وجود

... loading ...

وجود

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

بدھ 13 مارچ 2024 اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

زریں اختر

اس کالم کی پہلی قسط میں اوریانا فلاشی کے اندرا گاندھی سے کیے جانے والے سوالات اس کے بعد تھے جو اب میں یہاں لکھنے جارہی ہوں ۔ میں ابتدا میں ان کی ازدواجی زندگی سے متعلق لکھنا چاہ رہی تھی جو انٹرویو میں بعد میں آتاتھا۔ یہ انٹرویو کا وہ حصہ ہے جس میں اندرا ایک عورت ہے۔
اوریانا: کیا یہ سچ ہے کہ آپ کبھی شادی کرنا نہیں چاہتی تھیں؟
اندرا: ہاں، جب تک میری عمر اٹھارہ سال تھی،ہاں۔ اس لیے نہیں کہ میں عورت کے حق ِ رائے دہی کی حمایتی تھی بلکہ اس لیے ،کیوں کہ میں اپنی ساری توانائیاں ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کے لیے وقف کرنا چاہتی تھی ۔ شادی کے بارے میں میرا خیال تھاکہ یہ میری تمام ذمہ داریو ں پر اثرانداز ہوگی جو میں نے اٹھارکھی ہیںلیکن لحظہ بہ لحظہ میں نے اپنا ذہن تبدیل کیااور اٹھارہ سال کی عمرتک شادی کرنے کی تمام ممکنات پر نظر دوڑانا شروع کردیاتھا۔ ایک خاوندکی خواہش کے تحت نہیں بلکہ اپنے بچوں کی خواہش کے تحت۔میں ہمیشہ اپنے بچوں کی خوشی محسوس کرتی تھی ۔۔اگر یہ مجھ پر ہوتاتو میرے گیارہ بچے ہونے تھے۔یہ میرا خاوند تھا جو صرف دو بچے چاہتاتھا۔
اور میں تمہیں کچھ اور بھی بتاتی ہوں۔ڈاکٹروں نے مجھے ایک بھی بچے کی پیدائش سے منع کیاتھا۔میری صحت اچھی نہیں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ حمل میرے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتاتھا۔ اگر وہ مجھے ایسا نہ کہتے تو شاید میں کبھی بھی شادی نہ کرتی ۔لیکن اس تشخیص نے مجھے ہوا دی ،اس نے مجھے اشتعال دلایا۔ میں نے جواب دیاکہ ”کیوں آپ سمجھتے ہیں کہ میں شادی کرلوں اگر میرے بچے ہی نہ ہوں؟ میں یہ نہیں سننا چاہتی کہ میرے بچے نہیں ہوں گے؛میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے بتائو کہ میں ایسا کیا کروں جس سے میرے بچے ہوں”! انہوں نے اپنے کندھے اُچکائے اور دھیرے سے کہنے لگے کہ شاید اگر میں کچھ وزن بڑھالوںتو ہوسکتاہے کہ وہ اس حوالے سے میری حفاظت کرے۔ اس قدر پتلی رہ کر میں حمل سے کامیابی سے نبرد آزما نہیں ہوپائوں گی ۔تو ٹھیک ہے،میں نے کہا، میں اپنا وزن بڑھالیتی ہوں،او رمیں نے مالشیں کروانا ، کوڈ-لیور تیل پینا اور زیادہ کھانا شروع کر دیا۔ لیکن میں ایک پائو وزن بھی نہ بڑھاپائی ۔میں نے اپنا ذہن بنایا ہوا تھاکہ جس دن میری منگنی کا اعلان کیاجائے گاتو تب تک میں موٹی ہوچکی ہوں گی مگر میں نے تو ایک پائو وزن بھی نہیں مزید بڑھایا۔ پھر میں موسوری چلی گئی جو کہ ایک صحت افزا مقام تصور کیا جاتاہے اور میں ڈاکٹروں کی تمام ہدایات بھول گئی ،اور وہاں میں نے اپنے ہی طریقوں سے اپنا وزن بڑھالیا۔جو میں آج چاہتی ہوں اس کے بالکل الٹ تب کیا۔آج مجھے پتلی رہنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے،بہرحال میں گزارا کرہی لیتی ہوں۔ میں نہیں جانتی، شاید تم سمجھ پائو کہ میں ایک مستقل مزاج عورت ہوں۔
اوریانا: ہاں، میں یہ بات سمجھتی ہوں، اور اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ نے شادی کرنے کے لیے بھی اسی خصوصیت کا استعمال کیاتھا۔
اندرا: ہاں یقینا۔کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھا،کوئی بھی نہیں۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی بھی اس پر خوش نہیں تھے۔ جہاں تک میرے والد کا تعلق ہے۔۔ یہ سچ نہیں کہ وہ اس شادی کے مخالف تھے جیساکہ لوگ کہتے ہیں، لیکن ہاں وہ اس کے لیے پُر جوش بھی نہیں تھے۔ اس حوالے سے میرا اندازہ ہے کہ اکلوتی بیٹی کے تمام والد یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی جتنا ہوسکے دیر سے ہو۔ جو بھی ہو لیکن میں اسی بات کو وجہ ماننا چاہتی ہوں۔ میرامنگیتر، جیساکہ تم جانتی ہوکسی دوسرے مذہب کا پیروکارتھا۔ وہ پارسی تھا، اور یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھا،سارا انڈیا ہمارے خلاف تھا۔ لوگوں نے گاندھی کو خطوط بھیجے ، میرے والد کو اور مجھے بھی بھیجے۔ جن میں ذلیل کرنے کی باتیں اور موت کی دھمکیاں تھیں۔ ہرروز ڈاکیا لدا پھندا آتا اور ہمارے فرش پر خطوط کے ڈھیر چھوڑ جاتا۔ حتیٰ کہ ہم نے انہیں پڑھنا چھوڑ دیا؛ ہم نے کچھ دوستوں کی ذمہ داری لگائی کہ وہ انہیں پڑھ کر ہمیںبتائیںکہ ان میں کیا لکھاہوا ہے”ایک ایسا شخص ہے جو تم دونوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنا چاہتاہے ۔ایک آدمی ہے جو تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے حالانکہ اس کی ایک بیوی پہلے بھی ہے۔وہ کہتاہے کہ چلو کم از کم وہ ایک ہندو تو ہے”۔ایک ایسا وقت آیا کہ مہاتما گاندھی بھی شکوک و شبہات کی لپیٹ میں آگئے ۔۔میں نے ایک کالم پڑھا جو انہوں نے اپنے اخبار میں لکھاتھا،جس میں انہوں نے لوگوں سے التماس کی وہ اسے سکون سے رہنے دیںاور تنگ ذہنی کی طرف مت دھکیلیں۔ہر قسم کے حالات کے باوجود میں نے مسٹر فیروز گاندھی سے بیاہ رچالیا۔جب میرے ذہن میں کوئی بات بیٹھ جائے تو کوئی بھی اسے نکال نہیں سکتا۔
اوریانا: مسز گاندھی ، آپ کے خاوند کچھ سال قبل وفات پاچکے ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی دوبارہ شادی کے لیے سوچاہے ؟
اندرا: نہیں ،نہیں۔ شاید میں ایسا سوچ لیتی اگر میں کسی ایسے شخص سے ملی ہوتی جس کے ساتھ رہنا میں پسند کرتی ۔لیکن میں کسی ”ایسے” شخص سے نہیں ملی ہوںاور …نہیں، حتیٰ کہ میں ایسے شخص سے ملی بھی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ میں شادی کا فیصلہ نہ کرتی۔ کیوںمیں دوبارہ شادی کروں جب کہ میری زندگی بھرپورہے؟ نہیں، نہیں، اس کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اوریانا: اس کے لیے میں آپ کو ایک گھریلو بیوی کے طور پر تصور بھی نہیں کرسکتی۔
اندرا: تم غلط ہو!اوہ، تم غلطی پر ہو!میں ایک مکمل گھریلو بیوی تھی ۔ ایک ماں ہونا ہمیشہ میرے لیے ایک پسندیدہ کام رہاہے۔ یقینا۔ ایک ماں اور ایک بیوی ہونے کے لیے بھی مجھے قربانی نہیں دینا پڑی۔۔میں نے ان برسوں کے ہر منٹ کا مزہ اُٹھایاہے۔ میرے بیٹے ۔۔میں اپنے بیٹوں کے لیے پاگل تھی اور میرے خیال میں ان کی تربیت کرکے میں نے ایک شاندار معرکہ سرانجام دیاہے۔آج اسی لیے وہ دو اچھے اور سنجیدہ مرد ہیں۔ نہیں، میں ایسی عورتوں کو بھی سمجھ نہیں پائی ہوں جو بچوں کی پرورش کو ایک بار سمجھتی ہیںاور ان کی وجہ سے زندگی کی دوسری مصروفیات سے منہ موڑ لیتی ہیں۔ دونوں کاموں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے اگر آپ اپنے وقت کو ذہانت سے تقسیم کرلیں۔حتیٰ کہ جب میرے بیٹے چھوٹے تھے تب بھی میں کام کرتی تھی ۔ میں تب بھی ایک انڈین کونسل کے لیے کام کرتی تھی جن کا مقصد انڈیا کے بچوں کے حقوق کا تحفظ اور بحالی تھا۔ میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔راجیو اس وقت صرف چار سال کاتھااوراسکول میں فقط کھیل کود کے لیے جاتاتھا۔ایک دن اس کے چھوٹے دوستوں میں سے ایک کی ماں ہمارے گھر آئی اور خوشامدی آواز میں مجھ سے کہنے لگی ”اوہ، یہ یقینا ایک دکھ بھر ی بات ہوگی کہ تمہارے پاس اپنے چھوٹے بچے کے لیے وقت نہیں ہوتاہوگا!” راجیو شیر کی طرح دھاڑا ”میری ماں میرے ساتھ اس سے زیادہ وقت گزارتی ہے جتنا تم اپنے بچوں کے ساتھ گزارتی ہو!وہ مجھے بتاتا ہے کہ تم اکثر اسے تنہاچھوڑ جاتی ہوتاکہ تم تاش کھیل سکو!”میں ایسی عورتو ں سے نفرت کرتی ہوں جو کچھ نہیں کرتیں بس تاش کھیلتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر