وجود

... loading ...

وجود

حکومت کی کامیابی میں آزاد امیدواروں کا کردار

جمعه 01 مارچ 2024 حکومت کی کامیابی میں آزاد امیدواروں کا کردار

میری بات/روہیل اکبر
پنجاب اور سندھ حکومتوں نے اپنا پنا کام شروع کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مضبوط اپوزیشن اور خراب معاشی صورتحال میں ان وعدوں کا کیا ہوگا جو الیکشن سے پہلے ہر سیاستدان نے عوام سے کیے تھے ہمارے ہاں تو ویسے بھی حکومتیں عہدوں اور مفادات کی تقسیم کا کھیل بن چکی ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو چاروں صوبوں میں اب بھی وہی بندر بانٹ جاری ہے۔ سیاستدانوں نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ماضی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ایوانوں میں پہنچ کر عوام کو نکال دیا جاتا ہے اور مفادات اپنے خاندانوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں ،اسے جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت کہتے ہیں جس کی بدترین مثال اقربا پروری اور موروثی سیاست ہے۔ اس وقت پنجاب میںمریم نواز کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے۔ ایک تو ان پر الزام ہے کہ ان کی پارٹی کو الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن ملی بھگت سے انہیں مختلف سیٹوں سے جتوادیا گیا مگر اتنی سیٹیں پھر بھی نہیں دی گئی کہ وہ اپنے طور پر حکومت بنا لیں۔ اسی لیے ن لیگ نے پیپلز پارٹی ،ق لیگ اور آزادامیدواروں کو اپنے ساتھ ملا کر مریم نواز کو پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا کریڈٹ بھی حاصل کرلیا۔
پنجاب اسمبلی میں اگر آزاد امیدوار ن لیگ کا ساتھ نہ دیتے تو ن لیگ کبھی بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوتی۔ اس لیے مریم نواز کو چاہیے کہ جب اپنی کابینہ بنائے تو سب سے پہلے آزاد امیدواروں کو اس میں شامل کریں کیونکہ یہ آزاد امیدوار پیپلز پارٹی کی بہت سی آفرز کو ٹھکرا کر مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہی لوگ اپنے آپ کو عوام میں سرخرو کرنے کے لیے دن رات محنت بھی کرینگے کیونکہ الیکشن سے پہلے جتنے وعدے مسلم لیگ ن نے عوام سے کیے، ان سب پر عملدرآمد ناممکن ہے اور اگر ان میں سے چند ایک پر بھی عمل ہوگیا تو مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ مگر اسکے لیے ضروری ہے کہ پنجاب کابینہ میں ایسے چہروں کو سامنے لایا جائے جو عوام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اور اس میں سب سے زیادہ آزاد امیدوار اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو انکی اپنی ساکھ کا معاملہ ہوگا اور دوسری طرف پارٹی کا دبائو بھی ہوگا۔ اس لیے سب سے بہترین چوائس آزاد امیدوار ہیں ۔اگر مسلم لیگ ن نے انہیں وزارتوں سے محروم رکھا تو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا مریم نواز کو کرنا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز نے الیکشن سے پہلے جس طرح جارحانہ سیاست کی ہے بلاشبہ اسی کے نتیجہ میں ن لیگ کو ووٹ بھی پڑے لیکن اتنی سیٹیں نہیں مل سکیں کہ وہ پنجاب سمیت مرکز میں اپنی حکومت بنالیں۔ کہنے کو تو مسلم لیگ ن کی یہ حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور جن لوگوں نے اس حکومت کا سہارا دے رکھا ہے ، وہ بلاشبہ آزاد امیدوار ہی ہیں اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو پنجاب میں ن لیگ کی حکومت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ اس لیے مریم نواز کو اپنے خواب پورے کرنے کے لیے آزاد امیدواروں پر زیادہ بھروسہ کرنا پڑے گا اور اس وقت پنجاب اور سندھ کے عوام سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی فیصد سے زائد افراد سندھ اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں پینے کے صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولتوں اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں ، جہاں زراعت اور صنعت پر کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ با توں سے صوبے معاشی حب نہیں بنتے۔ شارٹ ٹرم اور لونگ ٹرم ترقی، روزگار اور خوشحالی کا روڈ میپ جو دیا گیا ہے، ضروری ہے کہ اب اس پر دل وجان سے عمل بھی کیا جائے ۔ایوان عوامی مفاد کی قانونی سازی کرے اور مقامی حکومتوں کے ذریعے لوگوں کو بنیادی سہولتیں دی جائیں۔ حکمران ایک بات کو ذہن نشین کرلیں کہ مسلط شدہ ایجنڈے زیادہ دیر نہیں چلتے ۔ اس لیے اب سب مل بیٹھیں اور مسائل کا حل نکالیں جو کہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ پاکستان کو برآمدات کے قابل بنانا،روزگار، تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پنجاب سمیت تمام صوبوں میں تعلیمی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے تاکہ اس پہ فوکس کیا جا سکے ۔ مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میںایجوکیشن کے حوالہ سے بڑا تفصیلی بیان دیا تھا۔ اس لیے پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے نمبر پر اساتذہ کی عرصہ دراز سے رکی ہوئی ترقیاں فورا کرے۔ ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ سرکاری اسکولوں کا ماحول خوشگوار بنایا جائے اور اس کے لیے مرکز میں بیٹھے ہوئے ایک انتہائی شاندار اور وسیع سوچ کے حامل شخص محی الدین وانی سے بھی رہنمائی لی جائے جن کی کوششوں سے گلگت بلتستان میں تعلیمی انقلاب آیا اور اب وہ اسلام آباد کے ا سکولوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے جہاں کا ماحول یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ ان کی کوششوں سے لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ وہی اسکول ہیں یا ہم باہر کی دنیا میں آگئے ہیں۔ اس وقت پنجاب بھر کے سرکاری ا سکولوں میں اساتذہ کی بھی شدید کمی ہے جس سے تدریسی امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ لاہور کے اکثر اسکولوں میں ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریس نہیں ہیں جونیئر ٹیچروں کو عارضی چارج دیکر عرصہ دراز سے بٹھا رکھا ہے۔ اس لیے مریم نواز کو سب سے پہلے پنجاب بھر کے سرکاری اسکولوں میں میرٹ پر خالی آسامیاں پر کرنی چاہیے۔ اس وقت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں پرنسپل ، ہیڈ ماسٹرز کی 4224،سینئر سیبجکٹ ا سپیشلسٹ،سیبجکٹ سپیشلسٹ کی 7092، ایس ایس ٹی، ایس ایس ای، ڈی پی ای کی 7846، ای ایس ٹی، ایس ای ایس ای کی 23448، ای ایس ای،پی ایس ٹی کی 72370 اور قاری ٹیچر کی 641 نشستیں خالی ہیں جس کی وجہ سے طلبہ وطالبات کے تدریسی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں فروری کے آخرمیں بھی صوبہ بھر کے سینکڑوں اساتذہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں ان ریٹائر ہونے والے اساتذہ سے پہلے اس وقت سرکاری سکولوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار 671اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں سرکاری سکولوں میں ایک سو سے زائد کی کلاس پر ایک ٹیچر تعینات ہے جو طلبہ وطالبات پر پوری توجہ نہیں دے پاتے اور سرکاری ا سکولوں میں تعلیم کا گراف روزبروز تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر