... loading ...
رفیق پٹیل
سیاسی نیم مردہ اور عوام میں غیر مقبول حکومت کی جس طرح تشکیل کی کوشش کی جارہی ہے اس کی مماثلت ا فغانستا ن کے اشرف غنی کی طرز کی حکومت ہوگی، ایسی کوئی بھی مسلط کردہ حکومت اپنے قیام سے پہلے ہی الیکشن چور کا تمغہ سجا کر آئے گی جس طرح اشرف غنی اپنی حکومت کے اختتام پر ڈالروں کی بوریوں سے بھرے ہوئے جہاز کے ہمراہ افغانستان سے فرار ہوگئے تھے ۔یہاں بھی ایسی ہی بھگڈ ر مچے گی بلکہ یہ حکومت اس سے بھی بد ترہوگی ۔ افغانستان میں اربوں ڈالر کی بارش کے باوجود تجربہ ناکام ہواتھا ۔پاکستان کے معاشی حالات کی خرابی کی نسبت سے اس کی مثال کچھ یوں ہوگی جیسے ایک سیا سی لاش تخت پر رکھ دی گئی ہو اور اس کی بد بو معاشرے میں ہر طرف پھیل رہی ہو۔
موجودہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن نے یہ اعلان کردیا تھا کہ ان کی ا وپر بات ہوگئی ہے ا ور اقتد ا ر انہی کے حوالے کیا جائے گا ۔یہ تا ثر عام کردیا گیاکہ نوازشریف کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے جس ا ند ا ز سے اکتوبر 2023 میں ایک بادشاہ کی طرح نواز شریف کی لند ن سے واپسی ہوئی ۔تیز رفتاری سے ان کے مقد ما ت ختم ہوئے ۔اس سے بھی یہ تاثر عام ہوگیا کہ نواز شریف ہی ملک کے وزیر ا عظم ہونگے جس طرح کا پروٹوکول انہیں دیا گیا تھا اور جس طرح سرکاری مشینری ان کے لیے جلسے جلوس کا ا ہتمام کررہی تھی، اس سے یہی محسوس ہورہا تھا کہ وہی ملک کے وزیر اعظم بن جا ئیں گے۔ مسلم لیگ نے ”ملک کو نواز دو” کا نعرہ لگایا۔ انتخابات سے دو روز پہلے تمام اخبارات میں پورے صفحہ اول پر یہ اشتہارات لگائے گئے کہ ” نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ” یعنی دوسرے الفاظ میں ہر جگہ لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ا نتخابات کے نتائج مسلم لیگ ن کے حق مین طے کرلیے گئے ہیں ۔اس طرح پی ٹی آئی کے لوگوں میں ما یوسی پھیلا نے کی کوشش کی گٰئی کہ ان کے ووٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ تاکہ وہ انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے باہر نہ آئیں۔ مسلم لیگ ن کو اطمینان تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کرچکی تھی۔ عمران خان کو 31سال شاہ محمود قریشی کو 10سال بشریٰ بی بی کو 7سال کی سزادی جا چکی تھی۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی انتخابی نشان بھی نہیں تھا۔ بے شمار کارکن جیلوں میں بند تھے حتیٰ کہ کوئی پی ٹی آئی کا جھنڈا بھی اٹھا کر نکلتا تھا ،ا سے بھی گرفتا ر کرلیا جاتاتھا۔ پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ کے سوا کہیں بھی انتخابی مہم نہ چلاسکی تھی۔ خیبر پختون خواہ میں بھی کئی مقامات پر رکاوٹوں کا سامنا ہوا۔ پولیس سے تصادم بھی ہوا لیکن ہر جگہ عوام کی بڑی تعداد کے باہر آنے کی وجہ سے انتظامیہ نے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دی۔ تاکہ کوئی بڑا تصادم نہ ہو ۔پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیے جانے کے بعد پی ٹی آئی عملی طور پر تحلیل ہوگئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی نے ان آزاد امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ کیا جو اس کے اپنے کارکن تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے بے شمار امید واروں سے کاغذ ا ت نامزدگی چھین لیے گئے۔ انتہائی مشکلات اور رکاوٹوں سے کاغذ ات جمع ہوئے ۔اس کے بعد ریٹرننگ افسران نے انہیں مسترد کردیا۔ مسترد ہو نے والے امید واروں نے عد ا لت سے رجوع کرکے منظوری حاصل کی۔ ٹیلی ویژن پر تحریک انصاف پرپابندی لگادی گئی۔ جس کے بعدپی ٹی آئی نے اپنی ڈیجیٹل آن لائن مہم کا سہارا لیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ووٹروں سے رابطہ کیا۔
یہ وہ حالات تھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو گھروں سے نہیں نکا ل سکے گی۔ ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں ہے۔ پولنگ ایجنٹ نہیں ہیں ۔وہ کیمپ نہیں لگا سکتے۔ پولنگ کے روز ا نٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو ان کے پولنگ اسٹیشن کے با رے میں علم نہ ہوسکے۔ بے شمار ایسے گھرانے تھے جہاں ایک گھر کے چار افراد کے لیے علیحدہ علیحدہ اور دوردراز علاقوں میں پولنگ ا سٹیشن تھے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر مسلم لیگ ن کو پوری امید تھی کہ مسلم لیگ ن کو ایک سو تیس کے قریب نشستیں مل جائیں گی اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار تیس سے پینتیس نشستیں حاصل کریں گے لیکن پولنگ مکمل ہونے کے بعد جب نتائج آنا شروع ہوئے تو ہر جگہ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جیت رہے تھے جس نے سب کو حیران کرد یا ۔لیکن رات دس بجے کے بعد انتخابی نتائج کی ترسیل روک دی گئی جب کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ رات دو بجے تک ہر صورت انتخابی نتائج مکمل کرلیے جائیں گے لیکں انتخابی نتائج میں اڑتالیس گھنٹوں کی تا خیر ہوگئی۔ دو سرے دن سے انتخابی نتائج کے رجحان میں تبدیلی کا دنیا بھر نے نوٹس لیا اور پی ٹی آئی سمیت کئی جماعتوں نے نتائج میں بڑے پیمانے پر ہیراپھیری کا الزام عائد کیا ابتدائی نتائج کو سننے کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد مسلم لیگ ن کے صدر دفتر سے نکل کر اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ چلے گئے یعنی ا بتد ا میںان کا یہ قدم اعتراف شکست کے مترادف تھا۔
بعد ازاں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد وہ دوبارہ مسلم لیگ ن کے دفتر آئے اور وہاں سے خطاب کے دوران نوازشریف نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کا نام سامنے آیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نواز شریف کی حکومت تشکیل پانے سے پہلے ہی ختم ہوگئی ۔اب ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ نواز شریف کو ہی وزیر اعظم بنادیا جائے۔ اگر وہ یا کوئی بھی وزیر اعظم بن بھی جاتے ہیں تو ان کو خود اندرونی طور پر اطمینان نہ ہوگا ۔وہ مردہ دلی سے بادل نخواستہ حکمران بن کر سامنے آئیں گے۔ انتخابات کے حقیقی نتائج ان کا پیچھا کرتے رہیں گے اور ان کے حواس پرطاری رہیں گے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک ان کی کوئی پزیرائی نہ ہوگی ان کے ارد گرد کے لوگ بھی پیٹھ پیچھے انہیںجو کہیں گے شاید انہیں اس کا بھی اندازہ ہوگا ۔ اس طرح کا جعلی انتظام ملک کوکسی صورت مستحکم نہیں کر سکے گا اور دشمن اس کا بھر پور فائدہ اٹھائے گا۔ جھوٹ پر تعمیر کردہ عمارت اتنی کھوکھلی ہوگی کہ وہ مکمل ہونے سے پہلے گر چکی ہوگی ۔اس منہدم ڈھانچے کو عمارت کا نام دے کر بعض عناصر ا پنی ذات کی تسکین کر سکتے ہیںلیکن وہ ملک میں بہتری نہیں لاسکتے ۔یہ تمام عمل معاشرے میں جاری اخلاقی زوال میں مزید اضافہ کرے گا۔ پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا ہے کہ” ملک کے تمام پریزائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران میڈیا کے سامنے حلف اٹھائیںاور اعلان کریں کہ ہمارے دیے گئے فارم 45 غلط ہیں اور ان کے آرو کے فارم 47 صحیح ہیں تو ہم شکست تسلیم کرلیں گے دیگر صورت پریزا ئیڈ نگ افسران کے دستخط شدہ فارم کے مطابق نتائج کا اعلان کیا جائے ”۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عدم استحکام کی صورت سے باہر آئے اور ملک میں انتخابی عمل،عدلیہ اور دیگر اداروں کی ساکھ کی بحالی ہو، عوام کو کچلنے کاعمل ریاست پاکستان کو مزید کمزور کردے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔