... loading ...
رفیق پٹیل
8فروری کے انتخابات کے متنازع نتائج کے بعد الیکشن کمیشن نے 28روز بعد فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر پیش کردیے تھے، جسے اب وہا ں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج پر مشتمل اس فارم کو عوام کے سامنے لانے کی مقررہ مدّت 14روز تھی لیکن یہ دو ہفتے تاخیر سے سامنے لائے گئے اور جب اس میں ہیرا پھیری اور جعلسازی کی نشاندہی کی جانے لگی تو اسے ویب سائٹ سے ہٹادیا گیا۔ ایک ٹی وی مبصّر نے لاہور میں نواز شریف اور جیل میں قید ڈاکٹر یاسمین راشد کے فارم 45کے تمام اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جیتی ہوئی ہیں اور نواز شریف ہارے ہوئے ہیں ۔اسی طرح تقریباً ساٹھ سے اسّی کے درمیان ایسے امیدوار ہیں جو اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں اور عدالتوں کے چکّر لگا رہے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ معاشرے یا ممالک جہاں انصاف نہیں ہوتا بالآخر تباہی یا انقلاب سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی جہاں لوگوں میں نا انصافی کی وجہ سے حکومت کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہو۔ جلد یا کچھ دیر سے ایسی حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا بڑے پیمانے پر انتشار جنم لیتا ہے جسے طاقت سے قابو میں نہیں لایا جاسکتا۔ اگر طاقت سے ہی ہر مسئلے کا حل ہونا ممکن ہوتا توملک میں ایک باقاعدہ مستقل مارشل لاء نافذ رہتا لیکن ماضی میں کوئی بھی مارشل لاء برقرار نہیں رہ سکا۔ پاکستان کا قیام جمہوریت کے سفر سے شروع ہواتھا ۔ لہٰذابادشاہت بھی یہا ںممکن نہ تھی ۔اب جو تجربہ سامنے ہے اس میں عام تصور یہی ہے کہ ان جماعتوں اور خاندانوں کو ملک پر مسلط کردیا گیا ہے جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں دنیا بھر کے اہم ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں بھی کم و بیش اسی قسم کے حالات ہیں۔
8فروری کے انتخابات میں لوگوں نے موجودہ برسراقتدار گروہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا ۔یہ نتائج اتنے حیرت انگیز تھے کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں اس پر علمی تحقیق کا آ غاز ہوچکا ہے ۔اس کی وجہ پی ٹی آئی کی بغیر انتخابی نشان اور اس کے خلاف انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے شدید پابندیاں تھیں۔یہی بہت بڑی بات تھی کہ وہ انتخابات میں اپنے آزاد امیدواروں کے ساتھ میدان میں آگئی۔ دنیا بھر کا میڈیا اپنی خبروںاور تجزیوں میں بتا چکا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کیاگیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور انتخابات سے قبل رائے عامہ کی جائزہ رپورٹوں کو باریک بینی سے دیکھاجائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ موجودہ برسراقتدار جماعتوں کے خلاف عوام میں شدید نفرت اورغصہ پایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کی تمام بڑی قوتّیں بھی مل کر شہباز شریف کی حکومت کو بچا نہیں سکتیں۔ بہت سے دانشور اس بات سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ لیکن شہباز شریف کی حکومت ایک بغیر پہیّوں کی گاڑی ہے۔ مصنوعی طریقوں سے کھینچنے سے اس نظام پر جو نشانات پیدا ہونگے اس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ملکی معیشت کے تیز رفتار زوال کا بھی کسی کو خیال نہیں ہے اور اس خام خیالی میںکہ سب ٹھیک ہوجائے گا معاملات کو گھسیٹا جارہا ہے ۔ملکی سطح پر بھی موجودہ انتخابات کے بعد جتنے بھی تجزیے کیے جارہے ہیں اس میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ یہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی آکسیجن سے اس کی مدّت پوری کرائی جائے گی تاکہ ملک کے اہم عہدیداروں کی مدّت ملازمت میں توسیع کی جاسکے ۔ملک کی برسراقتدار جماعتوں کے اعلیٰ عہدیداروں میں دولت جمع کرنے اوربیرون ملک جائیدادیں خریدنے اور کاروبا ر کو فروغ دینے کے رجحان میں اضافہ اس لیے روز افزوںہے کہ گزشتہ دو سال سے ملک سیاسی اور معاشی طور پر مزید عدم استحکام کا شکا ر ہے جس کے خاتمے کادور دور تک کوئی امکان نہیں ہے ۔در اصل ملک میںبڑے پیمانے پر نادیدہ بھگڈر مچی ہوئی ہے اور ہر چھوٹا بڑا شخص ملک سے فرار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی پیروی بھی ہے۔ ان دونوں خاندانوں کے زیر اثر سیاستدان جب بھی کوئی منفعت بخش عہدہ حاصل کریں گے۔ ان کی خواہش یہی ہوگی کہ ان کی بھی بیرون ملک جائیدادیں ہوں۔ بینک بیلنس ہو، کاروبار ہو۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ قیادت کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے عہدیداررفتہ رفتہ خود کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جس قیادت سے انہیں عقیدت ہوتی ہے یہ رجحان ملک کی نوکر شاہی میں بھی سرایت کررہا ہے۔ وہ دنیا میں محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں جہاں وہ مدّت ملازمت ختم ہونے کے بعد یا کسی بھی بحرانی صورت میں فوراً روانہ ہوجائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں ۔نوکر شاہی کی مددکے ذریعے سیاستدان ان دولت جمع کرنے اور بیرون ملک جائیداد کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں۔اب یہ رجحان مزید فروغ پارہا ہے۔ عرصہ دراز سے سندھ میں صنعتی اور تجارتی حلقے بار بار بدعنوانی کی شکایت کر رہے تھے ،جسے کراچی سسٹم کا نام دیا گیاتھا۔ اب نئی حکومت کی تشکیل سے کراچی سسٹم پاکستان سسٹم میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ملک ایوان وزیر اعظم کے بجا ئے ایوان صدر سے چلایا جائے گا۔ شہباز شریف کی حکومت پی پی کی بیساکھیوں پر برقرار ہے۔ اس لیے ہر صورت میں آصف زرداری کو راضی رکھنا ہوگا اور ہر اہم کام میں آصف زرداری کی مرضی کومقدّم رکھنا ہوگا۔ آئندہ کسی موقع پر پی پی وزارتوں میں بھی حصّہ دار بن سکتی ہے۔ آصف زرداری نے نواز شریف کی پاکستان واپسی کے چند دنوں بعد ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔ ممکنہ طور پرپس پردہ معاملات کے ذریعے انہوں نے کامیابی حاصل کرلی اور نواز شریف اس وقت وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دورہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ کے ایک بڑے حلقے میں آصف زرداری کے لیے اچھے جذبات نہیں ہیں ۔آصف زرداری کا اگلا ہدف بلاول کو وزیر اعظم بنا نا ہے ۔نواز شریف مریم نواز کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف مریم نوازکے لیے پنجاب میں راہ ہموار کررہے ہیں۔ اسی لیے مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ زمینی حالات دونوں خاندانوں کے لیے سازگار نہیں ہیں ۔بلاول بھٹو شریفوں کی حمایت سے مقبولیت کھو رہے ہیں جبکہ مریم نواز پالیسی سازی کے بجائے اپنے لیے ملبوسات کے انتخاب اور سیاسی ڈرامہ فلم کی عکس بندی کی مصنوعی سیاست کی وجہ سے ہر جگہ تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ملک میں جاری مصنوعی نظا م کے برقرار رہنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ انصاف پر مبنی نظام ہی ملک کو بحران سے نکال سکتا ہے۔ سرمایہ کاری بھی منصفانہ نظام میںفروغ پاتی ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھنا تباہی اور خودکشی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے ملک کے کرتا دھرتا اس سے سبق سیکھنے کو تیا ر نہیں ہیں۔
٭٭٭