وجود

... loading ...

وجود

انتخابات میں کامیابی کیلئے مودی سرکارکا اسلامو فوبیا ہتھیار

جمعرات 22 فروری 2024 انتخابات میں کامیابی کیلئے مودی سرکارکا اسلامو فوبیا ہتھیار

ریاض احمدچودھری

مودی سرکار اسلامو فوبیا کو بھڑکا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عالمی برادری کی بے حسی اور مجرمانہ خاموش کی وجہ سے بھارت کی ریشہ دوانیاں بڑھ رہی ہیں۔اقلیتوں کو دیوار سے لگایا جارہاہے۔ شدت پسند ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بھارتی حکمران پاکستان اور اسلام دشمنی کا کارڈ کھیلتے ہیں جس سے امن و امان کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اگر بھارت کا ہاتھ نہ روکا گیا تو اس کی جنونیت خطے میں تباہی لا سکتی ہے جس سے عالمی امن بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔بھارت میں مسلمان ایک بار پھر انتہا پسند مودی سرکار کے نشانے پر ہیں۔دو مساجد کو نذر آتش اور مسمار کر دیا گیا جب کہ امام مسجد کو شہید کر دیاگیا۔یہ واقعات ہریانہ اور اتر کھنڈ میں پیش آئے۔شدت پسندوں کی طرف سے ان مساجد کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔اس سے قبل بابری مسجد کو رام مندر کی جنم بھومی قرار دے کر گرایا گیا اور اس پر رام مندر تعمیر کر دیا گیا۔رام مندر کا افتتاح گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے کیا گیا۔مندر کی اس تعمیر اور اس کے افتتاح کو فالس فلیگ اپریشن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اگلے دو تین ماہ میں بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات میں ہندو جنونیت کو ابھارنے کے لیے مودی ایسی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں جیسے گزشتہ انتخابات سے قبل پلوامہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔بھارت کی قیادتوں کی طرف سے سیکولر انڈیا کا تصور پوری دنیا میں اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔
مودی کی طرف سے اس ریاست کو ہندو شدت پسند بنا دیا گیا ہے اور یہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ایسی شدت پسندانہ کارروائیاں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ہو رہی ہیں۔بابری مسجد گرا کر رام مندر کی تعمیر کے بعد شدت پسندوں کے حوصلے مزید بڑھے ہیں۔رام مندر کے افتتاح کے بعد نئی دہلی میں مسجد اکھونجی کا انہدام بھارت کی فسطائیت کا مزیدثبوت ہے۔اس کے بعد اب ہریانہ اور اتراکھنڈ کی مساجد کو نذر آتش کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔اتر کھنڈ میں دو روز قبل اسی مسجد سے ملحقہ مدرسہ کو گرانے پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر پولیس کی طرف سے ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے سیدھی فائرنگ کی گئی جس میں چار افراد موقع پر اور چار ہسپتال جا کر جان بحق ہو گئے جبکہ 260 زخمی ہوئے۔
امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ 76 برس کے دوران ہزاروں مساجد اور چرچ ہندو انتہا پسندی کا نشانہ بنے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 1947ء سے اب تک 76 سال کے دوران 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد گرجا گھر اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہندو انتہا پسندوں کی نفرت اور تعصب کا نشانہ بن چکی ہیں۔
ہندو انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس بھارت میں حکومتی آشیر باد سے اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ مودی سرکار میں حلال جہاد، گئو رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے 2017 میں مشہور زمانہ دنیا کے عجائب میں شامل تاج محل کے بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بھارتی فوج نے 1984 میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پرٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کردی تھی جس کے بعد سکھوں کے پرہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔دہلی سے 37 کلو میٹر دور واقع فرید آباد میں گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کی تعمیر جاری تھی جس کو ہندؤں (جن میں اکثریت جاٹ برادری کی تھی) نے پہلے مسجد کو نذر آتش کیا بعد ازاں مسلمانوں کی رہائشی آباد پر حملہ آور ہوئے۔دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اٹالی میں 5سال قبل مسجد اور مندر ایک ساتھ تعمیر کیے جا رہے تھے، مگر اراضی کے تنازع کے باعث مسجد کا تعمیراتی کام روک دیا گیا تھا رواں ماہ عدالت نے مسجد کی تعمیر کی اجازات دی تھی، یوں 5 سال بعد مسجد کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
منی پور میں جاری حالیہ فسادات میں 400 سے زائد چرچ نذر آتش کیے جا چکے ہیں جب کہ 2008 میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600 گاؤں اور 400 چرچ جلا ڈالے تھے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جگہوں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کرنا، بلڈوزر پالیسی اور مساجد کی مندروں میں تبدیلی بی جے پی کی جانب سے بھارت کی تاریخ دوبارہ رقم کرنے کی کوشش ہے۔کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست بہار میں شرپسند ہندوؤں نے علاقے کی مسجد پر اپنا بھگوا جھنڈا لہرایا اور مدرسہ ضیاء العلوم میں بھی توڑ پھوڑ کی اور آ گ لگا دی جس سے کشیدگی پیدا ہوگئی۔ علاقے میں انٹر نیٹ سروس معطل اور دفعہ 144نافذ کردی گئی۔متاثرہ شہروں میں پویس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ بہار کے اورنگ آباد، بھاگلپور کے بعد اب سمستی پور ضلع میں کشیدگی کے بعد پولیس کے دستے کثیر تعداد میں تعینات کردیئے گئے۔ سمستی پور میں رسوڑا شہر کے گدری بازار میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران جھڑپ میں ایس ایس پی سنتوش کمار اور انسپکٹربی این مہتہ سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر