... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پندرہ اپریل 2023سے سوڈان میں فوج اور پیراملٹری فورسز ایک دوسرے سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ دونوں کامقصد اقتدار حاصل کرنا ہے۔ لڑائی کے دوران ایک دوسرے کو نقصان پہنچایاجارہاہے اور پیش قدمی کا دعویٰ بھی کیاجارہا ہے۔ اِس دوران ملکی آبادی بُری طرح متاثر ہورہی ہے کیونکہ اُسے بھی بے دریغ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی جنگ میں اب تک سولہ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ لاکھوں شہری وطن چھوڑ کر ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کر نے یا آبادیوں سے نکل کر رہائش کے لیے ویرانوں کا نتخاب کرنے پر مجبورہیں۔ اِس جنگ زدہ ملک میں پٹرول اسٹیشنوں پر ایندھن ختم ہو چکاہے اور جہاں چند ایک مقامات پر دستیاب ہے وہاں پیٹرول کے نرخ عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں۔ اسی لیے آمدورفت کے لیے ملکی آبادی کا گدھا گاڑیوں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے اور نقل و حمل کے لیے لوگ اکیسویں صدی( جسے ایجادات کے عروج کی صدی کہا جاتا ہے) میں بھی پرانے طریقے اپنانے پرمجبور ہیں۔ جنرل محمد حمدان کی نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF ) کے خلاف جنرل عبدالفتاح البرہان کی سربراہی میں منظم فوج صف آرا ہے ۔ سرکاری املاک کے ساتھ نجی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنتی جارہی ہیں۔ گیارہ ماہ کی لڑائی کے دوران ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے اور پلڑا بھاری ہونے کا دعویٰ توکیاجارہا ہے مگرابھی تک کسی ایک فریق کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں۔ ایسے حالات میں جب ایک اہم اسلامی ملک میں جنگ کی تباہ کاریاں بڑھنے کا خدشہ ہے لیکن بڑے اسلامی ممالک کی طر ف سے لڑائی بندکرانے کے لیے کوششیںنہ ہونے کے برابرہیں اور توقع ظاہر کرنے کے علاوہ مسلم ممالک لاتعلق نظر آتے ہیں ۔
رمضان میں جنگ بندی کی عالمی کاوشوں فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ برطانیہ کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پرآٹھ مارچ جمعہ کے روز ووٹنگ ہوئی۔ اِس دوران پندرہ رُکنی سلامتی کونسل کے چودہ اراکین نے جنگ بندی کی حمایت کے مطالبے کے حق میں ووٹ دیا۔ البتہ روس اِس عمل سے الگ تھلگ رہا اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جو اِس بنا پر زیادہ اہم نہیں کیونکہ کسی ملک نے جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا بلکہ چودہ اراکین کی اکثریت نے سوڈان کے دونوں متحارب دھڑوں پرزور دیا کہ اگر مستقل نہیں تو کم ازکم رمضان کے دوران لڑائی روک دیں۔ مزید خاص بات یہ ہے کہ لڑائی کے ایک فریق کے پشت پناہ سعودی عرب نے بھی اکثریتی فیصلہ تسلیم کرنے کی اپیل کردی ہے۔ اسی لیے امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اگر مستقل نہیں تو کم ازکم عارضی جنگ بندی کی توقع پوری ہو جائے اور اگرقومی مفاد کااحساس کرلیں تو اپنے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے بات چیت سے کسی قابل ِ قبول حل تک پہنچ سکتے ہیں۔ جنگ و جدل کے ماحول سے پہلے ہی ملک کا ایک حصہ دارفور الگ ہو چکا۔ حالیہ لڑائی سے معیشت بھی تباہ ہو چکی۔ مزیدلڑائی سے ملک وحدت ازسر نوخطرات سے دوچارہوسکتی ہے۔
گیارہ ماہ کی جنگ نے ملک کی معاشی حالت پتلی کردی ہے۔ صنعتی و زرعی ڈھانچہ بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے فی کس آمدنی میں گراوٹ سے ملک کے طول و عرض میںغربت اور بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ملک کے کئی حصوں میں قحط جیسی صورتحال پیداہو چکی ہے۔ سلامتی کونسل نے بھی متحارب فریقین سے لڑائی روکنے کے ساتھ اپیل کی ہے کہ رمضان کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پچیس ملین افراد تک امداد پہنچانے کے لیے محفوظ رسائی دی جائے۔ ابھی تک تواپیل کا دونوں فریقوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا لیکن اِس کے باوجود امن کی ہلکی سی رمق نظر آنے لگی ہے جو کسی تصفیے تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھا سکتی ہے۔ اگر دونوں فریق اپنے روپے میں لچک پیدا نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے موقف پر اڑے رہتے ہیں توکسی کا بھلا نہیںہوگاالبتہ انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
سوڈان میں جاری اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اتنی طوالت اختیار نہ کرتی اگر سعودیہ اور عرب امارات کی طرف سے ایک فریق کوتھپکی نہ دی جاتی اورمصربھی غیر جانبدار رہتا۔ بیرونِ ملک سے ملنے والے مالی تعاون سے ہی جنگ نہ صرف طویل بلکہ ہولناک ہوئی ہے۔ اب بھی سلامتی کونسل کے جنگ بندی کے فیصلے کا بظاہر سعودیہ خیر مقدم کر رہا ہے مگر درپردہ سوڈان میں اپنے حامی فریق کومضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ کسی صورت اپنے حامی کی طاقت میں کمی نہیں چاہتا اسی بناپر سلامتی کونسل کی طرف سے پاس کی جانے والی جنگ بندی کی قرارداد کے غیر موثر ہونے کا خدشہ کسی حدتک موجود ہے ۔دراصل جس طرح عالمی معاملات میں امریکہ کو برطانیہ کی صورت میں تائید حاصل رہتی ہے اسی طرح سعودیہ کو بھی خطے کے معاملات میں عرب امارات کی غیر مشروط تائید وحمایت دستیاب ہے ۔سعودیہ کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ اُسے مسلم ممالک میں حاصل مقام میں کبھی کمی نہ آئے بلکہ اضافہ ہو۔ مقدس مقامات کی موجودگی کی وجہ سے عالم ِ اسلام میں ویسے بھی اُسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن بحرانوں میں اُس کا کردار اکثر اوقات مسلم امہ کے مفاد کے منافی رہا ہے جس سے مسلم ممالک میں سعودی حکمرانوں سے بدظن افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اب بھی اگر سعودی حکمران چاہیں تو سوڈان میں رمضان کے دوران عارضی جنگ بند کی قرارداد سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اِس کے لیے اُسے اپنے حامی فریق کی حمایت سے دستکش ہونے کی کڑوی گولی نگلنا ہو گی ۔
مسلم امہ کی قیادت حاصل کرنے کی اِس وقت کئی محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ سعودیہ اور ایران کے حامی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر انتہا تک جانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ ابھی حال ہی میں ایک جرمن اخباردی بِلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اسی طرف اشارہ کیاہے کہ عرب ممالک عوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت لیکن اندرونی طورپر حماس کے خلاف جنگ کی حمایت کررہے ہیں۔ انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ خطے کے رہنمائوں سے بات چیت میں اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عرب رہنما بنیادی طورپر جنگ کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے خاموشی سے ہماری پالیسیوں سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس دہشت گردی کے ایرانی محور کا حصہ ہے جس سے انھیں بھی ویسا ہی خطرہ ہے جتنا اسرائیل کو ہے۔ یہ دعویٰ محض اِس بنا پر رَد کر دینا کہ دعویدار اسرائیل کا ایک جنونی وزیراعظم ہے حقائق سے روگردانی کے مترادف ہو گا۔ کیا یہ درست نہیں کہ غزہ میں وحشیانہ بمباری کے باوجودعرب ممالک زیادہ تیزی سے اسرائیل کے قریب ہوتے جا رہے ہیں ؟اگر یہ درست ہے تو تسلیم کر لیںمسلم ممالک میں اجتماعیت کا فقدان ہیں اور مختلف محاذوں پر یہ جو جنگ جاری ہے اِس کی وجہ قیادت کی خواہش ہے اور لڑائیوں میںاپنے مہربانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ سوڈان میں گیارہ ماہ سے جاری لڑائی بھی دراصل قیادت کے لیے جاری جنگ کا شاخسانہ ہے پھر بھی یہ غنیمت ہے کہ سلامتی کونسل سے پاس ہونے والی قرارداد سے سعودی عرب کوتوقع ہے کہ سلامتی کونسل کے ا کثریتی فیصلے کو سوڈان کے متحارب فریق تسلیم کر لیں گے اور جنگ بندی کا مقصد حاصل ہو جائے گایہ موقف خاصی تاخیرسے سامنے آیا ہے اب بھی اگر صدقِ دل سے کوششیںکی جائیں تو رمضان میں لڑائی روکنے کا مطالبہ مستقل امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔