وجود

... loading ...

وجود

مصطفی کمال کا دھماکا ،پی پی اور پی ٹی آئی

پیر 04 مارچ 2024 مصطفی کمال کا دھماکا ،پی پی اور پی ٹی آئی

رفیق پٹیل

8فروری اور 9فروری 2024کی درمیانی شب کے بعد ہونے والی انتخابی دھاندلی کے بعد جس غصّے اور غیض و غضب کا طوفان پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں میں اندر ہی اندر جنم لے رہا ہے وہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور جو طاقت بھی اسے روکنے کی کوشش کرے گی اس کے لیے یہ طریقہ کار مزید تباہی کا باعث ہوگاجس کے نتیجے میں مزید رسوائی، ناکامی اور ناقابل تلافی نقصان کا سامناکرنا پڑے گا۔ موجودہ دھاندلی سے مسلط کردہ گروہ سیاسی لاشوں پر مشتمل ہے۔ ان کی بچی کھچی حمایت کا بھی تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے ۔یہ کسی صورت میں بھی مد مقابل سیاست میں زندہ جاوید سرگرم متحرک اورقربانی کے جذبے سے سرشار سیاسی کارکنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو انتہا درجے کی سختیوں کا سامنا کرنے کے بعد میدان میں آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی سے لوگوں کو جبری طور پر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو بڑے عہدوں کالالچ دے کر دیگر جماعتوں میں شامل کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلا کو جبرکا مقابلہ کرنے والے دیگر لوگوں نے پر کیااور نئے لوگ بھی سامنے آگئے جو زیادہ مضبوط اور جوشیلے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ وکلاء کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالات سے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ ایسے کارکن ہیں جو اب سر پر کفن باندھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں روزانہ دس ہزار ووٹروں اور کارکنوں کی بھرتی میں روز انہ ایک ہزار کی تعداد سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر آنے والے تین ماہ اور دس دن میں وہ اپنے ایک لاکھ کارکنوں اور دس لاکھ ووٹروں کا اضافہ کر رہی ہے۔ پہلے جلسے جلوس میں شامل ہوکر لوگ سکون سے بیٹھ جاتے تھے لیکن پابندیوں کی وجہ سے لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ انٹرنیٹ سے اس بات کی معلومات حاصل کی کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی معاشرے پر مشتمل مملک کون سے ہیں ؟اس کی وجہ سے مغرب میں ترقی کیوں ہے؟ انسانی حقوق کے احترام کے کیا فائدے ہیں؟ عام شہریوں کو مغربی ممالک کاقانونی نظام کیسے تحفظ دیتا ہے؟ ان مملک میں شہریوں کواس قدر عزت احترام اور حقوق کیوں حاصل ہیں؟ ان کا دفاعی نظام عوامی حمایت کی وجہ سے اس قدر مضبوط کیوں ہے؟ اس سلسلے میںپی ٹی آئی کے آن لائن جلسے بھی کردار اداکر رہے ہیں؟گزشتہ دو سالوں کا جائزہ لینے سے یہ بات ایک کھلی حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ سیاسی حقائق کا غلط تجزیہ کرنے کی وجہ سے ایک غلطی9اپریل2022کو ہوئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ختم کردیا گیا اور اس موقع پر انتخابات کے انعقاد سے اجتناب کیا گیا۔ اس موقع پر چند روز بعد ہی سابق صدر پاکستان آصف زرداری کا یہ بیان سامنے آگیا تھا کہ اندازے اور حساب غلط ہوگیا ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ مس کیلکولیشن (miscalculation)ہوگئی ہے۔ دوسری غلطی غیرقانونی طریقوں سے پی ٹی آئی کے اجتماعات کو روکنے کی وجہ سے ہوئی۔ اس کے کارکن سختیوں اور جبر کا سامنا کرتے ہوئے فولادی کارکن بن گئے اورپی ٹی آئی مزید مضبوط ہوگئی ۔ اس مرتبہ اس سے بڑی غلطی ہوگئی ہے وہ 8فروری کے انتخابی نتائج روک کر 9فروری کو انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے اور بڑی تعداد میں پاکستان تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستیں چھین کر دیگر جماعتوں کو دینے کی ہے جس کے حقائق مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ہر وقت چونکا دینے والی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کے بارے میں اب ایک نیا دھماکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال نے کردیا ہے۔ پہلے ان کی ایک خفیہ آڈیو سامنے آئی۔ اس کے بعد اس کی ایک وڈیو بھی سامنے آگئی جس میں اس کی تصدیق ہوگئی ۔اس آڈیو اور وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ تصور کیا جارہا تھا کہ مصطفی کمال اس کی تردید کردیں گے۔ اس وڈیو میں مصطفی کمال ایم کیوایم پاکستان کے دیگر رہنمائوںکو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے مذاکرات کا احوال بیان کر رہے تھے کہ انہیں مذاکرات کے لیے بلایا گیا تاکہ حکومت میں ایم کیوایم کی شمولیت کے معاملات طے کیے جاسکیں لیکن وہاں پہنچنے کے بعد مسلم لیگ ن کی گرم جوشی سرد پر گئی۔ مشکل سے ایک ملاقات کا اہتمام ہوا اور ایم کیوایم کے وفد کو بتا یا گیا کہ پیپلز پارٹی سے اس کا معاہدہ تکمیل کے مراحل میں ہے اور یہ ایک تحریری معاہدہ ہے ۔جب ایم کیوایم کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پی پی سے کیا معاملات طے ہورہے ہیںتو انہیں جواب دیا گیا کہ یہ سب خفیہ ہے۔ البتّہ اتنا بتا سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ہمارے اراکین اور مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد حکومت بنانے کے لیے مکمل ہے۔ اس لیے ایم کیوایم کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ایم کیوایم کا مینڈیٹ سو فیصد جعلی ہے۔ پی پی اور ن لیگ کا پچاس سے ساٹھ فیصد جعلی ہوگا لیکن ایم کیوایم کاسو فیصد جعلی ہے جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو سیاسی حلقوں میں شور مچ گیا کہ یہ جماعتیں خود ہی دھاندلی کا اعتراف کر رہی ہیں۔ مصطفی کمال نے اس بات کی تصدیق کردی کہ یہ ویڈیواصلی ہے اور ایم کیو ایم لندن کے جاسوس ان کی صفوں میں موجود ہیں جنہوں نے یہ ویڈیولندن بھجوا کر جاری کردی ہے ۔اس کی مزید تصدیق گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ایک اور آڈیو میں ہوگئی جس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ایم کیوایم کا مینڈیٹ سو فیصد جعلی ہے تو ان لوگوں کا دو سو فیصد جعلی ہے جو ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔
جعلی مینڈیٹ کا شور اس قدر ہے کہ قومی اسمبلی میں ایسی تقریریں ہورہی ہے جس سے پورا نظام ہل کر رہ گیا ہے۔ پورے ملک کے عوام کی توجہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور دیگراراکین اسمبلی کی ان تقریروںکی جانب ہے جس میں دھاندلی کا ذکر کیا جاتاہے۔ پی ٹی آئی کے چند اراکین پوری اسمبلی پر بھاری نظر آتے ہیں۔دیگر اراکین کی تقاریر کو عوامی سطح پر اس لیے پزیرائی نہیں مل رہی کہ دھاندلی بری طرح بے نقاب ہوگئی ۔پی ٹی آئی والے اسے مینڈیٹ کا ڈاکہ کہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر سے ڈاکولوٹ کر فرار ہورہے ہوں اور محلّے والے باہر نکل کرمال لوٹ کر لے جا نے والوں کو پکڑ لیں لیکن جب پولیس آجائے تو مال لوٹ کر لے جانے والوں کو یہ کہہ کر آزاد کردے کہ یہ سامان اس گھر والے کا نہیں بلکہ لوٹ کر لے جانے ڈاکوؤں کا ہے۔ ایک طرف مینڈیٹ کا مسئلہ ہے دوسری جانب عوام کے دیگر مسائل ہیں۔ ملک کے عوام پہلے ہی بجلی اور گیس کے بھاری بلوں اور مہنگائی سے شدید پریشان ہیں۔ موجودہ دھاندلی نے ان کے غصّے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے پاس لوگوں کو فوری سہولت فراہم کرنے اور مہنگائی کم کرنے کا واضح منصوبہ بھی نہیں ہے۔ یہ سلسلہ بڑھتا رہا تودھاندلی سے آنے والے اراکین لوگوں کے اس غصّے کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے لیے آنے والے دن بہت سخت ہونگے ۔یہ جماعتیں ایک ہی صورت میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی، جب وہ عوام کے حقیقی مینڈیٹ کو تسلیم کریںگی شاید آنے والے طوفان سے انہوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر