... loading ...
ریاض احمدچودھری
واشنگٹن نے پہلی بار غزہ پر اسرائیلی جنگ سے ہونے والی شہادتوں کو تسلیم کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نے 7اکتوبر سے اب تک غزہ میں 25000 سے زیادہ خواتین اور بچوں کو شہید کردیا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً 21000 انتہائی درست گائیڈ کیے جانے والے گولے اسرائیل کو بھیجے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ریاض المنصور نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں میں موت بانٹنے والے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ وحشیانہ قتل عام اس بات کی گواہی ہے کہ سلامتی کونسل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور جب تک ویٹو کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے یہ ظلم جاری رہے گا۔ سلامتی کونسل کو چاہیے کہ اپنے پلیٹ فارم سے کوئی ایسی چیز سامنے لائے جس میں شہادتوں کے تازہ واقعہ کی مذمت کی جائے اور ان کی مذمت کی جائے جو اس قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے غربِ اردن میں مزید 650 ایکڑ زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ زمین مقبوضہ بیت المقدس کے مشرق میں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے صہیونی ریاست کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام زیادہ سے زیادہ مشکل بنایا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطینی علاقوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے بالکل الگ تھلگ رکھنا بھی مقصود ہے۔ اسرائیلی سکیورٹی وزیر بن گوہر نے کہا مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت کا حتمی فیصلہ سکیورٹی کو دیکھ کر ہوگا۔امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کرنے پر حماس کے رہنما عزت الرشق نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف اپنایا۔ امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مددکی۔ دنیا بھر کے عوام کو یہ بات بہت پہلے سے سمجھ آگئی تھی اسی لیے امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا مختلف ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جن میں صرف غاصب صہیونی ریاست کی ہی مذمت نہیں کی جارہی بلکہ اسے اسلحہ اور گولا بارود کے علاوہ ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کرنے والے ممالک کے خلاف بھی نعرے بازی کی جارہی ہے۔ ساری دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اسے دہشت گردی کرنے کے لیے امریکا اور اس کے حواریوں کی سہولت کاری حاصل ہے۔
سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے جو تازہ قرارداد پیش ہوئی تھی اس کے حق میں 15 میں سے 13 ارکان نے ووٹ دیے۔ حسبِ توقع برطانیہ ووٹنگ کے عمل سے باہر رہا جبکہ امریکا کی جانب سے ہمیشہ کی طرح دہشت گرد اور غاصب صہیونیوں کی مدد کرنے کے لیے اس قرارداد کو ویٹو کردیا گیا۔ ایران نے امریکا کی طرف سے غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو کرنے پر ردعمل میں کہا ہے کہ جنگ کی امریکی حمایت جاری رہی تو خطے میں بے قابو صورتحال کا امکان ہے۔ امریکہ خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی قرارداد صرف امریکا نے ویٹو کی، کیا یہ انصاف ہے؟ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ترک صدر کا یہ مطالبہ یا تجویز بالکل جائز ہے لیکن اس پر عمل کون کرے گا؟ امریکا اور اس کے حواری کبھی بھی ایسی اصلاحات نہیں ہونے دیں گے۔اسی حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی قرارداد پر امریکی ویٹو اشتعال انگیزی ہے۔ غزہ میں معصوم بچوں، خواتین اور معمر افراد کے خون بہانے کا ذمہ دار امریکا ہے۔ امریکی اقدام تمام انسانی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیز اور غیر اخلاقی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ حماس کی بربریت کبھی بھی فلسطینی عوام کی اجتماعی سزا کا جواز نہیں بن سکتی۔ ایک بیان میں انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ غزہ میں انسانی بحران کا سنگین خطرہ لاحق ہے، فوری جنگ بندی کی جائے۔ غزہ میں خوراک، ایندھن، پانی اور ادویات کی کمی، بیماریوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔
ادھر، پاکستان نے سلامتی کونسل کی جانب سے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کی اپیل نہ کرنے پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے انسانی المیہ سے بچنے کے لیے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کی درخواست اور غزہ میں انسانی تباہی سے متعلق وارننگ کے باوجود سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ غزہ کے محصور عوام جس اجتماعی سزا کو برداشت کر رہے ہیں وہ ناقابل قبول ہے اور اس کی مثال نہیں ملتی۔ بیان میں اسرائیل سے غزہ کے خلاف ہر وحشیانہ حملے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔