... loading ...
زریں اختر
ان شخصیات کی مشترکہ شناخت ”خواتین سیاست دان ”کی ہے۔ ایک کا ملک انڈیا ، دوسری کا اسرائیل ، تیسری کا پاکستان۔اندرا گاندھی اور گولڈامیئر کے متعلق میں کچھ بات کرنے کے قابل ہوئی تو اس کی وجہ ایک چوتھی عورت اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) ہے۔ مشہور ِ عالم اطالوی صحافی جن کے اس وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد فکشن ہائوس نے چھاپاہے۔ اوریانا فلاشی سے پہلا تعارف اے آر خالد کی کتاب ”فن ِ خبر نویسی” سے ہوا تھا جس میں ‘انٹرویو کا فن ‘کے باب میںاوریا نا کے امام خمینی سے کیے گئے انٹرویو کا ترجمہ دیا گیاتھا۔ دوسرا تعارف اوریانا کی ز ندگی کوبیک وقت مسرتوں اور خطرات میں مبتلا کرنے والے اورآمریت کے مقابلے میں مسلح مزاحمت کا رستہ اختیار کرنے والے یونانی کردار آلیکاس کی زندگی پر مشتمل ناول ”اے مین” اُردو ترجمہ ”ایک مرد” مترجم خالد سعید ناشر سٹی بک پوائنٹ ہے۔ تاریخ کا دریچہ پڑھنے کے دوران یہ احساس ہوا کہ ایسے انٹرویو ایک عورت ہی کرسکتی ہے جوعملی طور پر ”ابلاغیات کے سماجی ذمہ داری” کے نظریے سے جڑی صحافی ہے اور اس کے ساتھ ان انٹرویو کا اُسلوب اس خیال پر مہر ثبت کرتاہے کہ یہ اوریانا فلاشی جیسی عورت ہی کرسکتی تھی ،کیا تاریخ میں کوئی کردار دوسری مرتبہ بھی جنم لیتاہے؟ان انٹرویو کو پڑھنے کے دوران یہ خیال بھی آیا کہ اگر اوریانا تقسیم سے قبل مہاتماگاندھی اور جناح صاحب کا انٹرویو لیتی یا تقسیم کے بعد تو وہ کیساہوتا۔
اس انٹرویو کی طرف آتے ہیں جو اوریانانے اندراگاندھی سے لیااور خاص طور پر گفتگو کے اس حصے کی طرف جو اندرا کی ازدواجی زندگی سے متعلق ہے ۔تاریخ کا دریچہ میں سے نقل کررہی ہوں۔”بمبئی کا ایک نوجوان وکیل فیروز گاندھی ،وہ بھی گردن تک سیاست کا حصہ تھا۔ وہ دونوں دہلی میں ١٩٤٢ء میںشادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ چھ مہینے بعد برطانوی حکام نے ان دونوں کو تخریب کاری کے الزام میں گرفتار کرلیااور یہ ایک مشکل اور نا خوش شادی کے دور کی شروعات تھی۔١٩٤٧ء میں جب نہرو وزیر ِ اعظم بن گیا تو اندرا عملی طور پر اپنے باپ کے ساتھ رہنے کے لیے چلی گئی جو کہ ایک رنڈوا تھا اور ایک عورت کی اسے اپنی زندگی میں سخت ضرورت تھی ۔فیروز گاندھی اندرا کے اس فیصلے کو کسی طور بھی قبول نہیں کرسکتاتھا۔وہ ١٩٦٠ء تک اس فیصلے کی مذمت کرتارہاجب وہ دل کا دورہ پڑنے سے مرگیا۔لیکن اس نے کبھی بھی اس فیصلے کو قبول نہ کیا۔لوگوں کاکہنا ہے کہ اس ہتک آمیز احساس کی وجہ سے فیروز ان سترہ سالوں میںاپنی توجہ دوسری عورتوں کو دینے میں صرف کرتارہاجوسترہ سال اندرا نے اپنے خاوندکے بجائے اپنے والدکے ساتھ گزارے۔”وہ اسے انڈیا کی خاتونِ اوّل اور قوم کی بیٹی کہہ کر پکارتے تھے۔”۔۔۔۔اس کی سیاسی سوانح عمری بہت حد تک گولڈامیئر سے میل کھاتی ہے کیوں کہ وہ بھی سیاسی عمل سے گزر کر اوپر آئی تھی ،اور ان دوعورتوں کے درمیان پائی جانے والی مطابقت یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ گولڈا میئر کے لیے بھی شادی ایک ناخوشگوار تجربہ رہی تھی ،گولڈا میئر نے بھی اپنی ”طاقت” پر اس خاوند کو بھینٹ چڑھایاتھاجسے وہ بہت پیار کرتی تھی اور جس سے اس کے دوبچے بھی تھے۔ان دونوں عورتوں کی زندگی اس معاملے میں ایک منجمد اور حتمی مطابقت رکھتی ہے کہ ایک پُر صلاحیت عورت کے لیے اپنی صلاحیت کا ادراک حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خوشیوں کو بھی محفوظ رکھنا کس قدر مشکل کام ہوتاہے۔مشکل سے بھی مشکل بلکہ ایک ناممکن کام جو المیے کی صورت اختیارکرجاتاہے۔ اختصار کے ساتھ اور دکھ کے ساتھ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ بے تحاشا دبائو اور ناانصافی جو ایک عورت کو سہنا پڑتی ہے اس کا واضح مظاہرہ ان دو عورتوں کی زندگیوں میں ہواہے جو ترقی کا زینہ چڑھتے چڑھتے بلندیوں پر فائز ہوگئیں،اور اس بات کا ادراک تکلیف دہ اور طیش دلانے والاہے کہ ایک مرد ایسی ہی ترقی بغیر خاندان اور محبت کوکھوئے حاصل کرسکتاہے۔ لیکن ایک عورت نہیں کرسکتی ۔اس کے لیے یہ دونوں چیزیں بیک وقت وجود نہیں رکھ سکتیں۔ یا ان کا بیک وقت وجودالمیہ کی شکل میں ہوتاہے ،اور سچائی کا یہ رُخ اس وجہ سے ختم نہیں ہوسکتا کہ اندرا کا جمہوریت سے رشتہ ختم ہوگیا۔یہ پھر بھی ایک تلخ سچائی رہتی ہے اور مردوں کو اس پر گہرا غور و خوض کرنا چاہیے ۔میں اس حوالے سے مزید کہوں گی کہ میں اب بھی اندرا کی طرف دار ہوں ۔ایک سیاست دان عورت کے لیے میری ناپسندیدگی اور اس طرح کی عورت کے لیے ناپسندیدگی میرے لیے دو الگ الگ باتیں ہیں۔حتیٰ کہ ان گھنٹوں میں ،جن کے دوران اس کی چال کی وجہ سے تمام مخالفین کو گرفتار کیاجارہاتھا،حتیٰ کہ میری شدید برہمی کے باوجود ،میں خودکو ایسا سوچنے سے منع نہیں کرپائی کہ وہ بیچاری کتنی اکیلی اورکتنی زیادہ ناخوش ہوگی بہ نسبت اس مرد کے جو خودکو بالکل ایسے ہی حالات میں گھر اہوا پائے”۔
انٹرویو میں آگے چل کر ایک سوال کے جواب میں اندرا بتاتی ہیںکہ ”میں ہمیشہ ہی اپنے خاوندکے ساتھ شادی کے رشتے میں بندھی رہی ہوں! ہمیشہ ، جب تک وہ مر نہیں گیا!یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے کبھی بھی علیحدگی اختیار کی تھی !دیکھو، سچ اس کے برعکس ہے اور …کیوں نہ میں اس سچ کو ایک بار سب کے لیے کہوں؟ میرا خاوند لکھنو میں رہتاتھا۔ میرا والد دہلی میں رہتاتھا۔ تو میں دہلی اور لکھنو کے بیچ میں لٹکی رہتی تھی اور…قدرتی بات ہے کہ جب میں دہلی میں ہوتی تھی اور اگر میرے خاوند کو میری ضرورت محسوس ہوتی تھی تو میں لکھنو بھاگ کھڑی ہوتی تھی ،اور ایک دن جب میں لکھنو میں ہوتی تھی اور میرے والد کو میری ضرورت محسوس ہوتی تھی تو میں واپس دہلی روانہ ہوجاتی تھی۔ نہیں، یہ کوئی آرام دہ صورتحال نہیں تھی ۔ آخردہلی اور لکھنو کے بیچ اچھا خاصا فاصلہ حائل ہے ،اور…ہاں، میرا خاوندناراض ہوا کرتاتھا،اور وہ مجھ سے جھگڑتابھی تھا۔ ہم دونوں ہی جھگڑتے تھے ۔ ہم بہت زیادہ جھگڑتے تھے ۔یہ سچ ہے ۔ہم دونوں ہی ایک جیسی سخت قسم کے تھے دونوں ہی بہت خودسرتھے ۔۔۔ہم میں سے کوئی بھی جھکنے کو تیار نہیں تھا،اور…میں ان جھگڑوں کو ہمارے لیے بہتر تصور کرتی ہوںکیونکہ وہی جھگڑے تھے جو ہمارے رشتے میں زندگی بھرتے تھے کیوں کہ ان کے بغیر ہماری زندگی عام لوگوں کے جیسی ہوجاتی ،ہاں، جو کہ بے رنگ اور اُکتادینے والی ہوتی ہے۔ہم ایک بے رنگ، عام سی اور اُکتادینے والی زندگی کے حق دار نہیں تھے۔کیونکہ ہماری کوئی زبردستی کی شادی نہیںتھی اور اس نے خودمجھے چناتھا… میرا مطلب ہے کہ یہ وہ تھاجس نے مجھے چناتھاناکہ میں نے پہلے چنائو کیاتھا…میں نہیں جانتی کہ ہماری منگنی کے موقع پرمیں بھی اسے اتناہی چاہتی تھی جتنا وہ مجھے چاہتا تھا لیکن … پھر میرے اندربھی محبت پروان چڑھ گئی اور یہ ایک انوکھا احساس تھااور … خیر، تمہیں یقینا اسے سمجھنا چاہیے!(جاری ہے )