... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان کے حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد ملک کے طول وعرض میں دھاند لی کاشور برپا ہے۔ یہ ا نتخابات گزشتہ تمام ا نتخابات سے اس لیے مختلف ہیں کہ اس کے نتائج کوملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کوئی بھی ان نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جمہوری وطن پارٹی، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، سندھی عوامی تحریک ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ا ور پی ٹی آئی ملک گیر تحریک چلارہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیںکہ انتخابات کے صحیح نتائج کا اعلان کیا جا ئے۔ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہورہا ہے ،تحریک ا نصاف کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے اوراس کے خلاف اقدامات سے وہ مزید مضبوط ہورہی ہے۔ تمام جماعتوں کو یہ بھی احساس ہے کہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ا یم کیو ا یم مسلسل عوامی حمایت سے محروم ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پی پی بھی زوال کی جانب گامزن ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان جماعتوں کا ا تحاد بھی ہے مسلم لیگ ن کا عام کارکن اقتدار میںپی پی اور ایم کیوایم کے ساتھ شراکت ا ور اتحادپسند نہیں کرتا ہے ۔ایم کیو ایم کو بھی پی ٹی آئی کا ساتھ ختم کرنے سے عوامی سطح پر جو نقصان ہوا ہے اس کی جھلک کراچی اور حیدرآباد میں محسوس کی جارہی ہے۔ موجودہ مسلط کردہ کامیابی سے انہیں مزید نقصان ہوگا ۔ پیپلز پارٹی کو آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست سے خصوصاً پنجاب میں جو نقصان ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ تینو ں جماعتیں مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد سے پہلے تک کسی حد تک موثرّ تھیں۔ اس وقت تحریک انصاف کی مقبولیت بھی اتنی زیادہ نہیں تھی ۔اس وقت عمران خان کی جانب سے ا نتخابات کے مطالبے کے خوف سے تحریک انصاف کو کچلنے کا عمل شروع ہوا جو ان جماعتوں کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے خلاف جاری کارروائیوں کا منفی اثر ہوا ،وہ عوامی سطح پر مقبول سے مقبول تر ہوتی چلی گئی ۔ 2024 کے انتخابات میں انتخابی عمل سے باہر کرنے اورپارٹی پر پابندی عائد کرنے کے باوجوداس کے حمایت یافتہ امید وا ر نہ صرف پختون خواہ صوبے میں بھاری اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے کامیاب ہوچکے ہیں بلکہ قومی سطح پر بھی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ” انہیں180نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کے فارم 45ان کے پاس ہیں لیکن نتائج کے مطابق اُنہیں نہ صرف 92 نشستوں تک محدود کردیا گیا ہے بلکہ جیتنے والے آزاد ا مید واروں کو گرفتا ر کرکے ان کی وفاداریاں تبدیل کی جارہی ہیں”۔ اس طرح کے عمل سے آنے وا لی حکومت کے خلاف ا یک نیا عوامی احتجاج جنم لے سکتاہے۔ اس وقت عوام میں انتخابات کی دھاندلی کا غصہ کسی خطرناک طوفان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان کے کرتا دھرتا اس حقیقت کو نظر انداز کرہے ہیں کہ انہوں نے سیاسی گھوڑوں کی دوڑ میں جن گھوڑوں کا ا نتخاب کیا تھا۔ وہ نیم مردہ تھے۔ وہ دوران مقابلہ صرف ہا رے ہی نہیں بلکہ آدھے راستے میں گرگئے۔ دنیا بھر میں بے نقاب بھی ہوگئے ۔ا ب کسی جگہ ان کی پزیرا ئی نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود ان سیاسی لاشوں کی تخت نشینی سے ملک کی ترقی و تعمیر کی امید لگا نا کہاں کی دانشمندی ہے۔ آئین کا بنیادی تصور یہ ہے خدا تعالیٰ کے بعد حاکمیت عوام کی ہے اوروہ ا سے ا پنے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لاتے ہیں یعنی مقتد ر ا یوان میں نمائندگی کا حق کسی ایسے شخص کو حاصل نہیں ہوسکتا جسے عوام نے منتخب نہ کیا ہو کسی بھی ہارے ہوئے شخص کو کامیاب قرار دینا آئین سے انحراف ہے۔ ایساکوئی نمائندہ کیسے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا سکتا ہے جسے خود بھی یہ معلوم ہو کہ اسے دھاند لی سے نشست دلوائی گئی ہے ۔پاکستان کے موجودہ حالات میں دھا ند لی کے مسئلے کو حل کیے بغیر تشکیل پانے والی حکومت دو قدم بھی نہیں چل سکے گی۔ حکومت کی اصل طاقت عوامی حمایت ہے ۔اس سے محرومی کے نتیجے میں وہ بے جان ہو جائے گی اور ملک چلانے کے بجائے ہروقت خود کو بچانے کی فکر میں ا یسے اقد ا مات کرے گی جس سے مزید پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہونگے۔ مسلم لیگی حلقوں میں کسی حد تک اس احساس نے جنم لیا ہے کہ موجودہ حالات میں اقتدا ر کا حصول ان کی سیاسی جماعت کے خاتمے کاسبب بن سکتا ہے ۔پیپلز پارٹی بھی ا قتد ار میں وزارتوں کی حد تک شراکت سے گریز کی پا لیسی پر عمل پیرا ہے۔
گزشتہ روز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں جو معاہدہ سامنے آیا۔ اس سے واضح ہے کہ یہ ڈری ہوئی جماعتوں کا محتاط معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی درون خانہ خبریں واضح کرتی ہیں کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری اُٹھاتے ہوئے ہر کوئی ہچکچا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مطالبات اور معاہدے کے درمیان ایک فاصلہ موجود ہے۔ دوسری طرف نون لیگ بھی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر پا رہی۔ پیپلز پارٹی کو صدارت اور مسلم لیگ نون کو وزارت عظمیٰ مل تو گئی ہے، مگر پیپلزپارٹی پہلے مرحلے میں حکومت کی ذمہ داری قبول کرنے کوتیار دکھائی نہیں دیتی۔ سندھ حکومت مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گی بلوچستان کی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ یہ انتظام بھی پیپلز پارٹی کے لیے بہت فائدہ مند نہیں ہوگا۔ا لبتّہ وہ مرکزی حکومت کی کسی بھی ناکامی کا ا لزام قبول نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ عالمی سطح پرآنے وا لی حکومت کو رسوا ئی اور تنقید کا سامناہوگا ۔وہ قومی اوربین الاقوامی میڈ یا کے سخت سوالات کے جو ابات میں جس قسم کی غلطیاں کریںگے ، اس کے اثرات سے وہ مزید غیر مقبول ہوسکتے ہیں۔ عالمی میڈیا میں راولپندی ڈویژن کے کمشنر کے اس بیان کو سہ سرخیوں سے شائع اور نشر کیا ہے جس میں انہوں نے راولپنڈی ڈویژن کے13قومی اسمبلی کے حلقوں میں دھاندلی کا اعتراف کیا تھا۔ ان رپورٹوں کے مطابق دھاندلی کے سلسلے میں عمران خان کے الزامات کواس بیان سے مزید تقویت ملی ہے ۔صدر مملکت عارف علوی نے جو بیان دیا ہے۔ اس میں بھی انہوں نے کہا ہے کہ ” بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ دیا ہے اس مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کو ایک قوم کی حیثیت سے نقصان ہوسکتا ہے”۔ خود مسلم لیگی سینیٹر مشاہد حسین نے کہا ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے کہ سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما عون عباس نے انتظامیہ کے اس ظلم کا تذکرہ کیا ہے کہ”کس طرح ان سے جبری بیان لیا گیا ،ان کا گھر توڑدیا گیا۔ ان کا آم کاباغ بنجرکردیا گیا۔ ان کی فیکٹری تباہ کردی گئی۔ دوران روپوشی ان کی والدہ کو فالج ہوگیا”۔
دنیا بھر میں سیاسی مسائل کو طاقت سے حل کرنے کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جس کی پھیلتی ہوئی آگ کو روکنا بہت مشکل ہوجا تا ہے۔ انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں اور افہام وتفہیم سے کا م لیا جائے تو معاملات حل ہو سکتے ہیں ۔آج کی کیفیت میں لچک کے بغیر کچھ حاصل نہ ہوگا۔ تحریک انصاف نے عمر ا یوب کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کر رکھا ہے۔ عمر ایوب دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں کامیابی حاصل ہوگی جس کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ اول تو ا لیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے پاس اراکین کی تعداد بہت کم ہے ۔ابھی تک خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔فی ا لحال جس سابقہ ناکام تجربے کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسی تجر بے کی وجہ سے گزشتہ دو سال سے ملک میں معاشی بحران جاری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔