وجود

... loading ...

وجود

چور چور کے شور میں وزیر اعظم کا انتخاب

منگل 05 مارچ 2024 چور چور کے شور میں وزیر اعظم کا انتخاب

میری بات/روہیل اکبر
چور چور کے شدید شور میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ شہباز شریف کو 201 اور پی ٹی آئی کے امیدوار عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔ اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت جیسے ہی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تواس کے ساتھ ہی چور چور اور جعلی مینڈیٹ نہ منظور کے نعروں سے ایوان گونج اٹھا۔ جے یو آئی ف نے قائد ایوان کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور ووٹنگ کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ اختر مینگل موجود تو رہے لیکن کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ ق نے شہباز شریف کی حمایت کی وہ 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر بھی منتخب رہے شہباز شریف پہلی بار 1988 میں پنجاب اسمبلی کے ایم پی اے منتخب ہوئے پھر اسکے بعد1990 میں این اے 96 لاہور 5 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1993 میںپی پی 125 لاہور 10 کے حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی ۔انہیں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد کیا گیا۔ 1997 میں پی پی 125 لاہور سے تیسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوکرپنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔1999 میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کرکے سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ 2007میں 8برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آئے اور 2008میں چوتھی مرتبہ بھکر سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اوردوسری بار صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ 2013میں لاہور سے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے رکن بنے اور تیسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔2018میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوئے اور 2018 میں قومی اسمبلی کے 4حلقوں(این اے۔249کراچی، این اے۔132لاہور، این اے-3 سوات اور این اے-192 ڈیرہ غازی خان) سے الیکشن میں حصہ لیا رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں وزیراعظم کا انتخاب لڑا جس میں عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے اور شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے ۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد ہوئے اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں 2022میں شہباز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے وزیراعظم کے طور پر ان کا پہلا دور صرف 16ماہ تک محدود رہا۔ عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے وزارتِ عظمی کی کرسی سے ہٹا کر جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ تین مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہنے والے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں خود کو وزیر اعلیٰ کہلوانے کے بجائے خادم اعلیٰ کہنا پسند کرتے تھے ۔اس دن کی مناسبت سے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے عمر اصغر کا خطاب بھی بڑا اہم ہے جس پر بات کرنے سے پہلے کراچی میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بڑی اہم باتیں کی ہیں کہ ہم نے ملک بھر میں الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ پارلیمان اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔ یہ پارلیمان جسے ہم دیکھ رہے ہیں عوام کی نمائندہ نہیں، دھاندلی کی پیداوار پارلیمان ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے۔ یہ جسموں پر تو حکومت کر سکیں گے لیکن قوم کے دلوں پر حکومت نہیں کرسکیں گے۔ اسمبلی کو جاگیر بنا لیا گیا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی خریدی گئی جبکہ جن کو خدشہ تھا کہ فضل الرحمان صدارتی امیدوار بنیں گے۔ انہوں نے بھی اپنی تجوریاں کھولی ہیں ۔میری خواہش ہے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دوں لیکن پارٹی کا فیصلہ واجب ہے ۔قومی اسمبلی میں سب سے اہم خطاب نومنتخب وزیراعظم کا تھا جنہوں نے کمزور معیشت اور بھاری قرضوں کے بوجھ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو مختلف مد میں 12ہزار300ارب روپے حاصل ہونے ہیں جن میں سے صوبوں کواین ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم کے بعد صرف 7 ہزار300 ارب روپے باقی بچتے ہیں جبکہ حکومت نے صرف سود کی ادائیگی 8ہزار ارب کرنی ہے ان حالات میں ترقیاتی منصوبوں ، تعلیم اور صحت کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اورافواج پاکستان کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے جس ایوان میں بیٹھے ہیں اس کے اخراجات بھی قرض سے ادا ہوتے ہیں سپیکر سمیت پورے ایوان کی تنخواہ قرضوں سے ادا کی جارہی ہے اسکے علاوہ وزیر اعظم نے عوام کو ریلیف دینے کی باتیں بھی کی لیکن سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنے زیادہ مسائل میں وسائل کہاں سے آئیں گے ابھی تو وزرا کی فوج بھی آنی ہے جنہوں نے مراعات کی مد میں ہر ماہ کروڑوں روپے بھی لینے ہیں اب کچھ باتیں پی ٹی آئی کے عمر ایوب کی بھی پڑھ لیں جنکا کہنا تھا کہ یہ پی ڈی ایم کی حکومت کا تسلسل ہے اور ایک فاشسٹ حکومت ہے اس حکومت کا کوئی نظریہ نہیں بلکہ صرف ایک چیز ہے لوٹ مار کرنا یہ حکومت فارم 47 کی مرہون منت ہے جو چوری شدہ مینڈیٹ پر بن رہی ہے اور چوں چوں کے مربے کا مجموعہ ہے اگر فارم 45 کے تحت نتائج آتے تو یہاں ہمارے 180 ارکان ہوتے۔ پاکستان کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ن اور دیگر پارٹیوں کے جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں سے لگتا ہے وہ ہارے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں سے لگتا ہے کہ ان کا مینڈیٹ چوری کا ہے اور جب کوئی چور چوری کرکے بھاگ رہا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر خوف ہوتا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نو مئی کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے اور ویڈیو فوٹیجز سامنے لاکر حقائق سامنے رکھنے چاہئیں۔ آخر میں کچھ باتیں صدارتی الیکشن کی جس میں زرداری صاحب دوسری بار صدر بننے کے حوالہ سے بڑے پر امید ہیں لیکن یہاں ایک بات بتادوں کہ میاں نواز شریف کے بہت قریبی تعلقات محمود خان اچکزئی سے ہیں جبکہ اچکزئی صاحب کی وجہ سے ہی مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی تک پہنچ پائے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب اور مولانا صاحب اپنے تعلق کو کیسے نبھاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر