... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کٹھ پتلیاں حرکت میں ہیں۔ بجوکے میں جان نہیں پڑ رہی۔ گھاس پھوس ، روح کا متبادل کیسے بن سکتا ہے؟ یہ تو زیست کے فطری قانون کے خلاف ہے۔
مقتدر جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔ لیلائے اقتدارکو اغوا کرنے پر تُلی ہیں۔ مگر عوام کے غضب ناک تیوروں اور اقتدار کے نئے گورکھ دھندوں سے خوف زدہ بھی ہیں۔ گلی محلوں کی سرگوشیوں نے پریشان کر رکھا ہے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سیاسی نہیں، اب اقتدار کی راہداریوں میں منڈلانے والی جماعتیں رہ گئیں۔ جن کا چولہا چوکا اور دانہ دُنکا موثر حلقوں کی بخشش پر منحصر ہے۔یہ جبر کی مسموم طفیلی بیلیں ہیں، قومی شجرِ حیات کی ڈالی ڈالی کھانے پہ تُلی ہیں۔ گھاگ عورتوں کی طرح بھاؤتاؤ کو اب سیاست کہتی ہیں۔ دونوں جماعتیںایک دوسرے سے بڑھ کر اقتدار کی بیلوںسے رس کشیدنے پر مُصر تھیں۔ انتہائی پُرکاری سے پیپلزپارٹی نے خبر اڑائی کہ وہ اقتدار میں شرکت کے لیے تیار نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ سودے بازی کی چال تھی۔ مسلم لیگ نون پر دو دن تک لرزہ طاری رہا۔ اس دوران میں کہیں سے ”سمجھ بوجھ” کی غیبی مدد آئی تو پیپلزپارٹی کی چالبازی کا رازکھلا۔ نون لیگ نے بھی نہلے پہ دہلا مارا۔ خبر اڑائی کہ جماعت کے اندر مرکزی حکومت لینے پر تقسیم ہے۔ صرف پنجاب حکومت پر اکتفا کرنا چاہئے۔ دونوں جماعتوں کے پیچھے کھیلنے والے بھی اپنے اپنے اعصاب کے امتحان میں تھے۔ اس دوران پس پردہ لوگ حرکت میںآگئے۔ مہروں کو باور کرایا کہ
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرئہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ!
مہرے شاطر کی مرضی سے حرکت میں آنے لگے۔ بظاہر تاثر یہ ملا کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا پانچواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔حقیقت کچھ اور ہی تھی۔انتہائی خاموشی سے معاملات طے کرانے والے طے کرا رہے تھے۔ حکومت سازی کے لیے رابطہ کمیٹیوں کے اجلاس کے بالکل متوازی طور پر اصل بات چیت جاری تھی۔ پارلیمنٹ لاجز میں اسحق ڈار کی رہائش گاہ پر پانچویں دور کے بعد چھٹا دور بھی پیر کی شب ہونا طے تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کا وفد رات گئے نہیںپہنچا۔ اطلاع یہ کردی گئی کہ اگلا دور منگل کو ہوگا۔ بنیادی باتیں طے ہو گئیں۔ اجلاس محض رسمی کاررائیوں کا حصہ ہے۔ صدر مملکت کا منصب آصف علی زرداری کو دے دیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ اسپیکر کا منصب پیپلزپارٹی کے پاس رہے گا مگر چیئر مین سینیٹ مسلم لیگ نون کا ہوگا۔ یہاںنون لیگ کے اندر ایک کھیل جاری ہے۔ اعظم نذیر تارڑ کو باور کرایا گیا وہ چیئر مین سینیٹ ہوں گے، مگر درون خانہ طے ہے یہ منصب اسحق ڈار کو دیا جائے گا۔ اسحق ڈار کی پچھلی وزارت خزانہ پر شدید تحفظات ہیں۔ شہباز شریف بھی ان سے فاصلہ رکھنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کا منصب ہی باقی رہ جاتا ہے، جو آصف علی زرداری کے ساتھ کسی ”اتفاق” کی صورت میں زیادہ پرکشش بن جائے گا۔پیپلزپارٹی نے ”عیارانہ” روش کا چال چلن جاری رکھا۔ جب وفاقی حکومت سے دور رہنے کا اعلان کیا تب ہی زیادہ وزارتوں کے مطالبے کے ساتھ نون لیگ سے مذاکرات کر تی رہی۔ چھ وزارتیں مانگیں، مگرنون لیگ چار پر اکتفا کرنے کے لیے اِصرار کرتی رہی۔ یہ معاملہ بھی تقریباً طے ہو گیا۔ پیپلزپارٹی اعلان تو یہ کر رہی تھی کہ وفاق میں وزارتیں نہیں چاہئے ، مگر پنجاب میں بھی تین وزارتیں لے اڑی۔ چاروں گورنرز کے معاملات بھی نمٹا دیے گئے۔ ایم کیوایم پنجابی محاورے کے مطابق ”لورلور” پھر رہی ہے۔ مطالبات کی فہرست طویل اور امیدوںکی فہرست طویل تر تھی۔ وہ بھی جانتے ہیںا ور دینے والے بھی کہ اوقات ایک نشست کی بھی نہیں۔ چنانچہ زیادہ وزارتوں کے مطالبے کو پزیرائی نہیں ملی۔ اب دووزارتوں اورسندھ کی گورنر شپ پر اِصرار ہے۔ ابتدائی ذہن واضح کر دیا گیا۔ درون خانہ طے ہوا ہے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ اکٹھے رہیں گے تاکہ چھوٹی جماعتوں کو سراُٹھانے کا موقع نہ ملے ۔ ایم کیوایم کے پاس تو سر ہے ہی نہیں ،اُٹھائیں گے کہاں؟ یہاں پیپلزپارٹی کو للکارنے اور حکومت سازی کے لیے بھیک نہ مانگنے کا باربار اعلان کرنے والے مصطفی کمال کو چپ لگی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں بھی منہ مارنے کے لیے بے تاب ہیں۔ سب جانتے ہیں ، مہربانیاں ہمیشہ نہیں رہتیں اور” اونچی بارگاہوں” کی ”کرم نوازی” کے بغیر دوبارہ کسی انتخاب میںاُبھرنے کا شاید کبھی موقع نہ ملے۔ استحکام پاکستان پارٹی پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر کے وعدے پر مطمئن کی گئی ، دیکھنا ہے، ایسا ہوسکے گا یا نہیں۔ نون لیگ اتحادیوں کے حوالے سے وعدوں کی کوئی قابل اعتبار تاریخ نہیں رکھتی۔
نون لیگ ،پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم او راستحکام پاکستان پارٹی کی دھاندلی اور بے شمار انتظامی اقدامات کی چھینا جھپٹی سے ہاتھ کیے نتائج پر بندربانٹ جاری ہیں۔ 8 فروری 2024 کے حقیقی انتخابی نتائج سے یہ جماعتیںکوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے مینڈیٹ پر ہاتھ صاف کرکے تحریک انصاف کو ہی تلقین کی جارہی ہے کہ وہ ”شائستگی” کے تیور اپنائیں۔ 80سے زائد نشستوں کے ہیرپھیر سے اقلیت پر اکثریت کی ملمع کاری کرکے حکومت سازی کے لیے سازگار ماحول دے دیا گیا ۔ اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804 کی ”مجبوری” میںپی ڈی ایم پارٹ ٹو کی تمام جماعتوں کے بھیانک ماضی فراموش کر دیے گئے ۔میمو اسکینڈل سے ڈان لیکس تک اور سرے محل سے پارک لین اپارٹمنٹس تک دہکنے والے تمام الاؤ ٹھنڈے پڑ گئے ۔”اینٹ سے اینٹ بجانے” اور ”جواب دینا پڑے گا” کے تمام حساب نذر آتش ہوئے۔ لوٹ مارکے پرانے کھاتے بھی طاقِ نسیاں پر ہیں۔ کراچی میں تیس ہزار لاشوں کو بھی بھول چوک سمجھ کر بُھلا دیا گیا۔ بس ایک بات یاد ہے اور وہ ہے اڈیالہ جیل کا قیدی نمبر 804۔8 فروری کے انتخابی نتائج کے بعد نوازشریف ، آصف زردرای ، خالد مقبول صدیقی اور علیم خان کو کسی کونے کھدرے میں جاکر عوامی نفرت کے اسباب پر غور کرنا چاہئے تھا۔ اپنی شرمناک کتاب ماضی کے تمام اوراق کو کھولنا کھنگالنا چاہئے تھا۔ اپنی ناکامیوں کے محرکات پر غور کرنا چاہئے تھا۔ حقیقی مینڈیٹ کو راستہ دینا چاہئے تھا۔ مگر یہ سب کیا کر رہے ہیں۔ لوٹ کے مار کی بندر بانٹ میں لگے ہیں۔ ملک بحرانوں کے گرداب میں ہیں۔ اندرونی و بیرونی سطح پر تہہ بہ تہہ مسائل سر اُٹھا رہے ہیں۔ ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ معاشرتی تار پود بکھر رہے ہیں۔مگر نوازشریف کی ترجیحات کا اندازا لگائیں۔ جناب مری تشریف لے گئے ہیں۔ جہاں کسی لمحے آصف زرداری بھی تشریف لے جائیں گے اور پھر ایک نئی حکومت کا اعلان کردیا جائے گا۔ افسوس ملکی پارلیمان کو جاتی امراء او ربلاول ہاؤس سمجھنے کی زہریلی سوچ ختم نہیں ہو رہی۔کبھی یہ لوگ سیاسی جماعتیں رکھتے تھے، اب یہ جماعتیں شریف خاندان کی پرائیوٹ کمپنی اور زرداری کی جیب کی کارستانی بن گئی ہیں۔ کبھی یہ سیاست دان تھے، اب بجوکے لگتے ہیں۔ جنہیں کسی حکم پر حرکت کرنا ہے۔ پھر نوازشریف ، آصف زرداری اور مصطفی کمال میںکیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ حکومت تو ابھی کل بنے گی مگر ان کا مستقبل تو آج ہی بتایا جا سکتا ہے۔
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا