... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
جب تک مغربی ممالک ،عرب ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک ڈالرز سے رشتہ جوڑے رکھیں گے اس کا قد اونچا رہے گا اور ترقی پزیر پسماندہ ممالک کا اس کے ساتھ رشتہ قائم رکھنا مجبوری بنا رہے گا۔ ڈالر دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے ۔برسوں سے دنیا پر اس کا راج ہے۔ گزشتہ 20 سالوں سے دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں ڈالر خریدنا مہنگا ہو گیا ہے جو پیسوں، یورو، ین یا کوئی اور کرنسی استعمال کرتے ہیں ۔جیسے جیسے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے ویسے ویسے ان تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جو ملک میں درآمد کی جاتی ہے۔ جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر کم ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس ملک میں افراطِ زر یا مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ ملک کو ڈالرز میں وہ قرضے واپس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جو اس کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے لیے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کے بجٹ پر دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عرصے میں جن ممالک کو کرونا کی وبا کے حوالے سے بہت زیادہ اخراجات اٹھانے پڑے وہ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں ۔ڈی ایکس وائی انڈیکس ڈالر کے مقابلے میں یورو ،پاؤنڈ اور ین سمیت چھ دیگر بڑی کرنسیوں کی قدر کی پیمائش کرتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اس وقت ڈالر کی قیمت 20 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ڈالر کی قدر میں اس اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک برطانیہ ،جاپان اور یورپ کے وہ مالک ہیں جو یورو زون میں شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ارجنٹائن چلی اور کولمبیا جیسے ممالک کو اس سال اپنی کرنسیوں کی قدر میں شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ برازیل پیرو یا میکسیکو جیسے دیگر ملکوں کو اپنی زر مبادلہ کی منڈیوں میں زیادہ بے چینی نہیں دیکھنا پڑی۔ عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک کے مرکزی بینک افراط ِزر پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔
عالمی معیشت پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں کیونکہ امریکی معیشت مسلسل سہ ماہی میں سکڑی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے اقتصادی کساد بازاری تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ اس کا حتمی اعلان کرنے کے لیے اضافی ڈیٹا پر انحصار کرے گا۔ امریکی معیشت کے سکڑنے کی شرح 0.9 فیصد رہی ہے اور اب معاشی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی دوران اشیائے خور ونوش پٹرول اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 1981کے بعد سے اب تک کا تیز ترین اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی کرنسی کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے اس کی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں پر بھی محسوس کیے جاتے ہیں ۔اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ کیا امریکہ کی معیشت میں کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔ پاکستان میں اس وقت 8.2 بلین ڈالرز ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2008 میں بھی امریکہ کساد بازاری کی زد میں آیا تھا اور یہاں کئی مالیاتی ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں تھیں لیکن پاکستان کے مالی مسائل اس وقت بھی ملکی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے باعث تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری فرینکل کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے امکانات کسی بھی دوسرے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں ۔ان کے مطابق سب سے زیادہ دباؤ بیرونی جانب سے ہے۔ چین اور یورپ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی دیگر ممالک میں سنگین مسائل ہیں ۔ان کے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ ہم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ پاکستان سے بھی بہت سا سامان درآمد کرتا ہے۔ امریکی محکمہ شماریات کے مطابق 20 ہزار میں امریکہ نے پاکستان سے 5.2 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کی جبکہ امریکہ نے پاکستان کو تین اعشاریہ چھ ارب ڈالرز سے زائد کا سامان برآمد کیا۔ 2022 میں اب تک امریکہ پاکستان سے 2.6 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کر چکا ہے اور گزشتہ 25 برسوں سے امریکہ کی پاکستان سے درآمدات ہمیشہ زیادہ رہی ہیں۔ چنانچہ برچ جیسے ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر امریکہ میں معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو جو ممالک امریکہ کو سامان برآمد کرتے ہیں ان کی اس تجارت کو دھچکا پہنچے گا۔ ورلڈ بینک کے مطابق امریکہ پاکستانی سامان کا سب سے بڑا عالمی خریدار ہے۔ پاکستان اپنی سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات یورپی یونین اور امریکہ کو برآمد کرتا ہے اور ان ممالک کی کمپنیوں نے عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کے خدشات اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خریداری میں کمی کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک اور چیز جو ڈالر کے حق میں جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت یوکرین میں جنگ سے پیدا ہونے والی توانائی کے بحران سے کم متاثر ہوئی ہے ۔اس کے مقابلے میں بہت سی یورپی اور ایشیائی معیشتیں اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ کے لیے اس ملک سے درآمد شدہ سامان زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے ۔چونکہ تیل کی قیمت امریکی ڈالر سے منسلک ہے اس لیے دنیا بھر میں پٹرول اور ڈیزل جیسی مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جو کئی ممالک میں مہنگائی کی لہر کا بنیادی محرک ہے اور اس سے یہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں حکومتیں اور بڑی کمپنیاں اکثر اپنی کرنسیوں میں قرض لینے کے بجائے ڈالر میں رقم ادھار لیتی ہیں کیونکہ ڈالر زیادہ مستحکم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی کرنسیاں ڈالر کے گرد چکر کاٹ رہی ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں ڈالر کا راج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔