... loading ...
میری بات/ روہیل اکبر
پاکستان کھپے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ بلند کرنے والے آصف علی زرداری دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ہی اپنے دور حکومت میں بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا تھا جسکا فیصلہ انکے صدر منتخب ہونے کے چند روز پہلے ہی آیا۔ خیر اچھا فیصلہ ہے۔ اپنی اصلاح کرنے میں ہی بہتری ہوتی ہے ۔ بھٹو کی پھانسی کو 44 سال ہو گئے لیکن وہ ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اسی طرح کا ایک اور عدالتی فیصلہ مشرف کو موت کے بعد پھانسی دینے کا بھی ہے۔ دیکھتے ہیں اس پر بھی کوئی مزید فیصلہ آتا ہے کہ نہیں جبکہ مجھے ان دو بھائیوں کی پھانسی کا بھی دکھ ہے جنکی موت کے بعد انہیں بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔اس میں ہمارے نظام انصاف کا اتنا قصور نہیں جتنا ہمارے انتظامی اداروں کا ہے اور خاص کر پولیس کا جو ہمیشہ حکمرانوں کی غلام بنی رہی۔ عہدوں اور تعیناتیوں کے لالچ میں ظلم نہیں بلکہ مظالم کی انتہا کردیتے ہیں عوام کو دبانے اور مارنے میں انکا کوئی ثانی نہیں ہماری پولیس ہمیشہ فرنٹ مین کا کردار ادا کرتی رہی لیکن عوام نے بھی ہار نہیں مانی اور اس بار کے الیکشن تو ویسے بھی اپنی نوعیت کے نرالے اور منفرد الیکشن تھے۔ اسٹبلشمنٹ نے بھی سختی کا انتہا کررکھی تھی جس میں امیدواروں کے ساتھ ساتھ انکے سپورٹروں اور ووٹروں تک کو نہیں بخشا گیا ۔حتی کہ پی ٹی آئی کا نام ختم کردیا گیا ۔امیدواروں کو بلے کی بجائے مختلف اور منفرد قسم کے نشانات الاٹ کردیے گئے۔ فارم45روک لیے گئے جعلی فارم 47جاری کیے گئے لیکن اسکے باوجود تحریک انصاف نہ صرف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی اور خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت بن گئی، اس سے پہلے مشرف کا ڈنڈا موجود تھا تو نون لیگ صرف 14 سیٹیں جیت پائی تھی اور قومی اسمبلی کی 5 ویں بڑی جماعت تھی۔ اس بھی پہلے جب ضیا الحق کا ڈنڈا تھا تو پیپلزپارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ ہی کر دیا تھالیکن اس بار عوام نے بتا دیاایک مسلمان کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ جرات و بہادری سے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور سیاست تو ویسے بھی انبیا کی میراث ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاسی ایوانوں میں بدمعاشوں،قاتلوں،رسہ گیروں، فنکاروں اورمکاروں کو دیکھاگیاجنہوں نے نہ صرف ملک کو قرضوں کی دلدل میں ڈبویا بلکہ عوام کو بھی غربت کی لکیر سے نیچے پھینک دیا جبکہ سیاست میں ایسا نہیںہوتا کیونکہ جو سیاست ہمیںہمارے نبی ۖ نے سکھائی وہ عوام کی خدمت کی سیاست ہے۔
اگر اسی تناظر میںہم دیکھیں تو جب مکہ میں اللہ کے رسول پر حالات تنگ کیے گئے تو آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے جہاں پر آپ ۖ کے سیاسی لحاظ سے بے شمارکام ہیں لیکن ان میں سے چند ایک کا سیاسی تناظر میں ذکر کرلیتے ہیں۔ سیاسی و مذہبی طور پر آپۖ نے مدینہ کے یہودیوں عیسائیوں بنو قریظہ بنو نذیر وغیرہ کو مکمل سیاسی و مذہبی طور پر آزاد کیایعنی سیاسی استحکام پیدا کیا پھر آپ نے مکہ سے لٹے پھٹے مہاجرین کے لیے جب اعلان کیا تو انصار نے اپنے کاروبار اور باغات میں سے آدھا آدھا حصہ مہاجرین کو دے دیا۔ یوں آپ نے معیشت کی بنیاد رکھی پھرآپ نے خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے تحت داخلی امور کے مطابق یہ کہا کہ اگر مدینہ طیبہ کے داخلی امور میں کوئی حملہ ہوا تو تمام لوگ مل کر یہود نصاریٰ عیسائی مسلمان مقابلہ کریں گے اور جو خرچہ ہوگا اسے برابر تقسیم کر لیا جائے گا۔ اس سے سیکیورٹی کو بہتر بنایا گیاپھر چوتھے درجے میں جا کر آپ نے شریعت کی پابندی کی۔ یوں نبوت کا فیض پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اگر آج بھی ہم وطن عزیز پاکستان کے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم ۖکی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں سیاسی استحکام، معاشی استحکام، سکیورٹی استحکام اور شریعت کا نفاذ کرنا ہوگا لیکن سوال اب یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قابل لوگ تلاش کیسے کیے جائیں ؟ اس کے لیے بھی ہمیں آپ کا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ حالانکہ آپ سے بڑھ کر ذہین اور فطین اور افضل کائنات میں کوئی اور نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر ذیشان نے مدینہ کی مختلف گلیوں سے 10 اریف چنے اور ان 10 بہترین چنے گئے اریفوں میں سے ایک کو نقیب چنا اور اس نقیب کو مدینہ میں اپنی مشاورتی کونسل کا ممبر بنایا۔ ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی اپنے علاقے کے بہترین اور عمدہ اخلاق اور جرات والے لوگوں کوسیاسی میدان میں اتارنا ہوگا مگر ان کو تلاش کرنے کے لیے بھی ہمیں علم کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میںہمارے پاس بہت سے اسکالرز موجود ہیں جنکی رہنمائی سے ہم سیاست میں تھوڑا بہت کردار ادا کرسکتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہمیں کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے جیسے گھسے پٹے جملے کہنے کی بھی ضرورت نہیںپڑے گی۔
اس وقت تک بہترین لوگ سیاسی عمل میں اتر چکے ہوں گے یہی فیض نبوت ہوگا لیکن ہم نے نیک لوگوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاست سے بیزار کر کے انہیں بتادیا ہے کہ سیاست ایک برا کام ہے یہاں تک کہ نیک لوگوںنے بھی کہا سیاسی کام میں ہم نہیں آتے حالانکہ سیاست اصل میں دین کے کاموں میں سے ہی ایک کام ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے ملا ،مولوی ،مفتی اور عالم دین کو اتنی درجہ بندیوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب مذہب کے نام پر بھی مفاد پرستوں نے اپنی اپنی دکانداریاں کھول رکھی ہیں دن کو وعظ فرمانے والے اور رات کو مدہوش رہنے والے ایسے ایسے نام نہاد عالم دین ہماری سیاست میںآن گھسے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہمیں سیاست میں چور ڈاکو اچھے لگنے لگے ہیں جو الیکشن میں قران پاک پر پیسے دیکر حلف لیتے ہیں کہ ووٹ فلاں امیدوار کو دینگے جو امیدوار پیسے ،لالچ ،دھونس اور دھاندلی سے جیت کر اسمبلی میں جائیگا وہ عوام کی خدمت خاک کریگا بلکہ عوام کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیگا آج انہی سیاسی ٹھگوں کی وجہ سے ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی