... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
چور چور کے شدید شور میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ شہباز شریف کو 201 اور پی ٹی آئی کے امیدوار عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔ اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت جیسے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تواس کے ساتھ ہی چور چور اور جعلی مینڈیٹ نہ منظور کے نعروں سے ایوان گونج اٹھا۔ جے یو آئی ف نے قائد ایوان کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور ووٹنگ کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ اختر مینگل موجود تو رہے لیکن کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ ق نے شہباز شریف کی حمایت کی وہ 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر بھی منتخب رہے شہباز شریف پہلی بار 1988 میں پنجاب اسمبلی کے ایم پی اے منتخب ہوئے پھر اسکے بعد1990 میں این اے 96 لاہور 5 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1993 میںپی پی 125 لاہور 10 کے حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی ۔انہیں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد کیا گیا۔ 1997 میں پی پی 125 لاہور سے تیسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوکرپنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔1999 میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کرکے سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ 2007میں 8برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آئے اور 2008میں چوتھی مرتبہ بھکر سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اوردوسری بار صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ 2013میں لاہور سے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے رکن بنے اور تیسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔2018میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوئے اور 2018 میں قومی اسمبلی کے 4حلقوں(این اے۔249کراچی، این اے۔132لاہور، این اے-3 سوات اور این اے-192 ڈیرہ غازی خان) سے الیکشن میں حصہ لیا رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں وزیراعظم کا انتخاب لڑا جس میں عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے اور شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے ۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد ہوئے اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں 2022میں شہباز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے وزیراعظم کے طور پر ان کا پہلا دور صرف 16ماہ تک محدود رہا۔ عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے وزارتِ عظمی کی کرسی سے ہٹا کر جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ تین مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہنے والے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں خود کو وزیر اعلیٰ کہلوانے کے بجائے خادم اعلیٰ کہنا پسند کرتے تھے ۔اس دن کی مناسبت سے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے عمر اصغر کا خطاب بھی بڑا اہم ہے جس پر بات کرنے سے پہلے کراچی میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بڑی اہم باتیں کی ہیں کہ ہم نے ملک بھر میں الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ پارلیمان اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔ یہ پارلیمان جسے ہم دیکھ رہے ہیں عوام کی نمائندہ نہیں، دھاندلی کی پیداوار پارلیمان ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے۔ یہ جسموں پر تو حکومت کر سکیں گے لیکن قوم کے دلوں پر حکومت نہیں کرسکیں گے۔ اسمبلی کو جاگیر بنا لیا گیا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی خریدی گئی جبکہ جن کو خدشہ تھا کہ فضل الرحمان صدارتی امیدوار بنیں گے۔ انہوں نے بھی اپنی تجوریاں کھولی ہیں ۔میری خواہش ہے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دوں لیکن پارٹی کا فیصلہ واجب ہے ۔قومی اسمبلی میں سب سے اہم خطاب نومنتخب وزیراعظم کا تھا جنہوں نے کمزور معیشت اور بھاری قرضوں کے بوجھ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو مختلف مد میں 12ہزار300ارب روپے حاصل ہونے ہیں جن میں سے صوبوں کواین ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم کے بعد صرف 7 ہزار300 ارب روپے باقی بچتے ہیں جبکہ حکومت نے صرف سود کی ادائیگی 8ہزار ارب کرنی ہے ان حالات میں ترقیاتی منصوبوں ، تعلیم اور صحت کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اورافواج پاکستان کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے جس ایوان میں بیٹھے ہیں اس کے اخراجات بھی قرض سے ادا ہوتے ہیں سپیکر سمیت پورے ایوان کی تنخواہ قرضوں سے ادا کی جارہی ہے اسکے علاوہ وزیر اعظم نے عوام کو ریلیف دینے کی باتیں بھی کی لیکن سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنے زیادہ مسائل میں وسائل کہاں سے آئیں گے ابھی تو وزرا کی فوج بھی آنی ہے جنہوں نے مراعات کی مد میں ہر ماہ کروڑوں روپے بھی لینے ہیں اب کچھ باتیں پی ٹی آئی کے عمر ایوب کی بھی پڑھ لیں جنکا کہنا تھا کہ یہ پی ڈی ایم کی حکومت کا تسلسل ہے اور ایک فاشسٹ حکومت ہے اس حکومت کا کوئی نظریہ نہیں بلکہ صرف ایک چیز ہے لوٹ مار کرنا یہ حکومت فارم 47 کی مرہون منت ہے جو چوری شدہ مینڈیٹ پر بن رہی ہے اور چوں چوں کے مربے کا مجموعہ ہے اگر فارم 45 کے تحت نتائج آتے تو یہاں ہمارے 180 ارکان ہوتے۔ پاکستان کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ن اور دیگر پارٹیوں کے جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں سے لگتا ہے وہ ہارے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں سے لگتا ہے کہ ان کا مینڈیٹ چوری کا ہے اور جب کوئی چور چوری کرکے بھاگ رہا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر خوف ہوتا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نو مئی کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے اور ویڈیو فوٹیجز سامنے لاکر حقائق سامنے رکھنے چاہئیں۔ آخر میں کچھ باتیں صدارتی الیکشن کی جس میں زرداری صاحب دوسری بار صدر بننے کے حوالہ سے بڑے پر امید ہیں لیکن یہاں ایک بات بتادوں کہ میاں نواز شریف کے بہت قریبی تعلقات محمود خان اچکزئی سے ہیں جبکہ اچکزئی صاحب کی وجہ سے ہی مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی تک پہنچ پائے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب اور مولانا صاحب اپنے تعلق کو کیسے نبھاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔