وجود

... loading ...

وجود

عالمی منڈی میں ڈالر کا راج

هفته 16 مارچ 2024 عالمی منڈی میں ڈالر کا راج

جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
جب تک مغربی ممالک ،عرب ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک ڈالرز سے رشتہ جوڑے رکھیں گے اس کا قد اونچا رہے گا اور ترقی پزیر پسماندہ ممالک کا اس کے ساتھ رشتہ قائم رکھنا مجبوری بنا رہے گا۔ ڈالر دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے ۔برسوں سے دنیا پر اس کا راج ہے۔ گزشتہ 20 سالوں سے دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں ڈالر خریدنا مہنگا ہو گیا ہے جو پیسوں، یورو، ین یا کوئی اور کرنسی استعمال کرتے ہیں ۔جیسے جیسے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے ویسے ویسے ان تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جو ملک میں درآمد کی جاتی ہے۔ جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر کم ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس ملک میں افراطِ زر یا مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ ملک کو ڈالرز میں وہ قرضے واپس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جو اس کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے لیے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کے بجٹ پر دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عرصے میں جن ممالک کو کرونا کی وبا کے حوالے سے بہت زیادہ اخراجات اٹھانے پڑے وہ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں ۔ڈی ایکس وائی انڈیکس ڈالر کے مقابلے میں یورو ،پاؤنڈ اور ین سمیت چھ دیگر بڑی کرنسیوں کی قدر کی پیمائش کرتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اس وقت ڈالر کی قیمت 20 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ڈالر کی قدر میں اس اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک برطانیہ ،جاپان اور یورپ کے وہ مالک ہیں جو یورو زون میں شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ارجنٹائن چلی اور کولمبیا جیسے ممالک کو اس سال اپنی کرنسیوں کی قدر میں شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ برازیل پیرو یا میکسیکو جیسے دیگر ملکوں کو اپنی زر مبادلہ کی منڈیوں میں زیادہ بے چینی نہیں دیکھنا پڑی۔ عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک کے مرکزی بینک افراط ِزر پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔
عالمی معیشت پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں کیونکہ امریکی معیشت مسلسل سہ ماہی میں سکڑی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے اقتصادی کساد بازاری تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ اس کا حتمی اعلان کرنے کے لیے اضافی ڈیٹا پر انحصار کرے گا۔ امریکی معیشت کے سکڑنے کی شرح 0.9 فیصد رہی ہے اور اب معاشی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی دوران اشیائے خور ونوش پٹرول اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 1981کے بعد سے اب تک کا تیز ترین اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی کرنسی کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے اس کی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں پر بھی محسوس کیے جاتے ہیں ۔اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ کیا امریکہ کی معیشت میں کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔ پاکستان میں اس وقت 8.2 بلین ڈالرز ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2008 میں بھی امریکہ کساد بازاری کی زد میں آیا تھا اور یہاں کئی مالیاتی ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں تھیں لیکن پاکستان کے مالی مسائل اس وقت بھی ملکی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے باعث تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری فرینکل کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے امکانات کسی بھی دوسرے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں ۔ان کے مطابق سب سے زیادہ دباؤ بیرونی جانب سے ہے۔ چین اور یورپ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی دیگر ممالک میں سنگین مسائل ہیں ۔ان کے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ ہم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ پاکستان سے بھی بہت سا سامان درآمد کرتا ہے۔ امریکی محکمہ شماریات کے مطابق 20 ہزار میں امریکہ نے پاکستان سے 5.2 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کی جبکہ امریکہ نے پاکستان کو تین اعشاریہ چھ ارب ڈالرز سے زائد کا سامان برآمد کیا۔ 2022 میں اب تک امریکہ پاکستان سے 2.6 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کر چکا ہے اور گزشتہ 25 برسوں سے امریکہ کی پاکستان سے درآمدات ہمیشہ زیادہ رہی ہیں۔ چنانچہ برچ جیسے ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر امریکہ میں معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو جو ممالک امریکہ کو سامان برآمد کرتے ہیں ان کی اس تجارت کو دھچکا پہنچے گا۔ ورلڈ بینک کے مطابق امریکہ پاکستانی سامان کا سب سے بڑا عالمی خریدار ہے۔ پاکستان اپنی سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات یورپی یونین اور امریکہ کو برآمد کرتا ہے اور ان ممالک کی کمپنیوں نے عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کے خدشات اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خریداری میں کمی کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک اور چیز جو ڈالر کے حق میں جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت یوکرین میں جنگ سے پیدا ہونے والی توانائی کے بحران سے کم متاثر ہوئی ہے ۔اس کے مقابلے میں بہت سی یورپی اور ایشیائی معیشتیں اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ کے لیے اس ملک سے درآمد شدہ سامان زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے ۔چونکہ تیل کی قیمت امریکی ڈالر سے منسلک ہے اس لیے دنیا بھر میں پٹرول اور ڈیزل جیسی مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جو کئی ممالک میں مہنگائی کی لہر کا بنیادی محرک ہے اور اس سے یہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں حکومتیں اور بڑی کمپنیاں اکثر اپنی کرنسیوں میں قرض لینے کے بجائے ڈالر میں رقم ادھار لیتی ہیں کیونکہ ڈالر زیادہ مستحکم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی کرنسیاں ڈالر کے گرد چکر کاٹ رہی ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں ڈالر کا راج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر