... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم ہر جگہ مسلمانوں کی حالت افسوس ناک حد تک بگڑی ہوئی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ کیفیت یہ ہے کہ ہمیں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا۔ آج بھی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا تو دور اس پر کوئی خاکہ تک نہیں بنایا گیا۔ بچے اسکولوں کی جگہ کارخانے میں جاکر خیرات مشین پر بیٹھ رہے ہیں یا پھر پھلوں کے ٹھیلے پر اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے ایک دہائی بعد مسلمانوں نے کچھ ایسا ٹھوس کیا ہوتا کہ حالات بہتر ہوتے نظر آتے لیکن افسوس کہ ہماری سوچ عمل سے عاری ہی رہی۔ حکومت کے اقدامات پر ہی مکمل انحصار اور بس اسی کا انتظار ہمیں مزید ابتر صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے۔انتہائی خطرناک انکشاف کیا گیا ہے کہ پی جے پی سرکار کے زیر انتظام چلنے والے سکولوں میں بھارتی بچوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف پروان چڑھا رہے ہیں۔ مزید انکشاف کیا کہ بچوں کے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے کہ پوری دنیا ہندوبالادستی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔
مودی سرکار اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق سکولوں کے نصاب میں ردوبدل کر رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کے دباؤ پر نصابی کتابوں میں بھارتی تاریخ اور سائنس کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے انتہا پسندوں کی نظریاتی سرپرستی کے زیرِ انتظام سکول، نصاب میں حکومتی ایماء پر تبدیلی کر رہے ہیں۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کے حمایتی لاکھوں بھارتی نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے لیے درس وتدریس کا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی نوجوان مارچ اور مئی کے درمیان متوقع بھارتی انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ بی جے پی کے زیر انتظام سکولوں کے طلباء کے ذہنوں میں تاریخ کے ان ہیروز کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے جن کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں ہے۔
مورخین، سائنسدانوں اور دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ ودیا بھارتی سکولز تعلیم آر ایس ایس کی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ آر ایس ایس کا پورے ملک میں سکولوں کے اتنے بڑے نیٹ ورک کو چلانے کا مقصد اپنی نئی نسل کے ذہنوں پر اثر انداز ہو کر اپنی ہندوتوا سوچ کے مطابق ڈالنا ہے۔ آر ایس ایس کے سکولز بھارتی بچوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف پروان چڑھا رہے ہیں اور بچوں کے ذہنوں میں پوری دنیا ہندو بالادستی کے خلاف سازش کر رہی ہے جیسے خیالات ڈال رہے ہیں۔ 1999ء سے 2004ء کے درمیان بھی جب بی جے پی پہلی بار حکومت میں آئی تو اس نے اسی طرح کے نصاب میں ردوبدل کا کام شروع کیا اور اب تعلیمی نصاب میں ہندوستانی تاریخ اور سائنس کو نئی شکل دے رہے ہیں۔
نصاب میں تبدیلی سے 12ویں جماعت کی تاریخ اور سیاست کے حصوں سے اہم واقعات غائب کردیے گئے۔ ہندو انتہا پسندی نے مہاتما گاندھی کے قتل سے تعلق ختم کرنے،گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام بھی چھپانے کی کوشش کی۔ بھارت میں مودی سرکار کا ایک اور متعصبانہ اقدام سامنے آیا ہے اور نئے تعلیمی سال میں نصاب سے مسلم مغل سلطنت کے ابواب خارج کر دیے گئے ہیں۔ بھارت کے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ نے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں تبدیلی کر دی ہے اور بارھویں جماعت کی تاریخ کی کتاب سے 16 ویں اور 17 ویں صدی عیسوی میں مغل سلطنت سے متعلق باب خارج کر دیا ہے۔ حکومت کے اس اقدام پر مودی سرکار کو سوشل میڈیا پر صارفین کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اسی طرح بارہویں جماعت کی سوکس کی کتاب سے دنیاوی سیاست میں امریکی کردار اور سرد جنگ سے متعلق باب بھی حذف کر دیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی ‘مقبول تحریکوں کے عروج’ اور ‘ایک جماعت کی حکمرانی’ سے متعلق باب بھی بارہویں جماعت کی نئی کتابوں کا حصہ نہیں ہوں گے۔نئے نصاب کا اطلاق ملک بھر میں ‘نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ’ سے منسلک تمام تعلیمی اداروں پر ہوگا۔بھارتی حکومت کے اس متعصبانہ اقدام پر سوشل میڈیا صارفین شدید برہم ہیں اور وہ مودی سرکاری پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔
بھارت کی مودی سرکار نے مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہزار سے زائد مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کردیا۔بھارتی ریاست آسام میں ایک ہزار 281 مدارس کو ” ماڈل انگلش اسکولز” میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کا کہنا ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔آسام کے ڈائریکٹر آف ایلیمنٹری ایجوکیشن کے دفتر سے جاری حکم نامہ میں تمام سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ مدارس پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اور مڈل اسکول مدارس کو فوری طور پر عام اسکولوں میں تبدیل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔آسام میں 1934 میں مدرسوں کی تعلیم کو ریاستی تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا تھا اور اسی سال مدرسہ بورڈ بھی تشکیل دیا گیا تھا ہم متعصب ریاستی حکومت نے 12 فروری 2021 کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے مدرسہ بورڈ تحلیل کردیا تھا۔اطلاعات کے مطابق ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگوار کی ایک تقریر نصابی کتابوں میں شامل کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا سیاسی کیریئر آر ایس ایس سے ہی شروع کیا تھا، جو حکمراں بی جے پی کی مربی تنظیم بھی ہے۔ تقریباً 60 لاکھ اراکین پر مشتمل آر ایس ایس کی درجنوں ذیلی تنظیمیں بھارت اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ہندوتوا کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔