنا کروں گی۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ بات میرے مثبت رویے کو ظاہر کررہی ہے۔ میں تمہیں مثبت نکتہ نظرکے تحت جواب دینا چاہتی ہوں۔ میں یہ بیان دینا چاہتی ہوں کہ بنگلہ دیش اور ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں گے ، اور یقینا یہ یک طرفہ دوستی نہیں ہو گی ۔۔کوئی بھی بغیر وجہ کے کچھ نہیں کرتا،ہر کسی کے پاس لین دین کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتاہے۔ اگر ہم بنگلہ دیش کو کچھ پیش کرتے ہیں تو یقینا وہ بھی ہمیں کچھ نہ کچھ پیش کرے گا، اور کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کو اپنے وعدے پورے نہیں کرنے چاہئیں؟ معاشی لحاظ سے وہ وسائل سے مالا مال ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ سیاسی لحاظ سے مجھے لگتاہے کہ اس کے پاس تجربے کار قیادت موجودہے ۔جن مہاجرین نے ہمارے ہاں پناہ لی تھی وہ اب گھروںکو واپس جارہے ہیں۔۔
اوریانا: کیاواقعی وہ گھروںکو لوٹ رہے ہیں؟
اندرا: بیس لاکھ لوگ اپنے گھروں کو واپس بھی جاچکے ہیں۔
اوریانا: ایک کروڑ میں سے صرف بیس لاکھ،یہ کافی نہیں ہے۔۔
اندرا: ہاں نہیں ہے لیکن انہیں مزید وقت دو۔ وہ تیزی سے واپس جارہے ہیں۔ کافی تیزی سے،اور میں ان کی رفتار سے مطمئن ہوں۔ مجھے اس سے کم رفتار کی توقع تھی۔
آگے چل کر اوریانا کا سوال ۔۔۔وہ پہلے ہی بنگلہ دیش میں آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن چکے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے وہ جو آزادی کے پروانے لوگوں کے ہجوم نے قتل کا ڈھاکہ میں ارتکاب کیاتھا۔
اندرا: ایساپہلے پانچ دنوں میں وقوع پزیر ہواتھااور وہ لوگ بے تحاشامیں سے تھوڑے سے ہی ہیںجو ایسے معاملات میں ملوث ہیں۔ وہ کچھ ناخوش گوار واقعات تھے ، یہ سچ ہے اور ہم نے انہیں بھی روکنے کی کوشش کی تھی۔لیکن کاش تم جان سکتیں کہ کتنے لوگوں کو ہم نے بچا لیا تھا! لیکن ہم ہر جگہ موجود نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ہم ہر بات پر نظر رکھ سکتے ہیںاور یہ بات لامحال تھی کہ کچھ نہ کچھ ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتا۔ ہرمعاشرے میں اس طرح کے گروہ پائے جاتے ہیں جو برا رویہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو انہیں بھی سمجھنا ضروری ہوتاہے۔ وہ بہت زیادہ غضبناک تھے اور اپنی خفگی میں اندھے ہوچکے تھے ۔ایمان داری سے اگر بات کی جائے تو کسی کو صرف وہی نہیں دیکھنا چاہیے جو انہوں نے چند دن میں کیابلکہ وہ دیکھنا چاہیے جو انہوں نے مہینوں تک کیا اور سہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔