وجود

... loading ...

وجود

امریکی صدر جو بائیڈن کے نام کھلا خط

جمعه 01 مارچ 2024 امریکی صدر جو بائیڈن کے نام کھلا خط

جاوید محمود

امریکہ میں صدارتی مہم کے دوران تقریبا 500 سے 600 کے درمیان سینئر تجربہ کار ممبرز رضاکارانہ طور پر انتخابی مہم کو آرگنائز کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 2020میں صدارتی انتخابات کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان نے 20 سے 22 گھنٹے رات دن کام کیا اور ان کا تعلق امریکہ کی تمام ریاستوں سے ہے۔ ان ممبران نے جو بائیڈن کو کھلا خط لکھا جس کا لب لباب کچھ یوں ہے:
مسٹر صدر !
جب آپ امریکی صدر کے عہدے کے لیے ٹرمپ کا مقابلہ کر رہے تھے ہم آپ کی سیاسی فتح کی امید رکھتے تھے۔ آپ کی جیت نے امید بخشی کہ امریکہ انصاف کی فراہمی میں دنیا بھر میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آپ کے انتخاب کے بعد آپ کے کچھ الفاظ اور اقدامات واقعتا آپ کی شائستگی اور انسانیت کے عکاسی کرتے تھے۔ آپ کے علم میں ہے 2020 کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی اکثریت نے آپ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ مسلمانوں نے آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیںلیکن7اکتوبر کو اسرائیل میں ہونے والے واقعے نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔آپ نے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کا دورہ کیا اور یہ پیغام دنیا کو دیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ مسٹر صدر تاریخ کا جائزہ لیں تو صدیوں سے یہودیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کرنے اور ان کو ختم کرنے کی کوششیں کرنے والے یورپی عیسائیوں نے فلسطینی سرزمین کویہودیوں کو تحفے کے طور پر دیا اور یہ بھی کہ 32 فیصد یہودی آبادی کو فلسطین کا 56 فیصد حصہ تحفہ دیا گیا تھا اور 68 فیصد فلسطینی رہائشیوں کے لیے 42 فیصد اراضی مختص کی گئی تھی۔ سمجھ بوجھ کر بعد میں عربوں نے تقسیم کا منصوبہ مسترد کر دیا۔ اس کے بعدیہودیوں نے فلسطین کے بڑے شہروں پر حملہ کیا اور 530 دیہات کو تباہ کر دیا۔ 1948 میں تقریبا ً13 ہزار فلسطینی مارے گئے اور 750000سے زیادہ کو مہاجر بننے کے لیے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا ۔آج مہاجرین اور ان کی اولاد کی تعداد 7 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بہت سارے آج بھی کسمپرسی کی حالت میں پڑوسی عرب ممالک کے مہاجر کیمپوں میں اپنے وطن واپس جانے کے منتظر ہیں۔ آج بڑی طاقتوں کی حمایت کے نتیجے میں اسرائیل فلسطین پر قابض ہے۔ 1980 میں 15 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں نے بلدیاتی انتخابات میں حماس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ جوابی کارروائی میں اسرائیل زمینی فوج اور ٹینک تمام اسٹریٹیجک مقامات پر قابض تھے تمام سرحدیں سیل کر دی گئی تھیں۔ تمام فلسطینی زمین ہوا اور پانی اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔اسرائیلی زیر قیادت شاہرائیں فلسطین کی سرزمین کو پار کرتی تھی۔ خاص طور پر غزہ کے رہائشی اور عام طور پر سارے فلسطینی ایک بڑی جیل میں پھنسے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کا معاشی طور پر گلا گھونٹ کر ان کی نسل کشی کرنے کا پروگرام اور معاشی ناکہ بندی اور اس مقبوضہ زمین کے بھوکے اور ناراض باشندوں تک کھانا دوائی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کو روکنے کا کیا مقصد تھا ۔آدھی رات کو باغات جلائے جاتے مکانات مسمار کر دیے جاتے۔ پانی آلودہ تھا ۔چوکیوں پر وحشیانہ پابندیاں تھیںجو فلسطینیوں کو کام پر جانے کھیتوں کی کٹائی بیمار اور حاملہ خواتین کو ہسپتال اور بچوں کو اسکول جانے میں رکاوٹیں تھیں۔ اسرائیل فلسطینی اراضی کو خالی کرنے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرنے ضبط جائیداد پر یہودی بستیوں کی تعمیر اور عرب کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سہارا لیتا رہا۔
مسٹر صدر! آپ کی عظیم قوم اس نسل کشی اور رنگ برنگی قوم کو غیر مشروط مالی اور سفارتی فوجی مدد فراہم کرتی رہی۔ بہت سارے امریکی رہنماؤں کے نزدیک کوئی قانون یا آئیڈئیل اتنا قابل نہیں تھا کہ اسرائیل کو آگے بڑھانے کے لیے اس کی قربانی نہیں دی جا سکتی تھی۔ آپ کی قوم اسرائیل کے مظالم کی کسی بھی بین الاقوامی جانچ پڑتال میں رکاوٹ ہے۔ اس نے اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا بائیکاٹ کیا۔ امریکہ واحد سپر پاور ہے، آپ اس کے صدر ہیں۔ آپ نے اسرائیل کو دفاع کا حق دینے کا اعلان کر کے اس کے حوصلے بڑھائے ہیں۔ 7اکتوبر سے پہلے غزہ دنیا کا سب سے بڑا جیل تھااور اب وہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بن گیا ہے ۔بڑی طاقتوں کی شے پر اسرائیل نے 7اکتوبر سے اب تک غزہ پر 2ہزار سے زیادہ بم برسائے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو گئے ۔یہ وہ بد نصیب بچے ہیں جنہیں قبر کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور10ہزاروں بچوں کے لیے ایک الگ قبرستان بنایا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معصوم بچوں کے جسم کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ ان کے جسم سے کھال مکمل طور پر اتر چکی ہے اور ہڈیاں صرف نظر آرہی ہیں۔ یہ ہے ترقی یافتہ ممالک کا کا دعویٰ کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔اسرائیل کے دفاع کا انداز تو دیکھیے اس عرصے کے دوران اس نے چار لاکھ گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ دو ملین افراد گھر سے بے گھر ہو گئے ۔غزہ کی 90فیصد آبادی ہیلتھ کیئر سے محروم ہو چکی ہے۔ 60ہزار بچے زخمی حالت میں ڈاکٹروں کے منتظر ہیں جبکہ ہسپتالوں کو بم سے اڑا دیا گیا ہے۔ اس دوران 637 ڈاکٹر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسرائیل اپنے دفاع کے حق میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک ملین سے زیادہ بچے زندگی موت کے بیچ میں سسک رہے ہیں۔اس بربریت کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں ایک سو سے زیادہ صحافی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں صحافیوں کو ہلاک نہیں کیا گیا۔پوری دنیا کے خاموشی اور بے حسی کے شکار حکمرانوں سے غذا کی پٹی میں جاری نسل کشی کے اسرائیلی جرائم پر توجہ دلائی جانی چاہیے ۔شمالی غزہ کی پٹی میں اس وقت قحط کا عالم ہے اور بچے اور بوڑھے خواتین شیر خوار سب بھوکے مر رہے ہیں۔ان لوگوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا کیونکہ وہاں نہ کوئی میڈیا ہے اور کوئی ادارہ جو ان واقعات کو دستاویز نہیں کر سکتے ۔یونیسیف کے مطابق یہاں تک کہ جانوروں کا چارہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہاں آپ کو ہر دو یا تین دن میں بمشکل محدود کھانا ملتا ہے ۔لوگ جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس پر انحصار کرتے ہیں اور آلودہ پانی کو نمک کے ساتھ ملا کر پیتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے غزہ کی پٹی میں خوراک پانی اور ایندھن کے داخلے کو روکنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے شروع سے ہی اعلان کیا۔ اس کے بعد اسرائیلی ریاست غزہ کی پٹی میں بھوک اور قحط کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ قابض افواج نے غزہ کی پٹی کے ساتھ تمام گزر گاہوں کو بند کر دیا جن میں روزانہ 600 ٹرک ابو صالح کراسنگ سے داخل ہو رہے تھے۔ مصری عریش ہوائی اڈے تک پہنچنے والی انسانی امداد کو پورے 15 دنوں تک روک دیا گیا ۔اب جو امداد غزہ کی پٹی میں پہنچ رہی ہے وہ کل آبادی کی ضرورت کا ایک فیصد بھی پورا نہیں کرتی ۔ المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ عرب ممالک اور ترقی یافتہ ممالک انسانی خون کو بہتا ہوا اور لاشوں کو بکھرا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اس پر ترقی یافتہ ممالک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پشت پہ کھڑے ہیں اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔
اسرائیل نے 1948 سے اب تک 50 فیصد سے زیادہ فلسطین پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اب غزہ پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسرائیل کا گریٹر اسرائیل بنانے کا منصوبہ تیزی سے جاری ہے ۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک یہ کہتے ہیںکے اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے ۔مسٹر صدر مسلمان کمیونٹی نے آپ کے لیے 2020 میں بڑے پیمانے پہ مہم چلائی اور مسلم کمیونٹی نے آپ کے حق میں ووٹ دیے لیکن اس جنگ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں امریکہ کی سڑکوں پراسرائیل کے خلاف مظاہرے یہ ریفرنڈم ہے۔ ان سطور کی تحریر کے درمیان حیرت انگیز خبر آئی کہ امریکی فضائیہ کے اہلکار ایرون بیشنیل نے اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے اپنے آپ کو آگ لگا کر جان دے دی۔ اس دوران وہ نعرے لگا رہے تھے کہ فری فلسطین فری فلسطین۔ اس دوران ان کی باڈی آگ سے بھڑک رہی تھی۔ شعلے اٹھ رہے تھے۔ اس خود سوزی سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میں اس نسل کشی کا حصہ نہیں بننا چاہتا ۔اس سے پہلے بھی ایک فضائیہ کے اہلکار نے خود سوزی کی تھی۔ وہ بھی فری فلسطین کے حق میں اپنی جان دے بیٹھا ۔
یہ امریکی حکمرانوں کے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ان اقدامات کا کیا نوٹس لیتے ہیں اور زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں جو بائیڈن کا جیتنا ممکن نہیں ۔مسلم کمیونٹی کی اکثریت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ریپبلکن امیدوار کو ووٹ دیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر