وجود

... loading ...

وجود

ایک کڑوے سچ کا ادراک

اتوار 03 مارچ 2024 ایک کڑوے سچ کا ادراک

ب نقاب /ایم آر ملک

یقینامجھے اُس نسل کا مقدمہ لڑنا ہے جو سڑکوں بازاروں تربتوں کے قریب اپنے آپ کو نشے میں مخمور کرتی ہے اور پھر اِس نسل کو بات کرنے والے کا لہجہ بھی یاد نہیں رہتا۔ بے خود ہو کر پڑنے والی نسل کا کوئی تو ہو جو دکھ سمجھ سکے۔ کیا یہ اس نسل کے بڑوں کی بد اعمالیاں نہیں جو یہ اپنی ذات کے دکھ اپنے ،اپنی ناکامیوں اور اپنی خواہشوں کے نڈھال کندھوں پر لیے خود کو یہاں سے وہاں گھسیٹتی پھر رہی ہے ،جسے آنکھ کھولتے ہی ناخلف اور بے راہ روی کے راگ سننے کو ملیں ،جس کو بڑے ناکارہ سمجھ کر خود سے دور رکھتے ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سمجھا ہی نہیں گیا ۔وہ جیتنا بھی چاہیں تو ہار جاتے ہیں اور ہمارے نوجوان کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ اُس نے جب بھی جوانی اور تجربے کے فاصلے کو مٹانا چاہا تو اُسے جونیئر رینک کا طعنہ ملا۔ جونیئر ہونا بُری بات نہیں مگر اس بات پر بڑے اتنا طنز کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سنیارٹی سے وحشت زدہ ہو کر اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آج نئی نسل یہ سمجھ رہی ہے کہ نشے کی لت میں پڑ کر وہ بے خودی کے اندھیرے میں چُھپ گئی ۔
نہیں معصوم نوجوانو!
تم اب بھی دنیا کی نظرمیں ہو بس تم لوگوں کا احساس اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ ہمارے مورث نے جب یہ ملک حاصل کیا تھا تو سب کو لگن تھی ،محبت تھی ،اِس وطن سے اور سب اپنوں کی طرح رہتے تھے پھر سب اِس وطن کی ترقی اور تشخص کیلئے کام کرنے لگے۔ ترقی کی اس دوڑ میں سب بھاگتے رہے، پر وقت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص طبقہ کے اصول بدل گئے یہ وہ طبقہ تھا جو اپنی جاگیریں بچانے کیلئے بانی پاکستان کے ساتھ علیحدہ وطن کی جدوجہد میں شامل ہوا۔ یہی وہ طبقہ تھا جس نے انگریز کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی جنگ میں غداروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا، یہ طبقہ وطن کے بجائے اپنے گھر کو سجانے میں لگ گیا،اپنی چار دیواری اونچی سے اونچی کرتا رہا جس کی نگاہ میں محض اپنے مفادات رہ گئے اقبال نے جس کو شاہین کا نام دیا تھا، اِس طبقہ نے اُس شاہین کے پر نوچ ڈالے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے بھی اعتماد ،محبت اور یگانگت کا ورثہ سنبھال نہ پائے اور کرپشن کی اس جنگ میں وہ بھی شامل ہوگئے سچی محبت ،بے غرض خلوص ،اس کرپشن اور آگے بڑھ جانے کی ہوس میں ہمارے دلوں سے ہجرت کر گئے آج کتابی معاشرے اور اس معاشرے میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم سب دکھ بھری الجھن میں سانس لے رہے ہیں، اس ادراک کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہماری کوئی شناخت ہے ،نہ ہی پہچان اور نہ ہی ہماری ذمہ داری ریاست قبول کر رہی ہے ؟
کیا کسی نئے جوش ولولے سے بھرے نوجوان کے عزائم اور خوابوں کو چکنا چور کرنے کیلئے ایک دانشور کی یہ بحث کافی نہیں ۔ہمارے ہاں ایک مثبت بحث کے دوران بد تمیزی اور نافرمانی جیسے طعنے بھی روز مرہ کا معمول ہیں ،کامیابی کی راہوں پر مطلب پرستی کے خار بچھائے جاتے ہیں ،خود داری کے گلے میں خود غرضی کی رسی ڈال کر دور تک کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تجربہ اور جوانی ساتھ ساتھ چلے تو یہ دنیا ترقی کی راہ لگتی ہے مگر تجربہ اور جوانی جب اپنے اپنے مرکزوں ،اپنے اصولوں ،ضابطوں کے کھونٹوں سے بندھے ہوں اور اک دوجے سے منہ موڑے رکھیں تو فساد اور بغاوت جنم لیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ہماری آج کی نسل بے راہ روی ،بے دلی ،ناامیدی کا شکار ہے ۔ یہ ناامیدی بے زاری ،تشدد ،نفرت میں ڈھل کر دہشت گرد جنم دے رہی ہے ،نشے میں گرتے پڑتے بے خودوں کو جنم دے رہی ہے جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہونا چاہیے اُن میں اسلحہ آگیا جو ہمیں ہی نہیں اِس زمین کو بھی پامال کر رہا ہے۔ آج کی نسل کا ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ اُس میں اعتدال نہیں ،وہ ہمیشہ جذباتی دبائو میں رہتی ہے صرف اس لیے کہ اُس کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے ۔اُس کو آزمانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔
بڑے کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے پاس جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں اِس ایک لفظ کی تکرار ہی اُن کو ہپناٹائز کر دیتی ہے پھر اُن کاجسم بھی وہی حرکات کرتا ہے جو اُن کی سوچ میں ،دماغ میں بار بار شکوہ شکایت کرکے ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر بات میں حکومت کی کمیشن رپورٹ کی طرح نوجوانوں سے خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے ۔ہم قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس خود غرض ڈھانچے کو نہیں بدل سکے۔ اِ س لیے اے معصوم نسل کے نوجوانو !تم اپنے رویئے کو بدل دو اپنے آپ کو خود ہی سنبھالو کیونکہ پروفیسرز کو ذہنی مریض چاہیے ہوتے ہیں ،ڈیبیٹرز کو واہ واہ کرنے والے بے خود ناکارہ نوجوان چاہئیں، یہاں تو کچھ دن سکون رہے تو خود ہی اپنا کوئی بہن ،بھائی ،مار دیا جاتا ہے ۔یہاں اچھے بھلے انسان کو بیٹھے بٹھائے مریض بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں نعرہ ہے کہ غربت نہیں غریب کو مٹائو ۔دنیا طاقت کا ساتھ دیتی ہے معصوم نوجوانو! سمجھ جائو اِس بات کو کہ نشہ تمہیں مکمل ناکارہ کر دے گا تم دنیا سے نہیں دنیا تم سے بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر