وجود

... loading ...

وجود

مجھے صحافت کے حقیقی چہرے کی تلاش ہے !

اتوار 10 مارچ 2024 مجھے صحافت کے حقیقی چہرے کی تلاش ہے !

ب نقاب /ایم آر ملک

ہم ایک طویل عرصہ سے شریف سرکار کے مینجمنٹ میڈیا کے حصار میں گھرے ہوئے ہیں ۔
صحافت کی انتہائی قلیل مقدار جو اپنے پیشے کی آبرو بچانے کی تگ و دو میں ہے ،میں روشنیوں کے شہر میں اپنے مربی محمد طاہر کا نام لینا زیادہ باعث فخر سمجھوں گا جس نے ہمیشہ جھوٹ کے آگے جھکنے سے انکار کیا ،اس کے تجزیاتی عکوس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ طاہر کا ذہن اپنے خمیر میں بے باکانہ وصف رکھتاہے جو کسی بھی طرح کے خارجی یا داخلی دباؤ کی زد میں نہیں آتا اور وہی کہتا ہے جو اس کا ضمیر چاہتا ہے یا اسے کہنے کے لیے کہتا ہے۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سرمایہ کاروں کے ٹی وی چینلز نے جو طوفان بد تمیزی کھڑا کیا وہ شاید قوم کی یادوں سے کبھی معدوم نہ ہوپائے ،اسے ہم استحصالی گروہ کا چہرہ کہہ سکتے ہیں ،جس پر جھوٹ کی ملمع کاری کی گئی ،عوام کے مینڈیٹ پر ڈالے گئے ڈاکہ جو تاریخی دھاندلی کی شکل میں ہوا کیا ان ٹی وی چینلز پر ہونے والے ”پلانٹڈ احمقانہ مباحثوں ”کو بھلا بھلایا جا سکتا ہے ؟
حالت یہ ہو گئی ہے کہ بحث میں شریک چند لوگ اگر سچ بات کہتے ہیں تو دوسرے روز کسی مباحثہ میں اسے بلایا ہی نہیں جاتا ۔8فروری کے بعد ایک اقلیت بلاشرکت غیرے ملک پر قابض کردی گئی ،یا ہوگئی یہ بھی اسی لے پالک میڈیا کا کمال ہے کہ عوام دشمن حکمرانی کا ہم دوسرا ”ٹریلر ”دیکھ پائیں گے۔8فروری کو اس مجرمانہ صحافت کے پشت پناہ شریف خاندان کے سارے منصوبوں پر سوشل میڈیا نے پانی پھیر دیا ، میڈیا کی اسی چاپلوسی، سرکار پرستی، نفرتی ایجنڈہ اور بے ریڑھ کا ہو جانے کی وجہ سے سرکاری چینلز رینکنگ میں نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے اور اس گراوٹ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جمہوریت کی سب سے بڑی’ ”چیمپئن ”سیاسی جماعت کی طرف سے سینیٹ میں اس قرارداد کا پیش ہونا کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے دراصل اس خوف کا ہی شاخسانہ ہے جوزرداری ،شریف اتحاد کی شکل میں پورے گروہ پر حاوی ہو چکا ہے ۔
اس سارے پیش منظر اور پس منظر کے بعد ایک سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا صحافیوں کی کوئی شناخت ممکن ہے؟کیا صحافی وہ ہیں جو اخبارات یا چینلوں کے مالک ہیں؟ یا پھر ان کے ملازمین صحافی ہیں؟ اگر کوئی ملازم، صحافی ہوگا تو اس کا ذہن اپنا ہوگا اور نہ ہی اس کا دماغ تو ملازم کیسے صحافی ہوسکتا ہے؟ ایسے میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ملازمت میں آزادی کہاں ؟ چینل مالکان تو اس زعم میں ہیں کہ ملازم کی سانسوں پر بھی ان کا حق ٹھہرا ۔ وہ جب چاہیں جو چاہیں اپنے ملازم سے کراتے پھریں ۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ ایک مالک کسی ایسے لیڈر سے ملا ہوا ہے جو عوام کو تباہ و برباد کررہا ہو تو وہ اپنے ملازم سے وہی جھوٹی تعریفیں عوام کو جھوٹے خواب دکھائے گا۔ کیوں لوگ حق کی بات نہیں کرتے؟ کیا انسانوں کے اندر سے انسانیت ختم ہوگئی ہے کیا ان کا ضمیر مرگیا ہے؟
پریس کی آزادی جمہوریت کی بقا کی اولین شرط ہے لیکن کیا پاکستا نی پریس کو ہم واقعی آزاد کہہ سکتے ہیں ؟ کیا اس کی آزادی کا پیمانہ اس کے ذریعہ اپوزیشن کے خلاف چلائی جا رہی اس کی مہم سے لگایا جائے گا؟ یا حکومت سے سوال پوچھنے کی آزادی حکومت کو ایکسپوز کرنے کی آزادی، عوامی مسائل اٹھانے کی آزادی، عوام کے کھڑے ہونے کی آزادی سے لگایا جائے گا؟ یا پریس کی آزادی کے نام پر ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سماج کو متحد کرنا پریس کا فرض ہے یا منقسم کرنا؟ کبھی پریس کو مستقل مخالف کہا جاتا تھا، یعنی سرکار چاہے جس پارٹی کی ہو اس پر نظر رکھنا، اس کی غلطیوں کو اجاگر کرنا، اس سے سوال پوچھنا میڈیا کا فرض ہوتا، مگر اب لے پالک میڈیا اپوزیشن سے سوال کرتا ہے اور حکومت کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتا ہے۔
صحافت کبھی سچائی کا مضبوط قلعہ ہوا کرتی تھی۔ صحافی ہر طرح کی تفریق سے بلند تھے ۔۔ یہ وہ میڈیا تھا جس کی راسیں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر ،شورش کاشمیری کے ہاتھ میں تھیں ،وہ صحافت جس نے برٹش سامراج کے چھکے چھڑا دیے ۔ مولوی باقر نے پھانسی قبول کی تھی مگر قلم کا تقدس نہیں مٹنے دیا ۔ جنگ آزادی کے دور میں ہر زبان کے ان گنت صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھوک کا شکار رہے، پھٹے کپڑوں اور بھوکے پیٹ رہ کر بھی اپنے قلم کو تلوار بنائے رکھا۔ آزادی کے بعد بھی گو کہ کچھ ناپسندیدہ واقعات ہوئے لیکن مجموعی طور سے میڈیا آزاد ہی رہا، لیکن اب میڈیا نے جو رخ، رویہ اور طرز عمل اختیار کیا ہے وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ قریب 35 سال سے اس پیشے میں رہنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ اور بات اس نہج پر آپہنچی ہے کہ اپوزیشن اس مخصوص میڈیا کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ،بہتر ہوتا کہ میڈیا خود اپنا محاسبہ کرتا اور سوچتا کہ ملک کی 60 فیصد سے زائد عوام کی نمائندہ جماعت کو اس پر عدم اعتماد کیوں ہے؟ اپوزیشن کے اس انتہائی قدم کے باوجود بھی یہ میڈیا اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے حکومت اور حکمران پارٹی کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ان کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہ صرف درست بلکہ حق بجانب ہوگا ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر