... loading ...
رفیق پٹیل
8فروری اور 9فروری 2024کی درمیانی شب کے بعد ہونے والی انتخابی دھاندلی کے بعد جس غصّے اور غیض و غضب کا طوفان پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں میں اندر ہی اندر جنم لے رہا ہے وہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور جو طاقت بھی اسے روکنے کی کوشش کرے گی اس کے لیے یہ طریقہ کار مزید تباہی کا باعث ہوگاجس کے نتیجے میں مزید رسوائی، ناکامی اور ناقابل تلافی نقصان کا سامناکرنا پڑے گا۔ موجودہ دھاندلی سے مسلط کردہ گروہ سیاسی لاشوں پر مشتمل ہے۔ ان کی بچی کھچی حمایت کا بھی تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے ۔یہ کسی صورت میں بھی مد مقابل سیاست میں زندہ جاوید سرگرم متحرک اورقربانی کے جذبے سے سرشار سیاسی کارکنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو انتہا درجے کی سختیوں کا سامنا کرنے کے بعد میدان میں آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی سے لوگوں کو جبری طور پر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو بڑے عہدوں کالالچ دے کر دیگر جماعتوں میں شامل کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس خلا کو جبرکا مقابلہ کرنے والے دیگر لوگوں نے پر کیااور نئے لوگ بھی سامنے آگئے جو زیادہ مضبوط اور جوشیلے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ وکلاء کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالات سے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ ایسے کارکن ہیں جو اب سر پر کفن باندھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں روزانہ دس ہزار ووٹروں اور کارکنوں کی بھرتی میں روز انہ ایک ہزار کی تعداد سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر آنے والے تین ماہ اور دس دن میں وہ اپنے ایک لاکھ کارکنوں اور دس لاکھ ووٹروں کا اضافہ کر رہی ہے۔ پہلے جلسے جلوس میں شامل ہوکر لوگ سکون سے بیٹھ جاتے تھے لیکن پابندیوں کی وجہ سے لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ انٹرنیٹ سے اس بات کی معلومات حاصل کی کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی معاشرے پر مشتمل مملک کون سے ہیں ؟اس کی وجہ سے مغرب میں ترقی کیوں ہے؟ انسانی حقوق کے احترام کے کیا فائدے ہیں؟ عام شہریوں کو مغربی ممالک کاقانونی نظام کیسے تحفظ دیتا ہے؟ ان مملک میں شہریوں کواس قدر عزت احترام اور حقوق کیوں حاصل ہیں؟ ان کا دفاعی نظام عوامی حمایت کی وجہ سے اس قدر مضبوط کیوں ہے؟ اس سلسلے میںپی ٹی آئی کے آن لائن جلسے بھی کردار اداکر رہے ہیں؟گزشتہ دو سالوں کا جائزہ لینے سے یہ بات ایک کھلی حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے کہ سیاسی حقائق کا غلط تجزیہ کرنے کی وجہ سے ایک غلطی9اپریل2022کو ہوئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ختم کردیا گیا اور اس موقع پر انتخابات کے انعقاد سے اجتناب کیا گیا۔ اس موقع پر چند روز بعد ہی سابق صدر پاکستان آصف زرداری کا یہ بیان سامنے آگیا تھا کہ اندازے اور حساب غلط ہوگیا ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ مس کیلکولیشن (miscalculation)ہوگئی ہے۔ دوسری غلطی غیرقانونی طریقوں سے پی ٹی آئی کے اجتماعات کو روکنے کی وجہ سے ہوئی۔ اس کے کارکن سختیوں اور جبر کا سامنا کرتے ہوئے فولادی کارکن بن گئے اورپی ٹی آئی مزید مضبوط ہوگئی ۔ اس مرتبہ اس سے بڑی غلطی ہوگئی ہے وہ 8فروری کے انتخابی نتائج روک کر 9فروری کو انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے اور بڑی تعداد میں پاکستان تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستیں چھین کر دیگر جماعتوں کو دینے کی ہے جس کے حقائق مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ہر وقت چونکا دینے والی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کے بارے میں اب ایک نیا دھماکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال نے کردیا ہے۔ پہلے ان کی ایک خفیہ آڈیو سامنے آئی۔ اس کے بعد اس کی ایک وڈیو بھی سامنے آگئی جس میں اس کی تصدیق ہوگئی ۔اس آڈیو اور وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ تصور کیا جارہا تھا کہ مصطفی کمال اس کی تردید کردیں گے۔ اس وڈیو میں مصطفی کمال ایم کیوایم پاکستان کے دیگر رہنمائوںکو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے مذاکرات کا احوال بیان کر رہے تھے کہ انہیں مذاکرات کے لیے بلایا گیا تاکہ حکومت میں ایم کیوایم کی شمولیت کے معاملات طے کیے جاسکیں لیکن وہاں پہنچنے کے بعد مسلم لیگ ن کی گرم جوشی سرد پر گئی۔ مشکل سے ایک ملاقات کا اہتمام ہوا اور ایم کیوایم کے وفد کو بتا یا گیا کہ پیپلز پارٹی سے اس کا معاہدہ تکمیل کے مراحل میں ہے اور یہ ایک تحریری معاہدہ ہے ۔جب ایم کیوایم کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پی پی سے کیا معاملات طے ہورہے ہیںتو انہیں جواب دیا گیا کہ یہ سب خفیہ ہے۔ البتّہ اتنا بتا سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ہمارے اراکین اور مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد حکومت بنانے کے لیے مکمل ہے۔ اس لیے ایم کیوایم کی ضرورت نہیں ہے اور پھر ایم کیوایم کا مینڈیٹ سو فیصد جعلی ہے۔ پی پی اور ن لیگ کا پچاس سے ساٹھ فیصد جعلی ہوگا لیکن ایم کیوایم کاسو فیصد جعلی ہے جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو سیاسی حلقوں میں شور مچ گیا کہ یہ جماعتیں خود ہی دھاندلی کا اعتراف کر رہی ہیں۔ مصطفی کمال نے اس بات کی تصدیق کردی کہ یہ ویڈیواصلی ہے اور ایم کیو ایم لندن کے جاسوس ان کی صفوں میں موجود ہیں جنہوں نے یہ ویڈیولندن بھجوا کر جاری کردی ہے ۔اس کی مزید تصدیق گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ایک اور آڈیو میں ہوگئی جس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ایم کیوایم کا مینڈیٹ سو فیصد جعلی ہے تو ان لوگوں کا دو سو فیصد جعلی ہے جو ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔
جعلی مینڈیٹ کا شور اس قدر ہے کہ قومی اسمبلی میں ایسی تقریریں ہورہی ہے جس سے پورا نظام ہل کر رہ گیا ہے۔ پورے ملک کے عوام کی توجہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور دیگراراکین اسمبلی کی ان تقریروںکی جانب ہے جس میں دھاندلی کا ذکر کیا جاتاہے۔ پی ٹی آئی کے چند اراکین پوری اسمبلی پر بھاری نظر آتے ہیں۔دیگر اراکین کی تقاریر کو عوامی سطح پر اس لیے پزیرائی نہیں مل رہی کہ دھاندلی بری طرح بے نقاب ہوگئی ۔پی ٹی آئی والے اسے مینڈیٹ کا ڈاکہ کہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر سے ڈاکولوٹ کر فرار ہورہے ہوں اور محلّے والے باہر نکل کرمال لوٹ کر لے جا نے والوں کو پکڑ لیں لیکن جب پولیس آجائے تو مال لوٹ کر لے جانے والوں کو یہ کہہ کر آزاد کردے کہ یہ سامان اس گھر والے کا نہیں بلکہ لوٹ کر لے جانے ڈاکوؤں کا ہے۔ ایک طرف مینڈیٹ کا مسئلہ ہے دوسری جانب عوام کے دیگر مسائل ہیں۔ ملک کے عوام پہلے ہی بجلی اور گیس کے بھاری بلوں اور مہنگائی سے شدید پریشان ہیں۔ موجودہ دھاندلی نے ان کے غصّے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے پاس لوگوں کو فوری سہولت فراہم کرنے اور مہنگائی کم کرنے کا واضح منصوبہ بھی نہیں ہے۔ یہ سلسلہ بڑھتا رہا تودھاندلی سے آنے والے اراکین لوگوں کے اس غصّے کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے لیے آنے والے دن بہت سخت ہونگے ۔یہ جماعتیں ایک ہی صورت میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی، جب وہ عوام کے حقیقی مینڈیٹ کو تسلیم کریںگی شاید آنے والے طوفان سے انہوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔