... loading ...
زرّیں اختر
معاشرہ جس ڈگر پہ پچھلے پچاس پچھتر سال سے چل رہا ہے ،نہ حالات سدھر رہے ہیں نہ پٹری بدل رہی ہے ؛سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ ایسا تب تک چلے گا جب تک کہ ۔۔۔انقلاب ونقلاب کوئی نہیں ،یہ خیال ہی اپنے ذہن سے نکال دیں،میں ایسی کوئی پیش گوئی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کہ کہوں کہ انقلاب کا دور گزر گیا،ہاں میں یہ ضرور سمجھتی ہوںکہ اسے گزر جانا چاہیے۔ شاید پاکستان تحریک ِ انصاف کے رہنما کے ذہن میں بھی ایسا کوئی خیال ہو جوانہوں نے قوم کو انقلاب کا نعرہ دینے کے بجائے تبدیلی کا نعرہ دیا۔ دنیامیں جہاں انقلاب آنے تھے آچکے ،انقلاب اپنے جلو میں کتنی اکھاڑ پچھاڑ لاتا ہے ،کتنی دھول مٹی اڑتی ہے ،کتنے عرصے میں گرد بیٹھتی ہے اور جو بدلا ہوا منظر نظر آتاہے وہ اپنے اندر تبدیلیوں کی قبولیت کی کتنی قوت اور ان کو رد کرنے کی طاقت رکھتاہے ،یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکار ہوتاہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ انقلاب کامیاب نہیں ہوئے یا انہیں ناکام کہاجائے ،لیکن ایک ایک آدمی کی کہانی کہ وہ آدمی خاص بھی ہوسکتاہے یعنی انقلابی عمل کارہنما یاکارکن اور مجھے اس کی عام زندگی کی داستان سے اتنی دل چسپی نہ بھی ہو لیکن اس سماج کا عام آدمی بچہ ، بوڑھا ،جوان ،عورت ۔۔۔وہ انقلاب ان کی سماجی و نفسیاتی زندگی پر کیا کیااور کیسے کیسے اثرات مرتب کرتاہے اوروہ ہمہ گیر اثرات کتنے وقتی اور کتنے دیرپا ہوتے ہیں۔۔۔یہ سب جاننے اور سمجھنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہئیں۔
مثال کے طور پر ایک طویل عرصے تک تو مجھے جیسے ‘ہجرت ‘ کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں تھی ۔ سراسر لاعلم ۔۔۔نصابی کتابوں کے ذریعے جو تاریخ ہم تک پہنچتی ہے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہوکر 1857کی جنگ ِ آزادی سے ہوتی ہوئی ،گاندھی و جناح یا کانگریس و مسلم لیگ سے گزرتی ہوئی ہندوستان کی تقسیم ،پاکستان و بھارت کے قیام اور ١٤ ِ اگست ١٩٤٧ء پاکستان زندہ باد کے نعرے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اسی میں ہم کچھ اور واقعات بھی پڑھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمان حملہ آور فاتحین ،انگریز غاصب ،ہندو سازشی اور مسلمان مظلوم قرار پاتے ہیں۔ یہ نصاب ایک خاص قسم کی قوم کی ذہنی و نظریاتی تشکیل کے لیے مرتب کیاگیا۔ جو نصاب سے دور تھے ان کے لیے سرکاری ریڈیو ،سرکاری ٹی وی اور سرکاری ذرائع ابلاغ تھے ۔ نتیجہ یہ کہ جو نصاب پڑھتے تھے او ر جو نصاب سے دور تھے دونوں میں ”قدرِ مشتر ک” مذہبی جذباتیت تھی اور کیوں کہ یہ ملک بھی مذہب کے ”نام” پر حاصل کیاگیا اس لیے اس ‘قدر ‘کو اتنا فروغ ملا کہ مکالمے کی ‘قدر’ کھوگئی ۔
یہ ریڈیو اور ٹی وی کا اعجاز ہے کہ اس وقت یہ گانا ذہن میں گونجا:
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں
درد بھر ے دل کی زباں
جائیں تو جائیں کہاں
سرکاری ذرائع ابلاغ سے کچھ نہ کچھ نکل کے آتارہا۔ اس لیے کہ ان سے وابستہ افراد بھی مختلف نظریات کے حامل تھے ،لیکن جب انتہاپسندی کہ ‘میں ہی ٹھیک ہوں ‘در آئی تو پہلے تو معاشرے کی صحت متاثر ہونا شروع ہوئی ،پھر گرنی اور اب تو جیسے چلابھی نہیں جاتاوالی کیفیت ہے ۔ یہ معاشرہ دو انتہائوں پر ہے اورمکالمہ گویا کفر۔ وہ اذہان جو متوازن سوچ کے حامل ہیں اور جو دریا کے دوپاٹوں کے درمیان بند باندھ سکتے ہیں ان کو مذہبی طبقہ رد کردیتاہے ۔یہ ‘رد’ معاشرے کو بڑا مہنگا پڑا، اس کی قیمت چکاتے چکاتے نسلیں کھپ گئیں ۔جب تک مذہبی طبقہ اشرافیہ بننے کے خواب دیکھتارہے گا اور مقتدرہ کو اس میں اپنا فائدہ نظر آتارہے گاتب تک نہ کسی سماجی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے اورنہ ‘نمونے میں تبدیلی ‘ کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتاہے ۔ نمونے میں تبدیلی ‘پیراڈائم شفٹ’ کا اُردو ترجمہ کیا ہے۔
حکومت ایک بڑا کام کرکے دکھادے اور وہ ہے ‘مساوی نظام ِتعلیم’۔اب اگرمیں یہاں لفظ سیکولر استعمال کروں گی تو پھر مشکل ۔ لفظ سیکولر کا جو تصور میرے ذہن میں بنا اور واضح ہواوہ اسلامی نظریاتی کونسل سے شائع کردہ مجلہ’ اجتہاد’ کو پڑھ کے بنا جس کے مطابق سیکولر ہونے کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ یہ ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔
علم ِ ریاضی کے چار بنیادی قاعدوں یعنی جمع، تفریق،ضرب اور تقسیم میں کیوںہم نے تفریق اور تقسیم ہی سیکھی بجائے جمع اور ضرب کے توتقسیم کا نتیجہ ملاحظہ کریں ۔ پہلے ہندو اور سکھ تھے ،اب شیعہ،سنی ہیں اور جو سنی ہیں وہ بریلوی ،دیوبندی اور وہابی بھی ہیں صرف سنی نہیں ہیں،اس کے ساتھ ساتھ وہ مہاجر ،سندھی ،پنجابی ،پٹھان اور بلوچی ہیں،اور جب ہم یہ ہیں توسوچیں آغاخانی ،بوہری اور پارسی ہونا کتنا مشکل ہے اور یہودی ہونا تو ناممکن ہی ہے ،حالاں کہ یہ سب ہیں ،بس ہمیں نہیں ماننا،ہم مر جائیں گے پر مانیں گے نہیں ،کیوں ؟ کیوں کہ ہم نے کہ ماننا سیکھا ہی نہیں،ہم نے دیکھا ہی نہیں، ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا۔پاکستان ٹیلی وژن کا مقبول مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی میں ایک خاکہ آتاتھا جس میں اسمعیل تارا نانا ابا کے روپ میں سفید لمبی داڑھی اور زیباشہناز فراک پہنے اور دو پونیاں بنائے ،اس میںزیبا شہناز کہتی ہے ”میں نہ مانوں” اور اسمعیل تارا ہنستے ہوئے جواب میں کہتے ہیں’ارے تو مان یا نہ مان پاگل’۔
قارئین کرام !آپ یقین کریں یہ سب مندرجہ بالاطویل تمہید ایک خبر کا نتیجہ ہے اور وہ خبرلاریب حسین کا قتل ہے ۔یہ بھی عمرانی تحقیق کا موضوع ہوسکتاہے کہ الفاظ ‘اسٹریٹ کرائم’ خبری اصطلاح کے طور پر کب متعارف ہوئی ؟وقت گزرنے کے ساتھ یہ ‘اسٹریٹ کریمنل’ کیوں مضبوط ہوتے گئے اور کیسے نوبت قتل تک پہنچ گئی ؟ یہ بد صورت اور بھیانک حقیقت اس معاشرے کی ہولناک سچائی ہے کہ اگر لوٹ مار میں مزاحمت کی تو نتیجہ قتل ،اب کرلیں”وزیرِ اعلیٰ ”جو کرناہے۔ ہم نے قانون سے لاقانونیت کا سفر طے کیاہے ، تو یہ شروع کہاں سے کب اور کیسے ہوا؟ لگا کہ :
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
لیکن آخرکب تک؟