... loading ...
سمیع اللہ ملک
الیکٹرانک میڈیانے جس سرعت کے ساتھ اپناوجودمنوایاہے، اس نے ساری دنیامیں ہونے والی کسی بھی خبرکوپل بھرمیںجہاں ناظرین کوباخبررکھا ہواہے وہاں بدقسمتی سے ہمارا میڈیا ،سول سوسائٹی حتی کہ اہل سیاست کے برخوردارغلط قسم کے حلقے ریاست اورریاستی اداروں کومختلف حوالوں سے تنقیدبلکہ تنقیص کاہدف بنانااپنافرض سمجھتے ہوئے میڈیاکی بے مہارآزادی کاناجائزفائدہ بھی اٹھارہاہے۔مزیدبدقسمتی یہ کہ اس شوقِ فضول اورمشق لاحاصل کووہ دانشوری اورجدت پسندی کی علامت قراردے رہاہے۔ جس سے غیرملکی بشمول بھارتی آقابہت خوش ہیں،خودحکومت میں شامل بعض بزرجمہرفرماتے ہیں کہ طاغوتی طاقتیں عدلیہ اوربعض بااثراداروں پردباؤڈال کراپنے مذموم مقاصدکی تکمیل میں لگی ہوئی ہیں۔اس قبیل کے بعض عناصرپاک فوج اورسول انتظامیہ میں ہم آہنگی کے خوش آئندامکانات معدوم کرنے میں مشغول ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی،سیاسی اورریاستی ڈھانچے میںبہت سی کوتاہیاں ہیں لیکن اس حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ امربھی پیش نظررہناچاہئے کہ خدانخواستہ ہماری قومی سلامتی اوراس کے محافظ اداروں کوکوئی گزندپہنچی تو اجتماعی طورپرملک وقوم کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
اس ضمن میںبھارت میںبسنے والے کروڑوں مسلمانوں کاہلکاساموازنہ پیش نظررہے توشایدکفرانِ نعمت کے مرتکب ہمارے افراد اور گروہوں میں کچھ مثبت تبدیلی رونماہوسکے۔یہ کوئی رازکی بات نہیں کہ بھارت کے جمہوریت اورسیکولر ازم کے تمام دعوؤں کے باوجود24 کروڑکے لگ بھگ مسلمان آج بھی دوسرے ہی نہیں بلکہ تیسرے درجے کے شہری ہیں ۔ایک انسان دوست بنگالی ہندودانشورشرت بسواش نے بی بی سی کی ہندی سروس میں بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کاذکرکرتے ہوئے کہاتھاکہ بلاشبہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر حسین، فخرالدین علی احمد، ابوالکلام کوصدارت کے منصب پر فائز کیاگیااورممبئی کی فلم اندسٹری میں بھی چندمسلمان اداکاراہم مقام کے حامل رہے ہیں مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں کے ضمن میں کوئی اچھی خبرڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔
منموہن سنگھ نے9مارچ 2005 کوجسٹس سچرکی سربراہی میں مسلمانوں کااحوال جاننے کیلئے کمیٹی نے30نومبر 2006 کواپنی رپورٹ میں انکشاف کیاتھاکہ بھارتی مسلمانوں کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ بدترہوگئی ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 94.99مسلمان خط غربت سے نیچے اورشہری علاقوں میں61.1فیصدخط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔دیہی علاقوں کے 64 اورشہری علاقوں کے62نے کبھی اسکول کامنہ نہیں دیکھا۔دیہی مسلم آبادی کے8اورشہری علاقوں میں1.3مسلم گریجویٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجویٹ ہیں۔مغربی بنگال کی کل آبادی کا 52مسلمان ہیں مگرسرکاری نوکریوں میں یہ شرح صرف4.2ہے۔ آسام میں 40 مسلمان مگرنوکریاں1.2،کیرالہ میں20آبادی مگر1.4کے پاس نوکریاں ہیں۔ البتہ کرناٹک میں2۔ 21مسلم آبادی کے پاس نسبتاً بہتر یعنی8.5نوکریاں ہیں۔بھارتی فوج اورمتعلقہ خفیہ اداروں نے سچرکمیٹی کوسروے کی اجازت نہیں دی مگرذرائع کے مطابق بھارت کی 41 لاکھ سے زائدفوج میں مسلم تعدادصرف 92ہزارہے اوران میں سے بھی 5کاتعلق مقبوضہ جموں وکشمیرکی پیرا ملٹری فورسز سے ہے،یوں بھارتی آرمی میں مسلمانوں کی تعداد تین فیصدسے بھی کم ہے اوراس میں بہت بھاری اکثریت نچلے درجے کے اہلکاروں کی ہے اورانہیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔اس سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یادوسری بڑی اکثریت کن نامساعدحالات میں زندگی گزاررہی ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی زبوں حالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اوران کی حالت زاردیکھ کردوقومی نظریے پریقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ بھارت کی دگرگوں صورتحال کی سنگینی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ ہم خیال کرتے ہیں۔اگریادہوتو بھارتی وزیرمملکت برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے ریاست ہریانہ کے شہرمیوات کے گرلزہاسٹل کے افتتاح اور ایک ہائرسکینڈری اسکول کاسنگ بنیادرکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ بھارت میں اب57مسلمان خط غربت سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں اور بھارت میں ذات پات،مذہب اورعلاقے کی بنیادپرتفریق آج بھی بہت گہری ہے۔ان کاکہناتھاکہ بھارت میں اقلیتوں کیلئے غربت اوربیروزگاری سب سے بڑاچیلنج ہیں۔
بھارت میں ملکی سطح پرمسلمانوں میں شرح خواندگی46.8ہے،مزیدبراں6سے14سال کی عمرکے ہر4میں سے ایک بچہ یاتواسکول جاتاہی نہیں یاابتدائی کلاسزسے ہی اٹھالیا جاتا ہے۔قائم مقام وائس چانسلرپروفیسرجمیل انورچودھری نے کہاہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ابتری وزبوں حالی اچھوت وشودراقوام سے بھی بدترہے۔وہ الرازی ہال نیو کیمپس میں(دلت تحریک ….ماضی حال اور مستقبل)کے موضوع پرمنعقدہ ایک روزہ سیمینارسے خطاب کررہے تھے جس سے ایڈیٹردلت وائس بنگلوروی ٹی راج شیکھر،پرنسپل سینٹ انیس کالج کیرالہ،پروفیسرراجوتھامس، پروفیسر خواجہ محمد زکریا،ڈاریکٹر سرگنگارام ہرٹیج فانڈیشن،پروفیسرمحمدیوسف عرفان اورڈائریکٹرساتھ ایشین ا سٹیڈیز سنٹر،داکٹرمحمدسلیم مظہر نے بھی خطاب کیا۔ایڈیٹردلت وائس راج شیکھرنے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بھارت میں مسلمانوں کودہشت گرد،جانور اورغدارقراردیتے ہوئے انہیں پاکستان یاقبرستان جانے کیلئے کہاجاتاہے،دوسری طرف ہندومسلم اتحاد کیلئے امن کی آشا جیسی ڈرامہ بازیاں کررہے ہیں جوپاکستان کے نظریاتی وجودکومنہدم کرنے کے مترادف ہیں۔بھارت میں اقلیتوں کی حالت زارکسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہ سچائی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ سیکولر کے پردے میں کٹر ہندوں نے دیگر مذاہب ماننے والوں کوعملی طورپر یرغمال بنانے کی حکمت عملی جاری رکھی ہوئی ہے۔تقسیم ہندکوانتہاپسندہندوں نے تاحال دل سے قبول نہیں کیاچنانچہ پاکستان اورمسلمان دشمنی کے مظاہرے آئے روزکسی نہ کسی شکل میں رونماہوتے رہتے ہیں۔
سیاست اورمیڈیامیں پاکستان دشمنی ہی ہے جس کے سبب اب تک قیام امن کی ہرکوشش ناکام ہوتی چلی آئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اوربھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے باوجودتنازعات پرامن اندازمیں حل کرنے میں کامیاب نہ ہوناجنوبی ایشیاکے علاوہ دنیابھرکے امن پسندلوگوں کیلئے تشویشناک بن چکاہے۔بھارت کی تاریخ کاہرطالب علم جانتاہے کہ کانگرس کے مسلم رہنماں نے ہمیشہ مسلمانوں کویہ یقین دلایاکہ انگریزوں کے جانے کے بعدہندواکثریت ان پرطاقت کے بل بوتے پرمسلط نہیں ہوگی۔ابوالکلام آزاد جیسے مسلم رہنمااپنے طورپربھرپوراندازمیں یہ مہم چلاتے رہے کہ مذہب کی بنیادپر مستقبل کے بھارت میں ہرگزتفریق نہ برتی جائے گی مگربدقسمتی سے ایساکبھی نہ ہوسکا۔آج بھی بھارت میں کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجودکٹرہندومسلمانوں کی الگ شناخت دل سے تسلیم کرنے کوتیارنہیں۔ بابری مسجدکاواقعہ انتہاپسندی کی بدترین مثال کی صورت میں آج بھی انصاف کی منتظرہے۔گجرات میں مسلم کش فسادات بھارت میں اہل توحید کی زبوں حالی کاایک اورایساثبوت بن کرابھرے ہیں کہ خودکودنیاکی بڑی سیکولرجمہوریت کادعویٰ کرنے والوں کے منہ پرمستقل طورپرایک کالک بن کرتاریخ میں رقم ہوچکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کواس سرزمین پرامن وامان سے رہنے کاحق کون دے گاجہاں خودہندوانتہاپسندوں کی حکومت ہو۔بھارت میں24کروڑکے لگ بھگ مسلمان موجود ہیں مگران کی یہ تعدادبھی انہیں تحفظ اورترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے،واحد وجہ یہی ہے کہ ہندومسلمانوں سے کئی گنااکثریت میں ہیں۔ بھارت میں وقتا فوقتا مسلمانوں کی زبوں حالی کے بارے میں خبروں کی اشاعت سے یہی نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ دانستہ طورپرایک اللہ،ایک رسول ۖ اورایک قرآن کوماننے والوں کوپس ماندہ رکھنے کی حکمت عملی جاری ہے۔حدتویہ ہے کہ بھارت میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگرمذاہب کے ماننے والے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ ایسی دینی درسگاہوں میں اسلام کی حقانیت کی تعلیم کس حدتک دی جاسکتی ہے۔ بظاہر یہ ناپسندیدہ نہیں کہ مسلمان،ہندواورعیسائی بچے بیک وقت تعلیم حاصل کریں مگردینی مدرسہ میں مذکورہ ماحول کے اثرات سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
آگرہ میں انتہاپسندہندوں نے کم وبیش دوسومسلمانوں کوجاگیرسے بے دخل کرنے کاخوف دلاکراسلام چھوڑنے پرمجبورکیا مگران کواس وقت ناکامی کا منہ دیکھناپڑاجب مسلمانوں نے اپنے گھروں میں جاکرنمازکی ادائیگی اورقرآن کی تلاوت کرکے دین سے اپنی وابستگی کا برملا ثبوت دے ڈالا۔بھارتی میڈیامیں یہ خبرآچکی کہ غریب مسلمانوں کوراشن کارڈ دینے کا لالچ دیکرانہیں ہندوبنانے کی مہم جاری ہے۔ آرایس ایس اوراس کی دوذیلی تنظیمیں بجرنگ دل اوردھرم جگ رن بیچ اس ضمن میں بے دریغ پیسہ خرچ کررہی ہیں۔مذکورہ تنظیموں نے دعویٰ کیاہے کہ75مسلمان خاندان ہندودھرم میں آئے ہیں۔ بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کوہندوبنانے کے پروگرام کو”پرکھوں کی واپسی” کانام دیاگیاہے۔ 2003 سے لیکراب تک دو لاکھ 78ہزارمسلمانوں عیسائیوں کوہندودھرم اختیارکرنے پرمجبورکیاگیا۔
مذکورہ واقعہ کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ آرائی بھی ہوئی،ایوان میں حزبِ اختلاف کے رہنماں کاموقف تھا کہ طاقت کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کی مہم بھارت کے سیکولرتشخص کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔بھارتی آئین میں زبردستی مذہب تبدیل کرناقانونی طورپرجرم ہے مگراس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ انتہا پسندہندورہنماراجیشورکا کہنا ہے کہ ساٹھ گرجاگھروں پران کاقبضہ ہے اوران میں اب کوئی عبادت نہیں ہورہی۔انتہا پسندہندورہنمانے فخریہ اندازمیں کہاکہ ایک دن گرجاگھروں کی دیواریں گرادیں جائیں گی اورہمارادیش صرف ہندودیش ہوگا۔سوال یہ ہے کہ مودی کے برسر اقتدارہوتے ہوئے یہ خوش فہمی کس طرح پالی جائے کہ پڑوسی ملک میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کیلئے زمین تنگ نہیں کی جائے گی۔ کیا ہمارے وظیفہ خورقسم کے دانشوراس اٹل حقیقت سے انکارکرسکیں گے؟
ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی آبادی 10.6فیصدجبکہ جیلوں میں ان کی تعداد 32.4فیصدہے۔گجرات میں آبادی9.06فیصداورجیلوں میں ان کی تعداد 25فیصدہے۔آسام میں مسلمانوں کی آبادی30.9فیصداورجیلوں میں ان کی تعداد28.1فیصدہے۔کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی12.23فیصد ہے اور جیلوں میں ان کی تعداد17.9فیصدہے۔نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں 32814قیدیوں میں سے مسلمان5.20ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس مسلمانوں کوشبہ اورجھوٹے مقدمات میں گرفتارکرتی ہے۔عدلیہ میں انہیں انصاف بھی نہیں ملتا۔ مغربی بنگال میں مسلمان آبادی کا25فیصدہیں۔آسام میں مسلمانوں کی آبادی31فیصدہے مگر عدلیہ میں ان کی نمائندگی9.6فیصد ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرعدلیہ میں مسلمانوں کا تناسب48فیصد ہے۔سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔انہیں بہت کم سرکاری ملازمتیں ملتی ہیں۔ کیرالہ میں59 فیصدمسلمان اعلی عہدوں پرفائزہیں جبکہ مغربی بنگال میں کوئی مسلمان بھی اعلی عہدے پرفائزنہیں۔کرناٹک میں ان کا حصہ58فیصدہے۔گجرات میںصرف 45فیصدمسلمان ملازم ہیں۔ تامل ناڈومیں23فیصد،آسام میں211فیصد،مغربی بنگال میں صرف24فیصدملازم ہیں۔
خودحکومت ہندکی مقررکردہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق”ترقی کے بیشترمعاملات میں مسلم برادری دوسری تمام برادریوں سے پیچھے ہے۔ مسلمانوں میں غربت اور ناخواندگی دوسروں سے زیادہ ہے۔تعلیم کی کمی ہے اورسرکاری و غیرسرکاری اداروں میں ان کی نمائندگی تشویش ناک حد تک کم ہے۔شہری علاقوں میں مسلمان عموما جھگی جھونپڑی والے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں صاف پانی اورصفائی کی سہولیات بھی میسرنہیں ہیں اورسوچے سمجھے منصوبے کے مطابق مودی حکومت ان کو پسماندگی میں رکھ کران کوخوفزدہ رکھنے کی پالیسی پر عملدرآمدکررہی ہے۔ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ پرستی کااحساس پراناہے لیکن ہندوستان اوردیگرغیرممالک میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جس نے فرقہ وارانہ سوچ میں مزیداضافہ کیاہے۔اس طرح کی سوچ ہندوستان میں اب عام ہے اورہندوستان کی حکومت نے کبھی اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی باقاعدہ اقدامات بھی نہیں کئے ہیں۔
فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کے نام پروہ”ہندومسلم بھائی بھائی،سب مذہب ایک ہیں”کے نعرے لگاتے رہتے ہیں لیکن یہ کسی مسئلہ کاحل نہیں ہوتاہے۔حکومت کی اس ناکامی کی وجہ سے ہندونظریاتی تنظیموں اورمسلم نظریاتی تنظیموں نے اپنے اپنے مفاد کیلئے ہندو،مسلم خلیج کااستعمال کیااورہندوستان کی سیکولرشبیہہ کوکبھی ابھرنے نہیں دیا۔مسلم مخالف احساسات یااسلاموفوبیاکوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن2001میں امریکامیں ہونے والے بم حملے،کشمیرمیں جاری جدوجہدآزادی اورحالیہ ممبئی بم دھماکوں نے ہندوستان میں مسلمان اور ہندوں کے درمیان مزیدتلخی پیداکی ہے۔مسلمانوں او اسلام پریہاں تک الزام عائد کئے گئے ہیں کہ اسلام خود”دہشتگردی”اوردوسرے مذہبوں کے خلاف نفرت کا سبق سکھاتاہے جبکہ ہندوستان میں برسوں سے جاری واقعات نے ثابت کیاہے کہ مسلمانوں پر ان الزامات کی روشنی میں خودبھارت کی موجودہ متعصب گروہ نے بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کوجینامحال کررکھاہے۔
اگرچندلمحوں کیلئے یہ بات صحیح مان لی جائے کہ ہندوستان اوردیگرممالک میں دہشتگردانہ حملوں کیلئے بعض مسلم گروپس ذمہ دارہیں تواس کی وجہ ان کے اپنے خراب سماجی اورمعاشی حالات کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ مسلسل ہونے والی زیادتیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے ان میں وہ
غم وغصہ ہوسکتاہے جو ایک عرصہ درازسے وہ برداشت کررہے ہیں۔لیکن کیا مودی سرکارکے سوچے سمجھے گجرات ہندومسلم فسادات کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی،ہزاروں مسلمانوں کو حکومتی اداروں کے زیرسرپرستی اس صدی کے بدترین فسادات میں انہیں تہہ تیغ کردیاگیالیکن اسے قبول کیے بغیرایک بارپھرسیدھانشانہ اسلام اورمسلم پر لگایاگیا۔جب گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے تھے تب ہندو مذہب کوکیوں اس کاذمہ دارنہیں ٹھہرایاگیا۔اسی طرح امریکی فوج نے ہزاروں مسلمانوں کوعراق،افغانستان،کوریااورویتنام میںمارگرایا،اس وقت عیسائی مذہب کوان ہلاکتوں کا ذمہ دارنہیں ٹھہرایاگیا۔اب اہم سوال یہ اٹھتاہے کہ جب بھی کوئی حملہ ہوتاہے تو مسلمانوں کوہی کیوں نشانہ بنایا جاتاہے۔ہندوستانی تاریخ میں مسلمانوں کی کثیرتعدادکوصرف عجائب گھروںاورمشاعروں تک ہی کیوں محدود رکھاجارہاہے؟آخرہندو نظریاتی تنظیمیں اس قدردیدہ دلیری سے تاریخ کومسخ کرنے کی کیوں کوششیں کررہی ہیں کہ”تاج محل”مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے نہیں بنوایاتھا بلکہ تاج محل کانام”تاجو محلیہ”اوروہ ایک ہندوراجپوت راجاکامحل تھا۔
اسکولوں،کالجوں اوردفتروں میں مختلف مذہب اورذات کے افرادایک ساتھ کام کرتے ہیں لیکن باوجوداپنی تعلیمی قابلیت اورسخت محنت کے باوجودترقی سے محروم رکھنے کے عذاب سے دوچارہیں۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہونے والے بعض فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بہت سے مسلمان اپنی حفاظت کیلئے ”گھیٹوز”میں رہنے پرمجبورہیں۔یہ مسلمان گھیٹوزمیں رہ کراپنی حفاظت سے زیادہ ان مذہبی رہنماں کے مشن کوکوستے ہیں جنہوں نے تقسیم ہندوستان کے وقت دوقومی نظریہ کی مخالفت کرکے ان کوہندوستان میں رہنے پرمجبورکیااورآج وہ ااپنے بزرگوں کے دھوکہ کی قیمت چکارہے ہیں۔
ہندوستان میں مسلم مخالف احساس زورپکڑرہا ہے اورایسے حالات میں مسلمانوں کی لڑائی لڑنے میں خودمسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے۔بعض مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کودہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔یہ مسلم تنظیمیں کسی مضبوط ہندومیڈیاسے جڑی ہوئی نہیں ہیں اورمودی حکومت نے سارے میڈیاکوخریدرکھاہے جس کی بناپرمیڈیا مودی کی پالیسیوں کے مطابق کام کررہاہے اور ان کوسختی کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پرمکمل خاموشی اختیارکرنے کاحکم ہے اوریہی وجہ ہے کہ ان مسلم تنظیموں کے نظریات بیشتراردو اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔
ان اخبارات کوصرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اورغیرمسلمان اس آوازکوکبھی نہیں سن پاتے ہیں۔علمایہ بات بارباردہراتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردنہیں ہوسکتے کیونکہ اسلام کے مطابق معصوموں کی جان لیناپوری انسانیت کاخون کرنے کے برابر ہے لیکن ان کی اس بات کوسننے والے کم ہی ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے غیرمسلم لوگ ایسے کئی مسلمانوں کی مثال دیتے ہیں جواسلام کے نام پراپنی کاروائیوں کوصحیح بتاتے ہیں۔اپناردِعمل بتانے کیلئے مسلم تنظیموں کی نہ مودی میڈیامیں کوئی شنوائی نہیں اورنہ ہی اس میڈیامیں کسی مسلمان کیلئے کوئی جگہ ہے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے ماتحت چلنے والے چنداخبارات کومالی وسائل میں مبتلاکرکے ان کی اشاعت یاتوبالکل مختصرکردی جاتی ہے یاپھرمالی دشواریوں میں مبتلا کرکے ان کاگلہ گھونٹ دیاجاتاہے۔جہاں تک پڑھے لکھے مڈل کلاس مسلم طبقہ کاسوال ہے شایدمسلمانوں کی اس لڑائی میں وہ ایک اہم کرداراداکرسکتے تھے لیکن وہ اپنے سماجی اورمعاشی معیارکوبلندکرنے میں انتھک محنت کرنے میں مصروف ہیں اورشائداسی سے مطمئن ہیں کہ ان نامساعدحالات میں زندگی کی ڈورقائم رکھنے کیلئے جاری حالات سے معاہدہ کرنے میں ہی عافیت ہے۔یہ ہے مودی ہندوستان کاوہ مکروہ چہرہ جس کوعالمی طورپر اجاگرکرنے کیلئے ہمارے حکومتی اداروں کاتساہل اورہماری سیاسی جماعتوں کاغیرذمہ دارکردار بھی شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔