وجود

... loading ...

وجود

حالیہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھتے سوالات

جمعه 08 مارچ 2024 حالیہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھتے سوالات

ریاض احمدچودھری

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے پاکستان میں عام انتخابات 2024 پر جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ عام انتخابات 2024 میں سب سے کم منصفانہ اسکور ریکارڈ کیا گیا۔ یہ پچھلے انتخابی ادوار کے مقابلے میں شفافیت کے سکور میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔قبل از پولنگ مرحلے کے دوران انتخابات کے شیڈول میں کافی تاخیر اور سیاسی جبر اورنگران حکومت کی جانب سے غیر جانبداری کا فقدان دیکھا گیا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال رہی۔ موبائل بندش نے انتخابی عمل میں عوام کی شرکت کے لئے بھی مشکلات پیدا کیں۔ فارم 45 اور فارم 47 کے درمیان بڑے پیمانے پر تفاوت کے الزامات نے بھی انتخابات کی ساکھ کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا۔
پلڈاٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر فارم 45،46،48اور 49 کی اشاعت میں تاخیر کی گئی۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 95(10) کی خلاف ورزی نے الیکشن کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔ پولنگ کے دن موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی نے صرف الیکشن مینجمنٹ سسٹم (EMS) سے سمجھوتہ کیا۔ پولنگ مکمل ہونے کے بعد طے شدہ وقت سے زیادہ عارضی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کو جنم دیا۔انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ 25 دنوں تک ایک بڑا تنازع بنی رہی جب کہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں۔ پری پول مرحلے کے لئے تشخیص کا سکور 50 فیصد تھا جو 2013 کے 62 فیصد کے سکور سے نمایاں طور پر کم ہے۔ الیکشن کے دن پولنگ کے عمل کا سکور 58 فیصد رہا۔ یہ 2018 کے سکور سے کم تھا جو 64 فیصد تھا جبکہ پولنگ ڈے کا مرحلہ، ووٹنگ، پولنگ عملے کی کارکردگی اور پولنگ سٹیشنز کا معیار 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے۔ مجموعی طور پر عام انتخابات 2024 کے معیار نے 49 فیصد سکور کیا ہے، معیار کا سکور نہ صرف 50 فیصد سے کم ہے بلکہ پچھلے 2 انتخابات کے مجموعی سکور سے بھی کم ہے۔
جناب سراج الحق ، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ ن لیگ، پی پی اور ایم کیو ایم کی عبرت ناک جیت نے انہیں مزید آشکار کردیا۔ تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جس میں جیتنے والے ہارنے والوں سے زیادہ پریشان ہیں۔ عوامی فیصلوں کا احترام کیے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پی ڈی ایم ٹو کمپنی نہیں چلے گی۔ عوام نے انہیں مسترد کردیا۔ ہیر پھیر سے نظام نہیں چلتا۔ معاشی و سیاسی بحران منہ کھولے کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو شفاف الیکشن کا نظام وضح کرنا ہوگا۔ متناسب نمائندگی کا اصول قائم کیے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ موجودہ حالات میں ادارے حلف کی پاسداری اور عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوگئے۔ الیکشن دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے ذریعے شفاف آڈٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مجوزہ کمیشن میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو، الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ دھاندلی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ آئی ایم ایف سے مزید بیل آؤٹ لینے کی تیاری ہورہی ہے۔ عوام پر مزید ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔ ماہ رمضان سے پہلے مہنگائی کا طوفان شدت اختیار کرے گا۔ حکمران بضد ہیں کہ غریب کو سانس بھی نہیں لینے دینا۔ رمضان سے قبل لوگوں کو ریلیف نہ دیا گیا اور آئی ایم ایف کے احکامات کی تابعداری کی گئی تو چوکوں چوراہوں میں بھرپور احتجاج ہوگا۔ نگران حکومت چلی گئی مگر اس کے عوام مخالف کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نگرانوں کی واحد ذمہ داری شفاف الیکشن کا انعقاد تھاجس میں یہ بری طرح ناکام رہے۔ ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا۔ آئینی و قانونی مینڈیٹ سے ہٹ کر پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ لوگ بددل اور پریشان ہیں، عدالتوں میں انصاف نہیں کرپشن جاری ہے اور قانون کا مذاق بن چکا ہے، لوگ اب مجالس میں اداروں سے متعلق باتیں کررہے ہیں۔ووٹوں کی گنتی، نتائج مرتب کرنا، ٹرانسمیشن، استحکام، عارضی نتائج کا اعلان اور انتخابات کے بعد کے عمل کو کم از کم 40 فیصد سکور ملا، الیکشن کمیشن 2024کے عام انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے، الیکشن کمیشن عبوری نتائج کی ترسیل، استحکام اور اعلان میں تاخیر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرے۔
پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے سیاسی مخالفین یا اداروں پر انتخابی فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔کبھی فوج پر مداخلت کا الزام لگتا ہے تو کبھی کسی مخصوص جماعت پر ووٹوں کی چوری کا۔ کبھی ’35 پنکچرز’ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ چوری کرنے کی بات کی گئی تو کبھی امیدواروں کے اغوا اور تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔ غرض ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ جاتا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور کامیاب ہونے والے امیدوارں کا جوڑ توڑ اس کے علاوہ ہے۔جب 1990 کے عام انتخابات ہوئے تو فوجی جرنیلوں پر الزام لگا کہ انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی مالی مدد کی تھی۔1993 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ پی پی پی کے حق میں مبینہ الیکشن دھاندلی ہوئی، 1997 میں یہی الزام پاکستان مسلم لیگ پر لگا۔ 2002 کے عام انتخابات فوجی جنرل پرویز مشرف کے زیرِ سایہ ہوئے اور اس وقت جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعتوں پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر