... loading ...
زرّیں اختر
چینی کہاوت ہے کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ یہ کہاوت ہم نے ‘تصویری صحافت’ کے باب میں پڑھی تھی ۔آج کے اخبار کے صفحۂ اوّل پہ جو تصویر شائع ہوئی ہے وہ وزیرِ اعظم کی تقریب ِحلف برداری میں سربراہ افواج پاکستان عاصم منیر کی بلاول زرداری سے مصافحہ کرتے ہوئے ہے جس میں آصف علی زرداری بھی نظر آرہے ہیں۔ بلاول زرداری کی مسکراہٹ جوتھوڑی ہنسی کے قریب اورقہقہے سے ذرا دورہے ،اس میں خوش مزاجی اور بشاشیت ہے ،ایک والہانہ پن ،خوش آمدید جیسا انداز،جو بول رہا ہے کہ بہت خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کراورآپ سے مل کر ،زرداری صاحب کے چہرے پر وہی مسکراہٹ ہے جسے ان کی شخصیت کا لازمی حصہ کہا جاسکتاہے ،یعنی اگر کوئی آپ کے سامنے آصف علی زرداری کا نام لے تو آپ کے ذہن میں ان کا جو تصورذہن میں آئے گا وہ ان کے چہرے سے جزو لا ینفک کی طرح منسلک مسکراہٹ کے ساتھ ہوگا۔ تو یہ وہی مسکراہٹ ہے ،تصویر ایک لمحے پر مبنی ہوتی ہے ورنہ اگلا لمحے زرداری صاحب کی بھنویں ضرور اچکی ہوں گی ،اس تصویر کی گہری شخصیت آرمی چیف کی ہے، خفیف تبسم لیے دانت نظر آنا تو دور کی بات ، ہمارے سیاست دان بچھنے سے باز نہیں آئیں گے،اس تصویر میں بھی سیاست دان ہلکے اور آرمی چیف بھاری ہیں۔تصویری خبر کے مطابق آرمی چیف نے ایک ہاتھ سے بلاول کا ہاتھ اور دوسرے میں کمانڈ اسٹک پکڑی ہوئی تھی۔
٭٭٭
پنڈورا صندوق
نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے فرمایا کہ ”اگر ذاتیات پر بات ہوگی تو پھر دور تک جائے گی”۔یہ ایسے خیالات کا اظہار ہے جنہیں سیاسی بیانیہ کہتے ہوئے بھی سوچنا پڑتاہے کہ اسے سیاسی بیانیہ قراردیا جائے یا نہیں۔ جیسے ہر کسی نے دوسرے کی دم پر پائوں رکھا ہوا ہے ،کوئی نہ کوئی گوٹ پھنسائی ہوئی ہے۔ پنجاب کی نو منتخب وزیر ِ اعلیٰ مریم نواز بھی اس نوعیت کا بیان دے چکی ہیں کہ ان کے پاس سب کی وڈیوز ہیں ۔ بلکہ وہ کچھ وڈیو کووائرل بھی کرچکی ہیں۔سیا ست دان کوپرکھنے کا معیار یا کسوٹی کیاہے؟ اس کا بہترین جواب وہ ہے جو ڈاکٹر جعفر احمد نے اسکندر مرزا کے ذاتی خطوط و ڈائریوں پر مبنی ان کے کسی قریبی رشتے دار کی شائع کردہ کتاب کی آرٹس کونسل میں رونمائی کے موقع پر کہاتھاکہ انہوںنے امریکہ میںتعینات پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی سے پوچھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے کیسے متاثر ہو گئے تو حسین حقانی نے جواب دیا کہ اگر آپ ان سے ملتے تو آپ بھی ان کے گرویدہ ہوجاتے،حسین حقانی نے بتایا کہ ضیاء الحق سے ایک ملاقات کے موقع پر حسین حقانی کے قلم کا ڈھکناگر گیا ،اس وقت فوج کے دیگر نمائندہ افراد بھی موجود تھے لیکن اس سے قبل کہ حقانی صاحب یا کوئی اور ان کے قلم کا ڈھکن اٹھا تاجنرل ضیاء نے خود جھک کروہ ڈھکن اٹھا کر حسین حقانی صاحب کو دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کسی جرنیل یا سیاست دان کے بارے میں رائے اس کی شخصی خصوصیات کی بناء پر نہیں بلکہ ان کے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے اقدامات سے بنے گی۔عہدے تک پہنچنے کا سفر اور بہ حیثیت عہدے دار کیے جانے والے فیصلے بس یہی کسوٹیاں ہیں ۔ وہ اسکندر مرزا ہوں یا ضیاء الحق،بیٹے شوہر باپ کیسے تھے اس سے قوم کا کوئی تعلق نہیں۔ مریم نواز کسی خاتون پولیس کا دوپٹہ ٹھیک کریں یا کسی اسکول میں طالبہ کے ساتھ برابر میںبینچ پر بیٹھ جائیں،یہ بہ حیثیت وزیرِ اعلیٰ معیار طے نہیں کریں گے۔ کسی سیاست دان کے ماضی سے بھی کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتارہا اس کی پرکھ کا پیمانہ نہیں۔ کسوٹی ،پیمانہ ، معیار بس یہی کہ عہدے تک کیسے پہنچے اورعہدہ حاصل کرنے کے بعد عوام کی فلاح کے لیے کیااقدامات کیے ۔ ذاتیات کا پنڈورا بکس بند ہی رکھیں،عوام کو نہ اس سے لینا دینا نہ اس سے کوئی تعلق ۔
٭٭٭
جمہوری ریاست کا چوتھا ستون صحافت کو تسلیم کیاگیا ہے ۔آج ہم اس کی جدید ترین صورتیں دیکھ رہے ہیں اور جدیدیت سے اپنی سوچ کے مطابق فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور نقصان بھی پہنچارہے ہیں۔ ہمارے عوام پسند صحافت کے علم بردار اردو اخبار اپنی آزادانہ پیشہ ور صحافت کا رستہ چننے کے بجائے مقتدرہ کامنہ دیکھ کرچلے ہیں ۔ خبر کو معروضی ہونا چاہیے ،اداریہ لکھیں اپنی پالیسی کے مطابق،لیکن ان کی پالیسی ان کی صفحہ اول کی سیاسی خبروں سے بھی جھلکتی ہے ۔ایک اخبار صفحہ اول پہ ایک کالمی خبر لگاتا ہے کہ ”علی امین گنڈا پور وزیر ِ اعظم کی تقریب ِ حلف برداری میں شریک نہ ہوئے”۔یہ خبر معروضی انداز میں دی گئی ہے ۔ دوسرے اخبار میں یہی خبر صفحہ اول پر چار کالمی سرخی کے ساتھ اس طرح دی گئی ہے ”آخر کار منتخب وزیر ِ اعلیٰ KPعلی امین گنڈا پور نے پہلا پتھر پھینک دیا”اور ضمنی سرخی یہ لگائی کہ ”علی امین نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرکے محاذ آرائی کاباقاعدہ آغاز کردیا”۔ایسے اخبار کی پالیسی سے واقفیت کے لیے اس کی قطعی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اس اخبار کا اداریہ پڑھا جائے ۔یوں معلوم ہوتاہے کہ اخبار پارٹی نہیں بنتا بلکہ جیسے وہ اسٹیک ہولڈرکا مقام رکھتاہے۔
٭٭٭
”اپنی مدد آپ ” کے بعد ”اپنی حفاظت خود ”کا تصور کراچی گلشن اقبال میں واقع ہوٹل کے مالک نے متعارف کرا دیا ۔ جب ڈاکو ہوٹل لوٹ مار کے لیے آئے تو ہوٹل کے مالک دولت آغا نے ڈاکوئوںپر پستول تان لی ،جس پر وہ ڈاکو گڑ گڑانے لگے کہ گولی مت چلانااور بھاگ گئے ۔ ہوٹل کا مالک بہادری کی مثال بن گیااور دوسرے دکان داروں کو صلاح دے رہا ہے کہ وہ بھی ایسی کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے لائسنس یافتہ ہتھیار رکھنا شروع کردیں۔ پولیس بھی اطلاع ملنے پہ آئی اور پوچھ گچھ کرکے چلی گئی کوئی کارروائی نہیں کی۔ لیکن میرے لیے شہری کے اس اقدام پہ کچھ کہنا مشکل ہے کیوں کہ جب باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا تھا تو جامعہ کے اساتذہ کو بھی اپنی حفاظت کے لیے لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن کچھ مرد اساتذہ کے نزدیک یہ تصور ہی محال تھا۔
٭٭٭