... loading ...
جاوید محمود
پاکستان میں سیاسی بحران نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈیموکریسی انڈیکس 2023 کے مطابق پاکستان اس برس ایشیائی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جسے اسکور میں تنزلی کے بعد اسے ہائبرڈ کی فہرست سے نکال کر اتھارٹیرین یعنی آمرانہ طرز حکومت والے ممالک کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ دی اکانومسٹ کے مطابق ایسے ممالک جہاں صاف و شفاف انتخابات نہیں ہوتے شخصی آزادیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں، میڈیا تو صرف سرکاری ہوتا ہے یا پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ آمرانہ نظام کے حامل ملک کہلاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں حکومت پر تنقید کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور یہاں عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق ایسے ممالک میں جمہوری ادارے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ پاکستان کا شمار جمہوریت کی جگہ ہائبرڈ نظام والے ممالک میں کیوں ہے؟
دی اکنامسٹ کے مطابق پاکستان کے سیاسی نظام پر تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے قبل دباؤ میں رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں نگراں حکومت نے ہمیشہ ایسے دعوؤں یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کی ہمیشہ تردید کی ہے ۔اٹلانٹک کونسل کے نان ریزیڈنٹ فیلو تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان کو اتھارٹیرین قرار دیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ملک جہاں انتخابات اپنی آئینی مدت سے آگے بڑھائے جائیں۔ میڈیا کو ایک سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کی کوریج کرنے سے منع کیا جائے۔ سیاسی کارکنان اور رہنما رو پوش ہوں، ایسے ملک کو آمرانہ نظام کا حامل قرار دیا جانا حیرانی کی بات نہیں۔ ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے دی اکانومسٹ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس رپورٹ میں پاکستان کی تنزلی کی گئی ہے، اسی رپورٹ میں یونان کی ترقی کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو دائیں بازو کے نظریات کے مزید قریب ہو گیا ہے اور اس کی پالیسیاں یورپ میں بہتر زندگیوں کی خواہش رکھنے والے پناہ گزینوں کی موت کا سبب بنی ہیں ۔تاہم ان کے مطابق پاکستان میں نظام میں موجود کمزوریاں مغربی اداروں کو پاکستان پر تنقید کرنے کا موقع دیتی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مسلسل مداخلت اور عوام کی مرضی کو مجروح کرنے کا سلسلہ مغربی اداروں کو پاکستان کو ہدف ِتنقید بنانے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔ ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ سات عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل قائم ہونے والی اسلامی جمہوری ریاست پاکستان کو جس میں کئی دہائیوں تک کسی نہ کسی صورت میں متحدہ فوجی حکمران ہی اقتدار میں رہے ہیں۔ آج تک یہ موقع ہی نہیں مل سکاکہ اس کا کوئی ایک بھی منتخب وزیراعظم اپنے عہدے کی پارلیمانی مدت پوری کر سکے ۔پاکستان میں کسی جمہوری حکمران کو اگر فوج نے مارشل لاء لگا کر برطرف نہ کیا تو اسے یا تو خود صدر مملکت نے اس کے عہدے سے ہٹا دیا یا پھر وہ کسی عدالتی فیصلے کے تحت اقتدار سے باہر کر دیا گیا۔ اس کی ایک تازہ مثال وزیراعظم نواز شریف کا حال ہی میں نا اہل قرار دیا جانا بھی ہے جو کسی عدالتی فیصلے کے بعد اپنے منصب سے محروم ہونے والے کوئی پہلے پاکستانی سربراہ حکومت نہیں تھے۔
دنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں رائج طرز حکمرانی کو اتھارٹیرین یعنی آمرانہ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی ڈیموکریسی انڈیکس 2023 رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک میں رائج نظام حکومت کاجائزہ لیا گیا۔ گزشتہ برس دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں پاکستان کا جمہوریت میں 105 واں رینک تھا اور یہاں قائم حکومت کو ایک ہائبرڈ یعنی مرکب نظام حکومت قرار دیا گیا تھا۔ تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب پاکستان گزشتہ سال کی رینکنگ میں 11 درجوں کی تنزلی کے بعد اقوام عالم میں 118 نمبر پہ آگیا ہے۔ گزشتہ برس ڈیموکریسی انڈیکس میں پاکستان کا اسکورکم ہو کر3. 4تھاجو اس برس کم ہو کر 25 .3ہو گیاہے۔ اس رپورٹ میں امریکہ، انڈیا ،برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو فلاڈ جمہوریت قرار دیا ہے۔ فلاڈ جمہوریت سے مراد وہ نظام ہے جہاں انتخابات تو صاف و شفاف ہوتے ہیں لیکن وہاں موجود جمہوری نظام میں مسائل ہوتے ہیں جیسے کہ میڈیا پر دباؤ نظام میں کمزوریاں اور لوگوں کی سیاسی نظام میں دلچسپی میں کمی ۔اس فہرست میں انڈیا کا رینک 41 ہے ۔دی اکانومسٹ نے ناروے نیوزی لینڈ اور آئس لینڈ کو مکمل جمہوریت والی اس فہرست میں سب سے اوپر رکھا ہے۔ اگر اپ دی اکانومسٹ جیسے اداروں کی رپورٹوں کا جائزہ لیں تو وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے منفی فتوے جاری کرتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے ان کے فتوے مثبت ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ امریکہ کو آزاد ہوئے 247سال ہو چکے ہیں، جب امریکہ کی بنیاد رکھی گئی تو وہاں یہ حقوق صرف سفید فام مردوں کے پاس تھے بلکہ صرف سفید فام زمیندار مردوں کے پاس تھے۔ اگر آپ کے پاس زمین نہیں تھی تو آپ کو ووٹ کا حق نہیں تھا ۔سیاہ فام افراد کو غلام بنایا جا سکتا تھا اور ان کی خرید و فروخت بھیڑ بکریوں کی طرح کی جاتی تھی۔ عورتوں کو ووٹ کا حق 125سال کے بعد 1920 میں 19 ویں ترمیم کے ذریعے ملا ۔آج حالات وہ نہیں ہیں مگر آج بھی امریکہ میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاہ فام افراد آئے روز پولیس کی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں برابر کے کام میں کم اجرت ملتی ہے۔ نسل پرستی پدر شاہی چاہے آئین میں ختم کر دی گئی ہے، معاشرے سے ختم نہیں ہوئی ہے ۔ملک کے پہلے غیر سفید فام صدر کو آنے میں دو صدیوں سے زیادہ لگ گئے۔ خاتون صدرتو ابھی بھی ایک خواب ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ امریکہ سے اچھا ہے۔ پاکستان میں دو مرتبہ بے نظیر وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا چکی ہیں۔امریکہ میں موجودہ صورتحال میں آنے والے انتخابات میں کوئی صدر مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر انتخاب نہیں جیت سکتا ۔امریکہ میں نوجوان مسلمان اپنے فلسطین حامی موقف پر دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم نوجوان مظاہروں میں حصہ لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا فورس کی وجہ سے اپنے اسکالرشپ تعلیمی کیریئر نوکریاں کھونے سے پریشان ہیں۔دی اکنامکس نے ان حالات میں امریکن جمہوریت کو فلاڈ جمہوریت کا رینک دیا ہے۔ کیا امریکہ کو یہ رینک دینا انصاف پر مبنی ہے ۔نا انصافی کی حد تو یہ ہے کہ بھارت کو 41 نمبر پر رکھا گیا ہے۔ بھارت میں سی این این کے مطابق 230 ملین مسلم کہتے ہیں کہ انہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پسماندہ اور پسماندہ کیا جا رہا ہے۔ سی این این کے مطابق اپریل اور جون 2022 کے درمیان پانچ ریاستوں میں مسلمانوں کی کل 128 جائیدادوں کو سرکاری حکام نے بلڈوز کر دیا تھا۔ مسماریوں نے کم از کم 617 افراد کو بری طرح متاثر کیا جن میں مرد خواتین اور بچے بھی شامل تھے یا تو انہیں بے گھر کر دیا گیا یا ان کی واحد روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ مصنف مکو یادو نے کہا یہ ایک 360 ڈگری اسلام و فوبک مہم ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہے۔ دہلی کے مہرولی ضلع میں بہت سے مسلمانوں میں مایوسی کا احساس ہے جہاں سرکاری حکام نے گزشتہ ماہ کے آخر میں 600 سال پرانی خوند جی مسجد کو زمین بوس کر دیا تھا۔کوئی دی اکانومسٹ سے پوچھے کہ آخر کس بنیاد پر بھارت کو 41 رینک دیا گیا۔آخر یہ کیا معیار ہے جمہوریت کاگراف دیکھنے کابھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا کھیل جاری ہے، اس بنیاد پر اسے بدترین ملک قرار دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔