وجود

... loading ...

وجود

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

هفته 16 مارچ 2024 اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

زریں اختر

(گزشتہ سے پیوستہ)
کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،ناشر فکشن ہائوس ،سال ِ اشاعت 2016نے چھاپاہے،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔
آج کی تحریر میں اندراجی کے طویل انٹرویو میں سے بقیہ وہ حصے شامل ہیں جو میں قارئین تک پہنچانا چاہتی ہوں،جس میں ایک خاتون صحافی کے بے باک سوالات اور اس کے جواب میں اندرا جی کی شخصیت جس طرح سامنے آتی ہے۔اوریانا فلاشی کا پہلا سوال اندراگاھی سے یہ تھا کہ ”پہلے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیوں لوگ آپ کو سرد مزاج اور سخت مزاج کہہ کر پکارتے ہیں؟
اندرا: لوگ ایسا اس لیے کہتے ہیں کیونکہ میں مخلص مزاج کی عورت ہوں۔ بے حد مخلص مزاج،اور کیوں کہ میں چھوٹی چھوٹی لبھانے والی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتی ہوںجیسا کہ ہمارے ہاں انڈیا میں لوگ کرتے ہیں۔ہمارے ہاں پہلا آدھا گھنٹہ ایک دوسرے کے ساتھ خوب صورت جملوں کے تبادلے میں ضائع کیا جاتاہے۔”کیسے مزاج ہیں حضور کے ”آپ کے بچے ٹھیک ٹھاک ہیں،آپ کے پوتے پوتیاں خیریت سے ہیںناں،وغیرہ وغیرہ۔” میں اس طرح کی گفتگو میں بہک جانے سے گریز کرتی ہوں،اور میں حال احوال پوچھنے کے چکر میں نہیں پڑتی،ہاں ایک بار کام کی بات مکمل ہوجائے تو پھر میںخوب صورت فقرات کا تبادلہ بھی کرلیتی ہوں۔ لیکن ہندوستان میں لوگ میرے اس روّیے کو ہضم کرنے میں ناکام رہتے ہیںکہ جب میں کہتی ہوں ”جلدی کرو ،چلو مدعے کی بات کرتے ہیں،اور وہ اس پر دل شکنی کا شکار ہوجاتے ہیں”۔اور سوچتے ہیں کہ میں سخت مزاج اور سخت گیر ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ ہے کہ جس کے ساتھ میری بے تکلفی ہوتی ہے میں اس کے سامنے کسی طرح کی ڈرامے بازی نہیں کرتی ہوںکیونکہ مجھے باتوں کے بنائو سنگھار کا ہنر نہیں آتا۔میں ہمیشہ خود کو ویسے ہی پیش کرتی ہوں جیسی میں ہوںیا جیسے موڈ میں ہوتی ہوںبغیر کسی لگی لپٹی کے؛اگر میں خوش ہوتی ہوں تو خود کو خوش ہی ظاہر کرتی ہوں اور اگر غصے میں ہوتی ہوںتو بھی اسے ظاہر کرتی ہوں۔جب کوئی اس طرح کی مشکل زندگی گزار رہاہوتاہے جیسی کہ میں گزار رہی ہوںتو وہ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا سوچیں گے اوراب آگے بڑھو ، تم جو چاہو پوچھ سکتی ہو”۔
اوریانا: ٹھیک ہے ۔ میں ایک وحشیانہ سوال سے شروعات کرتی ہوں۔ آپ ایک جنگ جیت چکی ہیں،لیکن ہم میں سے کچھ لوگ آپ کی اس فتح کو خطرناک گردانتے ہیں۔ کیا آپ کو واقعی لگتاہے کہ بنگلہ دیش آپ کا اتحادی ہوگاجیسا کہ آپ امید کرتی ہیں؟ کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ کہیں یہ آپ کے لیے ایک بوجھ نہ بن جائے؟
اندرا: دیکھو، زندگی ہمیشہ خطرات سے بھری رہتی ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ انسان کو خطرات سے منہ موڑنا چاہیے۔ میرے خیال میں انسان کو وہی کرنا چاہیے جو اسے ٹھیک لگتاہو،اور اگر اس میں خطرہ شامل ہو جو اسے ٹھیک لگتاہے تو پھر میرے خیال میں اسے خطرہ بھی مول لینا چاہیے۔ میرا ہمیشہ سے یہی فلسفہ رہاہے ۔۔میں کبھی بھی ناگزیر کام کے نتائج کو خاطر میں نہیں لاتی ہوں۔ میں نتائج کا تخمینہ بعد میں لگاتی ہوںجب ایک نئی صورت ِ حال سر اٹھاتی ہے اور پھر اس نئی صورت ِ حال سے نبرد آزما ہوتی ہوں، اور بس یہی ہے۔ تم کہتی ہو کہ یہ فتح خطرناک ہے ،میں کہتی ہوں کہ ابھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خطرناک ہے، ابھی میں اس طرح کے خطرات نہیں دیکھتی ہوںجن کا تم ذکر کررہی ہو۔لیکن بالفرض اگر وہ خطرات حقیقت کا روپ دھار بھی لیں۔۔تو میں ایک نئے وقوع پزیر ہونے والے حالات کے مطابق ان کا سامنا کروں گی۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ بات میرے مثبت رویے کو ظاہر کررہی ہے۔ میں تمہیں مثبت نکتہ نظرکے تحت جواب دینا چاہتی ہوں۔ میں یہ بیان دینا چاہتی ہوں کہ بنگلہ دیش اور ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں گے ، اور یقینا یہ یک طرفہ دوستی نہیں ہو گی ۔۔کوئی بھی بغیر وجہ کے کچھ نہیں کرتا،ہر کسی کے پاس لین دین کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتاہے۔ اگر ہم بنگلہ دیش کو کچھ پیش کرتے ہیں تو یقینا وہ بھی ہمیں کچھ نہ کچھ پیش کرے گا، اور کیا وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کو اپنے وعدے پورے نہیں کرنے چاہئیں؟ معاشی لحاظ سے وہ وسائل سے مالا مال ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ سیاسی لحاظ سے مجھے لگتاہے کہ اس کے پاس تجربے کار قیادت موجودہے ۔جن مہاجرین نے ہمارے ہاں پناہ لی تھی وہ اب گھروںکو واپس جارہے ہیں۔۔
اوریانا: کیاواقعی وہ گھروںکو لوٹ رہے ہیں؟
اندرا: بیس لاکھ لوگ اپنے گھروں کو واپس بھی جاچکے ہیں۔
اوریانا: ایک کروڑ میں سے صرف بیس لاکھ،یہ کافی نہیں ہے۔۔
اندرا: ہاں نہیں ہے لیکن انہیں مزید وقت دو۔ وہ تیزی سے واپس جارہے ہیں۔ کافی تیزی سے،اور میں ان کی رفتار سے مطمئن ہوں۔ مجھے اس سے کم رفتار کی توقع تھی۔
آگے چل کر اوریانا کا سوال ۔۔۔وہ پہلے ہی بنگلہ دیش میں آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن چکے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے وہ جو آزادی کے پروانے لوگوں کے ہجوم نے قتل کا ڈھاکہ میں ارتکاب کیاتھا۔
اندرا: ایساپہلے پانچ دنوں میں وقوع پزیر ہواتھااور وہ لوگ بے تحاشامیں سے تھوڑے سے ہی ہیںجو ایسے معاملات میں ملوث ہیں۔ وہ کچھ ناخوش گوار واقعات تھے ، یہ سچ ہے اور ہم نے انہیں بھی روکنے کی کوشش کی تھی۔لیکن کاش تم جان سکتیں کہ کتنے لوگوں کو ہم نے بچا لیا تھا! لیکن ہم ہر جگہ موجود نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ہم ہر بات پر نظر رکھ سکتے ہیںاور یہ بات لامحال تھی کہ کچھ نہ کچھ ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتا۔ ہرمعاشرے میں اس طرح کے گروہ پائے جاتے ہیں جو برا رویہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو انہیں بھی سمجھنا ضروری ہوتاہے۔ وہ بہت زیادہ غضبناک تھے اور اپنی خفگی میں اندھے ہوچکے تھے ۔ایمان داری سے اگر بات کی جائے تو کسی کو صرف وہی نہیں دیکھنا چاہیے جو انہوں نے چند دن میں کیابلکہ وہ دیکھنا چاہیے جو انہوں نے مہینوں تک کیا اور سہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر