... loading ...
زرّیں اختر
خیال تھا کہ وہ خبریں جوسماجی نوعیت کی ہوں گی ان پر تبصرہ ہوگالیکن سیاسی خبروں کی نوعیت تو ایسی ٹھہری کہ بقول غالب :
ہر چند ہو مشاہدئہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ایوان کا تصور کیاہے ؟ ایسی جگہ جہاں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔عمارت بھی محض اینٹ گارے کا نام نہیں رہتا۔کوئی عبادت گاہ بنتی ہے تو کوئی مزار ، کوئی عدالت تو کوئی ایوان،کوئی یادگار تو کوئی حساس تنصیبات۔اسمبلیوں میں وزیر بھی آتے ہیں اور ان کے لیے دروازے کھولنے والے دربان بھی !کہہ سکتے ہیں کہ عوامی نمائندے اور عوام ایک ہی مقام یعنی اسمبلی میں ہوتے ہیں۔ ثقافت یا کلچر کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا سفر اشرافیہ سے عوام کی طرف ہوتاہے کیوں کہ وہی عہدے دار،وہی با اختیار،وہی زردار ، وہی علم دار۔ ٹی وی کے مختلف چینلوں پر دکھائے جانے والے سیاسی مذاکرات میں جب سیاسی جماعتوںکے نمائندے چیخ پکار مچائیں گے تو ان پارٹیوں کے کارکن کیاآپ کے خیال میں سڑک پر جھپیاں ڈالیں گے؟
خیبر پختون خواہ کے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کے مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مختلف چینل کی وڈیو دیکھ کر صورت ِ حال کو سمجھا جاسکتاہے ۔ یہ دیکھا جاسکتاہے کہ ایوان میں ممبران آر ہے ہیں اور وہاں موجود ایک خاتون نے اپنا ہاتھ بلند کیا ہوا ہے اور اس میں انہوں نے جوتی پکڑی ہوئی ہے۔ اسی دوران وہ ایک خاتون سے گلے بھی ملتی ہیں اور پھر بعد میں آنے والے ایک باریش ممبر خاتون کے ہاتھ سے جوتی چھین لیتے ہیں اور وہ خاتون ان صاحب کے پیچھے جاتی ہیں ،ظاہر سی بات ہے کہ ان صاحب نے آگے جاکر وہ جوتی زمین پر پھینک دی تھی جو خاتون نے دوبارہ اٹھالی اور اپنی پہلی پوزیشن پر اسی طرح لوٹ آئیں۔ ایک اور وڈیو میں دیکھا جاسکتاہے کہ کے پی کے کے نو منتخب وزیر ِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور مخالف جماعت کی ایک خاتون کو برہم دیکھ کر ان کی طرف سے اپنی کرسی موڑ کر بیٹھ گئے ،ان خاتون نے اپنی جوتی اتاری اور اس کو بلند کرکے جانے کیا کیا بولتی رہیں لیکن علی امین اسی طرح بیٹھے رہے ۔ایک موقع پر ایک خاتون وزیرِ اعلیٰ کی کرسی کے سامنے کی میزپر لوٹا رکھ رہی ہیں۔بعد میں ایک خاتون ( یہ دو خواتین ہیں) ہال کے مرکز میں گھڑی دکھا رہی ہیں تو اب ان پرجوتے پڑے ہیں جونہیں معلوم کس سمت سے آئے ۔ بعد میں یہ خاتون مسلم لیگ نون کی ثوبیہ شاہد صحافی کو انٹرویو دے رہی ہیں اور خود پر پھینکے گئے جوتوں کی اور اپنے عورت ہونے کی دہائی دے رہی ہیں۔مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ان کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ اگر مخالف جماعت کا کوئی بڑھ کر یوں اور ایسا ویسا کردے تو سمجھ لو کہ سیاسی بساط پلٹی۔ خاتون بڑھیا لباس اور گہرے بنائو سنگھار سے مزین تھیں ۔حسرت ہی رہی ایسی سادگی دیکھنے کی جیسی پڑوسی ملک کے سیاسی نمائندوں میں پائی جاتی ہے اور لاکھ اختلاف کے باوجود خواہ وہ تاریخ کی اندرا گاندھی ہوں یا بنگلہ دیش کی موجودہ حسینہ واجد،ان کے سنگھارسنگھار ہیں سولہ سنگھار نہیں۔
______________
جب دوست دوست نہ رہے اور دوست کو اپنے دوست کی موت پر بھی اپنی موت یاد نہ آئے توپھر ایسا ہی ہوناہے۔ عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری افسرعبداللہ سنبل53 برس کی عمر میں اچانک حرکت ِ قلب بند ہوجانے کے سبب گزشتہ سال ستمبر میں انتقال کرگئے ۔ مرحوم کی بیوہ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹرعین المومنہ کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد اس سرکاری گھر میں رہنے کی ضرورت پیش آئی جو ان کے مرحوم شوہر کو ملاتھااور جس پر ان کے (اس وقت کے دوست )تین سرکاری عہدوں سے سبک دوش جہاں زیب خان رہ رہے تھے اور رہ رہے ہیں۔24جنوری کو نگراں کابینہ کے صوبائی اجلاس میں سرکاری گھر مرحومہ کو دینے کے منظوری دے دی گئی جس پر تا حال عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ جہا ں زیب خان کا موقف ہے کہ ان کو سرکار کی طرف سے گھر خالی کرنے کا کوئی خط موصول نہیں ہوا اور انہوں نے اس سرکاری گھر میں مزید رہنے کے لیے توسیع کی درخواست دے رکھی ہے لیکن اس کی ابھی منظوری نہیں آئی ہے۔ جہاں زیب خان نے کہا کہ وہ صوبائی حکومت کے فیصلے سے لاعلم ہیں ۔ جہاں زیب خان تو اپنے مرحوم دوست کی بیوہ کے مسائل سے بھی لاعلم ہیں اور ہم سب کی طرح اس حقیقت سے بھی لاعلم ہیں کہ کب کہاں اور کیسے موت آن لے۔
_________________
الفاظ کی معنی خیزی سے اخبار کی سرخیوں میں معنی آفرینی ،مثلاََدو کالمی سرخی ہے ”کون احمق جبری گمشدگیوں کی وکالت کریگا،نگراں وزیر ِ اعظم”۔ یہاں لفظ ‘وکالت’ پر غور کریں۔ ایک وکالت وہ جو وکیل عدالت میں کرتے ہیں اور ایک وکالت ‘حمایت’ کے معنوں میں۔ دلچسپ امر یہ کہ نگراں وزیر اعظم یہ بیان بھی عدالت میں کھڑے ہوکر ہی دے رہے تھے ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کسی کو ‘چیتاونی’ دے رہے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ” ریاست کو ہتھیار اٹھانے والوں سے الگ طرح سے ڈیل کرنا چاہیے ،لاپتا افراد کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں”۔ یہ بڑاڈپلومیٹک قسم کا بیان ہے ۔ ‘الگ طرح سے ڈیل ‘ سے کیا مراد ہے؟ یوں اگرکہیں کہ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں تو سمجھ میں آتاہے۔یہ بات کہ ‘لاپتا افراد کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم سمجھنا درست نہیں’؛یعنی لاپتاافراد مجرم ہیں؟ بغیر مقدمہ چلے مجرم؟گھر والوں کو یہ پتاہی نہ چلے کہ الزام کیا اور جرم کیا ؟سیدھے مجرم۔پوری ریاست سے مراد غالباََ پیچھے رہ جانے والے رشتے دار ،لواحقین و وارثین ہیں کہ انہیں نہ تنگ کیا جائے یہ درست نہیں ہوگا۔
____________________
راجیہ سبھا،بی جے پی کی شکست پر کانگریسیو ںکی جانب سے پاکستان زندہ باد کے نعرے۔بنگلور پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ کانگریس کے کامیاب امیدوار نصیر حسین نے کہاکہ انہوں نے کانگریس پارٹی زندہ باد اور نصیر خان زندہ باد کے نعرے سنے ۔معاملہ رفع دفع ہو یہی بہترہے۔
___________________