... loading ...
رفیق پٹیل
آٹھ فروری کے انتخابات میں جنم لینے والے عوامی طوفان کو روکنے کے لیے ھاندلی کے ذریعے نافذ کیے گئے مصنوعی انتظام کے خلاف عوام میں غم غصّے کی لہر بڑھتی جارہی ہے۔ جعلسازی پر مشتمل اس نظام میں بظاہر شکست خوردہ سیاسی لاشوں میں روح پھونکنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اس کے نتائج تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتے ۔بڑے عہدوں پر فائض بند کمروں کے منصوبہ ساز ا پنے تمام خفیہ اور کھلے ذرائع کے استعمال کے باوجود عوامی رجحان اوران کے اندر بے چینی کی کیفیت کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے۔ اب بھی وہ عوامی خوہشات کے برعکس جعلسازی پر مشتمل مسلط ہوجانے والے نمائندوں سے ملک کے نظام کو بہتر انداز سے چلانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں عوامی غم و غصہ پابندیوں کی وجہ سے خاموش ضرور ہے لیکن وہ کسی صورت اس انتظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے جن سیاسی قوتوں کو مسند پر بٹھا یا گیا ہے ۔وہ عوامی نفرت کی شکار ہیںاور ان کے برسر اقتدار رہنے سے یہ نفرت مزید بڑھتی جائے گی۔ خود ان کے اپنے بعض نمائندے یہ تک کہہ رہے ہیں ہمیں زبردستی تخت پر بٹھایا گیا ہے یعنی وہ کسی اور پر اس کا الزام لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے وہ مجبور ہوں۔
ایسے حالات کی پاکستان کی تاریخ میں مثال تک نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھی اس دھاندلی کے خلاف مختلف ممالک پر کچھ نہ کچھ دبائو بڑھ رہا ہے ۔ دنیا بھر اور پاکستان کے میڈیا کے نمائندوں کی اکثریت کے مطابق پاکستان کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کے ٹھوس شواہد بھی رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں۔ اس کی پردہ پوشی ممکن نہیں ہے۔ مجبوراً ٹی وی پروگراموں میں برسراقتدار اعلیٰ عہدیداروں کی شکست فاش کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دھاندلی کے خلاف جاری ردّعمل کے خوف سے حکومت سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش نے سوشل میڈیا کو غیر ملکی زر مبادلہ کے حصول اور غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرے گا کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی اربوں ڈالر کی مالیت کی خفیہ دولت اورجائیدادیں دنیا کے مختلف امیر ممالک میں موجود ہیں لیکن اسے سرکاری ریکارڈ پر نہیں لایا جاتاہے نہ ہی اس کے پاکستان واپسی کے امکانات موجود ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود ہمارے حکمران توقع کرتے ہیں کہ دنیا کے امیر ممالک سے سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ۔عمومی تاثر یہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے گلے میں مینڈیٹ چوری اور الیکشن فراڈ کا طوق لٹکا ہوا ہے ۔ان کے رہنمائوں کے اربوں ڈالر بیرون ملک ہیں۔ ایسے تاثر کو لے کر جب کسی دوسرے ملک سے سرمایہ کاری کے لیے بات چیت ہوگی تو کوئی کیسے تیار ہوگا؟ اس صورت میں ایسے ہی لوگ سرمایہ کاری کے لیے آسکتے ہیں جس میں صرف ان کا مفاد ہوگا اور ہمارا نقصان ہی نقصان ہوگا۔ سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول کی فرہمی میں سب سے پہلے امن و امان لازم ہے۔ جس میں اسٹریٹ کرائم،ڈکیتی،اغواء اور فراڈ کی وارداتوں کا خاتمہ ہو اس کے بعد بدعنوانی اور رشوت کی روک تھام کے ذریعے تاجروں اور صنعت کاروں کو اطمینان دلایا جائے ہر سطح پر کاروباری طبقے کو تحفّظ اور انصاف کی فراہمی ہواسی صورت میں وہ آزادانہ کاروبار کر سکتے ہیں بیرونی سرمایہ کا ر بھی ملکی تاجروں اور صنعتکاروں کے حالات کا جائزہ لے کر ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے جب ہم خود ہی اپنی پہچان پر بے ایمانی اور چوری کا داغ لگائیں گے اور اس کے خلاف انصاف کے طلبگار احتجاج کرنے کے لیے مجبور ہونے والے سیاستدانوں کو طاقت سے کچلنے کا راستہ اختیار کریں گے تو عالمی سطح پر ہماری شناخت مزید مجروح ہوجائے گی۔
موجودہ صورت حال کی سنگینی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کا تاثر موجود ہے او ر جو شواہد سامنے آرہے ہیں اس کے بعد دھاندلی سے نشستوں پر قبضہ کرنے والوںکو عمومی طور پر معاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس طرح سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والوں کی معاشرے میں کوئی قد ر یا عزت نہیں رہتی ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ یابچوں کے بچوں کو بھی سچائی کی تلقین نہیں کرسکتے ہیں۔اس مرتبہ پریذائیڈنگ افسران کے دستخطوں اور انگوٹھے کے نشانات سے جاری کردہ فارم45نے پورے انتخابی عمل کو اس انداز سے بے نقا ب کردیا ہے کہ سچائی کسی نہ کسی طرح بار بار سامنے آرہی ہے ۔اس کی ایک وجہ ہر نشست کے لیے تمام انتخابی امیدواروں کی پولنگ اسٹیشن میں موجودگی میں فارم کا جاری کرناہے۔ کراچی میں یہ فارم پی ٹی آئی ،جماعت اسلامی ،تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے پاس ہیں جو بالکل ایک جیسے ہیں،سب پر دستخط اور انگوٹھوں کے نشانات کے ساتھ گنتی بھی ایک جیسی ہے ۔یہ ہی حال پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور ملک کے مختلف علاقوں کاہے ۔ان حالات میںاس دھاندلی پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور انصاف کے اداروں پر گہرا سوالیہ نشان موجود ہے۔ ان کی ساکھ بری طرح دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اس دھاندلی کافائدہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو ہواہے۔ اس لیے ان جماعتوں کے لیے اپنی ساکھ کو بحال کرنا تقریباً نا ممکن ہوگا۔ انہوں نے خودہی مینڈیٹ چوری اور بے ایمانی کا سہرا سر پر سجا لیا ہے۔ خودان کے کارکن بھی ان پر اعتبار کرتے ہوئے تذبذب کا شکار رہیں گے جو جماعتیں اس دھاندلی کے خلاف آوازبلند کریں گی۔ انہیں عوامی پزیرائی ہوگی ۔پاکستان کے حالات رفتہ رفتہ افغانستان کے اس دور کی جانب جارہے ہیں۔ جہاں اشرف غنی کا آخری دور تھا۔ دنیا بھر کی طاقتیں اسے سہارا دے رہی تھیں لیکن وہ زوال کا شکار ہوا۔نتیجے میں اشرف غنی کو ملک سے بے عزت ہوکر بھاگنا پڑا ۔پاکستان کی سیاسی قوتیں اور عوا م کی دھاندلی کے خلاف تحریک شروع ہوچکی ہے ۔یہ ایک سیاسی جنگ یا آئینی حقوق کے حصول کی عوامی تحریک ہے جو عسکریت پسندی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اسے طاقت سے کچلنا ایسی خرابی پیدا کر سکتا ہے جس سے پورانظام لرز سکتاہے۔ موجودہ حکمرنوں کو اس کی فکر نہیں ہے ۔اگر امریکہ ، برطانیہ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کی حکمرانی موجودہ حکمرانوں کو دے دی جائے تو وہاں بھی انسانی حقوق ختم ہوجائیں گے ۔بدعنوانی عام ہوگی اوراس متعلقہ ملک کی معیشت بھی تیزی سے زوال پزیر ہوجائے گی جن لوگوں نے موجودہ حکمران جماعتوں سے امید لگارکھی ہے، سابقہ تجر بہ شاہدہے کہ آنے والے وقت میں وہ ایسے پچھتاوے میں مبتلا ہونگے جس کا افسوس انہیں ہمیشہ رہے گا ۔عوامی حمایت سے آنے والی حکومت ہی پورے معاشرے کو متحرک کرسکتی ہے جس کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی میں ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن عوامی امنگوں کو کچلنے سے پورامعاشرہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ تما م سرگرمیاں ماند پر جاتی ہیں۔ معیشت جمود کا شکار ہوکر زوال پزیر ہوجاتی ہے ۔پاکستانی معاشرہ ایک ہی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے جب انسانی حقوق کا احترام ہولوگوں کو تحفظ حاصل ہو۔انصاف کے ادارے غیر جانبدار ہوں اور ملک میں عوامی خواہشات کے مطابق حکومت قائم ہو۔ موجودہ حالات میں دوسو ارب ڈالر کی امداد سے بھی مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔