... loading ...
سمیع اللہ ملک
کشمیریوں اورفلسطینیوں پرقیامت بیت رہی ہے اوریہاں ہماری محفلیں شگوفہ بنی ہوئی ہیں۔یہ ہمیں کیاہوگیاہے؟بستی میں ایسی بے حسی توکبھی نہ تھی ۔ درست کہ ہم آج کمزورہیں اوران کی عملی مددسے قاصرہیں لیکن ہم اتناتوکر ہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کررکھیں اورنسلوں کو وراثت میں دے جائیں۔کیاعجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔وقت کاموسم بدل بھی توسکتاہے۔ہم اتناتوکرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کوتازہ رکھیں۔ان سے رستے لہوکوجمنے نہ دیں۔ بھلے وقتوں کی بات ہے ابھی روشن خیالی کی مسندمسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ہمارا ادیب دائیں اوربائیں کی تقسیم سے بے نیازہوکریہ امانت نسلوں تک پہنچارہاتھا۔
اقبال،قدرت اللہ شہاب،فیض،شورش کاشمیری،انتظارحسین،حبیب جالب،احمد ندیم قاسمی،ابن انشا،احمد فراز،رئیس امروہوی،ن م راشد،قر العین حیدر، مظہر الاسلام، ادا جعفری، یوسف ظفر،منظورعارف،ضمیرجعفری، خاطرغزنوی، محمود شام،نذیرقیصر، شورش ملک،سلطان رشک، طاہر حنفی، بلقیس محمود……. کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اورنظموں میں اس دکھ کو آئندہ نسلوں کے لیے امانت کے طورپرمحفوظ کردیا۔یہ مگر گزرے دنوں کی بات ہے۔
اب فلسطین سے دھواں اٹھتاہے توکوئی ایک قلم توہوجونوحہ لکھے۔کیاہوا؟قلم ٹوٹ گئے،سیاہی خشک ہوگئی یااحساس نے دم توڑ دیا؟برسوں پہلے انتظار حسین کاافسانہ شرم الحر م پڑھا تھا ۔کچھ فقرے آج بھی دل میں ترازوہیں۔بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تومیں ہوں۔سب ہیں۔کوئی نہیں ہے۔بچے کمہارکے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنویں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ان کی پوشاکیں لیر لیرہیں۔بال کھلے ہیں۔انہیں توآفتاب نے بھی کھلے سرنہیں دیکھاتھا۔عرب کے بہادربیٹے بلندوبالاکھجوروں کی مانندمیدانوں میں پڑے ہیں۔صحراکی ہواؤں نے ان پربین کیے۔
انتظارحسین کے افسانے کانے دجال کومیں نے کتنی ہی بارپڑھا۔یہ پیراگراف ہردفعہ خون رلاتاہے۔پلنگ پہ بیٹھی اماں جی چھالیاں کاٹتے رونے لگیں ۔ انہوں نے سروتاتھالی میں رکھا اورآنچل سے آنسوپونچھنے لگیں۔اباجان کی آوازبھرآئی تھی مگرضبط کر گئے۔ اپنے پروقارلہجے میں شروع ہوگئے:آنحضور ۖ دریاؤں،پہاڑوں،صحراوں،سے گزرتے چلے گئے۔ مسجد اقصیٰ میں جاکرقیام کیا۔ حضرت جبریل نے عرض کیایاحضرت تشریف لے چلیے، آپ نے پوچھاکہاں؟بولے کہ یاحضرت زمین کاسفرتمام ہوا۔یہ منزل آخر تھی۔اب عالم بالاکاسفردرپیش ہے۔تب حضوربلندہوئے اوربلند ہوتے چلے گئے.. ورفعنا لک ذِکرک..ابا جان کاسرجھک گیا۔ پھرانہوں نے ٹھنڈا سانس بھرا،بولے جہاں ہمارے حضور ۖ بلند ہوئے تھے،وہاں ہم پست ہوگئے۔
لڑکپن جوانی میں بدلااورجوانی ڈھل چلی،کنپٹیوں کے بال اب سفید ہورہے ہیں اورعائشہ اب چہچہاتی ہے کہ باباآپ توبڈھے ہو گئے لیکن یہ فقرہ آج بھی نیزے کی انی کی طرح وجود میں پیوست ہے جہاں ہمارے حضور ۖبلندہوئے تھے،وہاں ہم پست ہوگئے۔عشروں پہلے بھی یہ فقرہ پڑھاتوآگے پڑھانہ گیا۔آج بھی یہاں پہنچتاہوں توآنکھوں میں دھند اترآتی ہے۔ سیدعلی گیلانی کانورانی اور پرعزم چہرہ سامنے آن کھڑاہوجاتاہے اورافسانہ ایک طرف رکھ دیتاہوں۔
منیر نیازی والامعاملہ درپیش ہوتاہے:اس کے بعداک لمبی چپ اورتیزہواکاشور۔ لمحہ موجودکی روشن خیالی کاتوسارابانکپن ہی مسلمانوں پرغرانے اور غراتے رہنے میں ہے۔میں مگربھلے وقتوں کی بات کررہاہوں جب روشن خیالی کی مسندابھی مسخروں کے ہاتھ نہیں آئی تھی تب فیض نے فلسطینی مجاہدوں کیلئے ایک ترانہ لکھاتوقرآن کی آیت کوعنوان بنادیا : لاخوف علیھم۔
ابن انشاکی دیوارِگریہ پڑھیے،فیض کی سرِوادیِ سیناکودیکھیے،اداجعفری کی مسجد اقصی پرنگاہ ڈالئے،منظورعارف کے آئینے کے داغ دیکھئے،احمد فراز کے بیرو ت کودیکھئے،رئیس امروہوی کافدیہاورمحمودشام کی بنت اقصی دیکھئے،آپ کوسطرسطر یہ دکھ تازہ ملے گا۔انہوں نے اس دکھ کواگلی نسلوں تک امانت کے طورپرپہنچایالیکن آج کیوں قحط الرجال ہے،یہ میں نہیں بلکہ بھارت کی بدنام زمانہ جیل میں صعوبتیں برداشت کرنے والی میری مجاہدہ بہن سیدہ آسیہ انداربی اوراس کے ساتھ قید فہمیدہ اور نسرین پوچھ رہی ہیں اورمیرے پاس اس کاکوئی جواب نہیں۔اس امانت میں صرف درد کااحساس ہی نہیں وقت کے موسموں کے بدلنے کی آس بھی ہے۔یہی نقش ہم بھولتے جارہے ہیں۔یہ نقش کیسے یادرہتے ہیں؟ ماوں کی لوریاں انہیں تازہ رکھتی ہیں،نصاب تعلیم تذکیرکاکام کرتاہے،ادیب اورشاعرکاقلم اسے سنوارتارہتاہے۔ ماوں کے پاس اب وقت نہیں، باپ کی جانے بلا،فلسطین اورکشمیرکیاہے؟نصاب تعلیم اجنبی ہوچکااورادیب وشاعر گونگے ہوچکے۔
ایک یلغارہے جس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فلسطین کی بات کرنااب دقیانوسی رویہ ہے کہ عرب جوخودکوفلسطین کاوکیل سمجھتے تھے،نہ صرف اس کامقدمہ ہارچکے بلکہ خودکو اس وکالت نامے سے آزادکرکے اس کانام بھی سنناانہیں گوارہ نہیں۔ان کی ترجیحات تواپنے اقتدارکوطول دینا ،قومی دولت کواغیارکے خزانوں میں محفوظ کرناکہ مشکل وقت میں کام آئے گی۔قصر سفید کافرعون اب کھل کراسرائیل کامربی بن کرسامنے آگیا ہے ۔عربوں کوصدام اورمعمرقذافی کے عبرتناک انجام سے ڈرایاجاتاہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جب بھیڑ کوذبح کردیاجائے تواس کی بلاسے کہ اس کی بوٹیوں کاسائز کیا ہوگایاپھراس کے گوشت کاقیمہ بنایا جائے گا۔
مقبوضہ کشمیرکی وولرجھیل کے کنارے سیدعلی گیلانی اپنی سوانح حیات لکھ چکااوراب بھی بھارتی بنئے کے سینے پربیٹھ کر اپنے لاکھوں چاہنے والوں اور سرفروشوں کے درمیان علی الاعلان یہ دعوی کرتاہے کہ ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے لیکن کیاکشمیریوں کاقصوربھی یہ ہے کہ وہ تاریخ ِعالم میں ان چند پرعزم،بلندحوصلہ، حق پرست،حریت پسنداورجذبہ اِستقلال سے سرشاراقوام میں سرِفہرست ہیں۔ جوسات لاکھ سے زائد بھارتی درندوں کے ظلم سے نہ توخوفزدہ ہیں اورنہ ہی ان کے سامنے سر تسلیم ِ خم کیا ہے۔1947سے لیکر آج تک ان پر زندگی تنگ کردی گئی ہے جوبلاشبہ ہندوبنئے ڈوگرہ راج کاتسلسل ہے۔گمنام اجتماعی قبریں، بے گناہ شہدا، معصوم یتیم، بیوہ و نصف بیوہ عورتیں، نابینا بچے،جوان، معذور و بے سہارا بوڑھے اور لہو لہان وادی کشمیر بھارتی مظالم کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن وہ آج بھی اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ جوان دنوں بڑی طاقتوں کی ایک لونڈی کاکردار ادا کر رہی ہے،سے اپناوہ جائزحق مانگ رہے ہیں جواس ادارے میں اقوام عالم کے اتفاق رائے سے دنیاکی چندبڑی طاقتوں کے بطور ضامن ،ان کودینے کاوعدہ کیاگیاتھا۔آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری خاموش زبانوں، نابینا آنکھوں،بہتے زخموں، لٹی عزتوں اور بے بس ہاتھوں میں جوان لاشے اٹھائے ضمیر ِعالم کو جھنجھوڑنے کی ناکام مگر پر امید کوشش میں مصروف و شکوہ کناں ہیں۔
1948میں اقوامِ متحدہ نے اس دن انسانی حقوق کے تحفظ اور آگاہی کیلئے 48 ممالک کی رضامندی سے 30دفعات پر مشتمل عالمی منشور جاری کیاتھا -اس منشور کے تحفظ ،بہتری اور عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیا گیاتھا – انسانی حقوق کے اس عالمی منشور میں بنیادی انسانی حقوق مثلا انسانی آزادی ، مساوی حیثیت ، آزادانہ نقل و حرکت ،آزادی اظہار، باوقار زندگی، سماجی تحفظ کا حق، مذہبی آزادی اور تشدد، ظلم و ستم ، غیر انسانی اورتوہین آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہ بنائے جانے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ گو کہ اِس دن دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی گئی ،مگر سوا ئے پاکستان و دیگر چند ممالک کے ، اقوامِ عالم نے کشمیرو فلسطین میں ہونے والی اندوہ ناک انسان دشمنی کو ہمیشہ کی طرح پسِ پشت ڈالے رکھاہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاؤر ایکٹ(افسپا)، جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ اور ٹیرر ازم اینڈ ڈسرپٹیو ایکٹیویٹیز ایکٹ (ٹاڈا ایکٹ)جیسے کالے قوانین کے تحت لائسنس ٹوکل کی حامل7لاکھ سے زائد بھارتی فوج ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے جبکہ کم و بیش 20ہزار کے قریب لوگ بالخصوص نوجوان لا پتہ ہیں جن کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ کسی کال کوٹھڑی میں بھارتی ظلم و جبر کا شکار ہو رہے ہوں گے۔بھارت انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کے گمنام قبروں کی تحقیقات کے حوالے سے آزاد تحقیقاتی کمیشن کا مطالبے کو بارہا رد کر چکاہے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایشین سینٹر فار ہیومین رائٹس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی کی جیلوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے جو بین الاقوامی و بھارتی نجی قوانین کے مطابق بچوں کے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے ۔جولائی 2016 میں کشمیری حریت پسند برہان مظفر وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی جدوجہدِ حقِ خود ارادیت میں ایک نیا جذبہ و جنون بھرتے ہوئے بھارت کی تمام گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
مسلمانوں کے دکھ پررونااب انتہاپسندی بن چکا۔اب تومطالعہ پاکستان بھی مسخروں کے مزاح کاعنوان بن چکا،بیانیہ اب وہی ہے جو مغرب سے آتاہے اورمسلمانوں کے حقوق انسانی نہیں ہوتے۔ہم نے اپنے نصاب کوجانے کن کن فضولیات سے بھررکھا ہے ۔کیااس میں فلسطین کے محمود درویش کی دونظمیں ہم شامل نہیں کرسکتے۔میں انگریزی ادب کابھی طالب علم رہاہوں اور ورڈزورتھ، کیٹس، بائرن، شیلے، ییٹس،براوننگ،ہارڈی، جان ڈن ،شیکسپیئر،ملٹن سمیت کتنوں کوپڑھ رکھاہے لیکن جوبات محمود درویش میں ہے وہ ان میں کہاں۔ محموددرویش،نزادقبانی،سمیع قاسم،فوزی اسمر، حنا ابوحنا،توفیق زیاد،توفیق فیاض،امین حبیبی،ایک کہکشاں آبادہے ہمیں جس کاعلم ہی نہیں۔ سمیع قاسم کی نظم ارمتوکمال ہے۔ ابداعلی ھذاالطریق، رایاتنا بصر الضریرہمیشہ سے اس راستے پر ہمارے پرچم اندھوں کیلئے بصارت بنے ہیں۔
محمود درویش کہتاہے:ویشتمنااعادینا،ھلا!ھمج ہم،عرب۔نعم عرب۔ اور ہمارے دشمن ہماری توہین کرتے ہیں، نہیں، وہ عرب ہیں، ہاں، عرب ہیں۔ ہمارے دشمن آوازے کستے ہیں، یہ عرب ہیں، یہ اجڈ ہیں اور وحشی ۔ہاں سن رکھوہم عرب ہیں۔درویش کیاناشیدکوبا کا تو جواب نہیں۔ذدانزاد قبانی کی یہ نظم دیکھئے:آل اسرائیل !ایسااترانابھی کیا؟گھڑی کی سوئیاں آج رک گئیں توکیاہواکل یہ پھرسے چل پڑیں گی۔ زمین کے چھن جانے کاغم نہیں بازکے پربھی جھڑجایاکرتے ہیں۔طویل تشنگی کابھی ڈرنہیں کہ پانی ہمیشہ چٹانوں کی تہہ میں ہوتا ہے۔تم نے فوجوں کوہرا دیا لیکن تم شعورکوشکست نہیں دے سکے۔تم نے درختوں کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں جڑیں مگرباقی ہیں ۔ہم آج بے بس سہی،مگرجڑیں توباقی ہیں۔ان جڑوں کی آبیاری توہم کرہی سکتے ہیں۔ہم اپنے دکھوں کامداوا نہیں کرسکتے لیکن ہم ان دکھوں کوسنبھال کرتو رکھ سکتے ہیں۔ہم اس امانت کواگلی نسل کوتوسونپ سکتے ہیں۔کیاعجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔ وقت کاموسم بدل بھی توسکتاہے۔
محموددرویش نے کہاتھا:اے میرے وطن میری زنجیروں نے مجھے عقاب کی سختی اوررجائی کی نرمی سکھائی معلوم نہ تھا ہماری کھال کے نیچے طوفان جنم لیں گے اوردریاوں کاوصل ہوگا انہوں نے مجھے کوٹھڑی میں قیدکیامیرے دل نے وہاں مشعلیں فروزاں کردیں انہوں نے دیوارپرمیرانمبرلکھا لیکن دیواریں مرغزارہوگئیں انہوں نے میرے جلادکی تصویربنائی، روشن زلفوں سے اسے چھپالیامیں نے شکست کواٹھاکرپٹخ دیااورفاتحین نے تو صرف زلزلوں کوجگایا ہے۔ہم کیسے بھول جائیں جہاں ہمارے حضور بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے۔
یہ دکھ ہماری اگلی نسل کی امانت ہے۔آپ کے آنگن میں بچے کھیل رہے ہوں گے۔انہیں بلائیے،پاس بٹھائیے اوریہ دکھ ان کی رگِ جاں میں انڈیل دیجیے کہ جہاں ہمارے حضور بلندہوئے تھے،وہاں ہم پست ہوگئے اورہاں ان تمام نوحوں میں بھارتی درندوں کی بے رحم سنگینوں کاشکار،خونِ حق سے تربتر کشمیر ہم نے کہاں کھودیا؟اس کی یادیں اب کیوں دھند لارہی ہیں؟ ہرروزوہاں کے نوجوان اپنے سروں پرسبزہلالی پرچم کواپناکفن سجاکرراہِ عدم کوروانہ ہونے میں تفاخرمحسوس کررہے ہیں۔ وقت رخصت ان کے چہروں کی مسکراہٹ پتہ دے رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے خالق کے حضوراس کے انعامات سے خوش وخرم اورراضی ہوکرابدی اور دائمی زندگی کی کامیابی کے پروانوں کے تمغوں سے سرفرازکردیئے گئے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کے دلوں میں شوقِ شہادت کے جذبوں سے معمورجوانیاں میدانِ عمل میں اترآئی ہیں وہاں ارضِ جنت سے آسیہ اندرابی نمودارہو کر متعصب شیطانوں اورظالم کافروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرآتش حریت سے پکاراٹھی ہے کہ:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سوبارکر چکاہے توامتحاں ہمارا
آسیہ کواس کی دونوجوان ساتھیوں سمیت بھارت کی سب سے بدترین جیل کی کال کوٹھڑیوں میں قیدتنہائی میں ڈال کراس کے عزم کو شکست دینے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ بزدل بنیاجانتاہے کہ آسیہ نے ساری عمرثابت قدمی کی وہ زریں مثال قائم کی ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس کے شوہر ڈاکٹر قاسم کوبے گناہی کے جرم میں آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کے باوجود اس کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں آئی۔اس علیل مجاہدہ کوجیل کی کوٹھڑی میں جہاں انتہائی ضروری ادویات سے محروم کردیاگیاہے وہاں کال کوٹھڑی میں قیدتنہائی میں ناقص اورمضرصحت غذا بھی سلاخوں سے پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کردھکیل دی جاتی ہے۔یقینامیری مجاہدہ بہن اپنے رب کے اس وعدے پرایمان کی حدتک یقین لاچکی ہے: اورآخرت تمہارے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے کہیں بہترہے اورتمہیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطافرمائے گاکہ تم خوش ہوجا ؤ گے!(الضحی: 4-5)اسی لئے وہ آج ہندودرندوں کے تعذیب وابتلا کوانتہائی بہادری سے برداشت کر رہی ہے۔
ہمارامیڈیاکس قدر آسانی سے ان کوبھولنے کے جرم عظیم کامرتکب ہورہاہے۔میرے آقانبی اکرم ۖ جنہیں میرے رب نے سب جہانوں کیلئے رحمت بناکرمبعوث فرمایا،ان کے سینہ مبارک پرنازل الہامی اورآخری کتاب قرآن حکیم کایہ پیغام کیوں بھول گئے کہ اورتم کوکیا ہواہے کہ خدا کی راہ میں اوران بیکس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جودعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کرکہیں اورلے جااوراپنی طرف سے کسی کو ہماراحامی بنااوراپنی ہی طرف سے کسی کوہمارا مددگارمقررفرما(ا لنسا :75)
پاکستان کوریاست مدینہ بنانے والے میرے رب کایہ اٹل فیصلہ بھی ذہن نشیں کرلیں کہ کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ بس اتناکہہ دینے سے چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اوران کوآزمایانہ جائے گا؟اللہ کوتویہ ضروردیکھناہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون! (العنکبوت:2 ۔3) اورہاں یہ بھی سن لواوراس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایااورخود بھی اچھے کام کیے اورکہا بے شک میں بھی فرماں برداروں میں سے ہوں ۔(الفصلت:33۔41)یقیناان حالات میں دل بے اختیار پکاراٹھتاہے کہ جہاں ہمارے حضور ۖ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے۔(ختم شد)