... loading ...
سمیع اللہ ملک
امریکاکے صدرجمی کارٹرنے1980میںاسٹیٹ آف یونین خطاب کے دوران کہاتھا”اگرکسی بیرونی طاقت نے خلیج فارس کاکنٹرول سنبھالنے کیلئے کسی قسم کی مداخلت کی تو امریکا مشرق وسطیٰ میں تیل کی آزادانہ نقل وحمل کی حفاظت کیلئے اس کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا”۔کارٹراوران کے جانشینوں نے اس وعدہ کوہمیشہ نبھایاہے۔قصرسفیدکادعویٰ ہے کہ امریکا نے نہ صرف خطے میں موجودامریکی فوج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیابلکہ عراق کے صدام حسین کوتیل کی سپلائی لائن پر قبضے سے روکنے کابہانہ بناکرجنگ خلیج میں بھی حصہ لیتے ہوئے عراق کوتاراج بھی کردیا۔اگرچہ خلیج فارس میں امریکاکے دیگربھی کئی مفادات تھے جن میں جوہری پھیلاؤکی روک تھام،انسداد دہشت گردی اورجمہوریت کافروغ شامل ہیں لیکن امریکاکا سب سے اہم مفادتیل کی ترسیل کوبغیررکاوٹ جاری رکھناتھاجبکہ وقت نے امریکی بیانیے نے یہ ثابت کردیاکہ اس خطے میں امریکاکی موجودگی اپنے مخصوص مفادات ورلڈآرڈرکے تابع ہیں،باقی سب بہانے ہیں۔
خلیج فارس سے امریکاکی اس وابستگی پراسے کبھی کسی بڑی مخالفت کاسامنا نہیں کرناپڑا۔حتی کہ وہ لوگ بھی جوامریکاکے یورپ اورایشیامیں مختلف اتحادوں کے مخالف رہے ہیں اوران اتحادوں کوملکی معیشت پربوجھ قراردیتے رہے ہیں،انہوں نے بھی ہمیشہ اس بات سے اتفاق کیاہے کہ امریکا کوخلیج فارس کی حفاظت کاذمہ اپنے سررکھناچاہیے کیونکہ دنیاکے ایک تہائی تیل کی پیدواراس خطے سے ہوتی ہے۔لیکن اب دنیا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔سردجنگ کے دوران خطے میں امریکی مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ سوویت یونین تھا۔ امریکی پالیسی سازپریشان تھے کہ اگرسوویت یونین تیل کی ترسیل کومنقطع کرنے میں کامیاب ہوگیا،توتیل وگیس پرانحصارکرنے والی امریکی فوج یورپ میں کوئی بڑی جنگ نہ جیت سکے گی۔لیکن سوویت یونین کے خاتمے نے تیل کی سپلائی کے حوالے سے امریکی مفادکی نوعیت کوتبدیل کردیا۔جہاں قومی سلامتی اورخوش حالی دونوں کاانحصار خلیج فارس کی حفاظت پرہواکرتاتھا،اب اس کاتعلق صرف خوشحالی سے رہ گیاجس نے امریکاکی پالیسی پرگہرے اثرات مرتب کیے۔قومی سلامتی کے عنصرکی عدم موجودگی نے خلیج فارس میں فوج کی مداخلت بڑھادی،کیونکہ زیادہ ترامریکی معاشی مفادات کے دفاع کیلئے فوج کومشکلات میں ڈالنے کوبرانہیں سمجھتے۔تویہاں سوال اٹھتاہے کہ کیاخلیج فارس کا تیل اتناقیمتی ہے کہ اس کا دفاع امریکی فوجی قوت کے ذریعے کیاجائے؟
اس سوال کاجواب حاصل کرنے کیلئے مزیدچارسوالوں کے جواب حاصل کرنے ہوں گے۔اول یہ کہ اگرامریکاخلیج فارس سے اپنی وابستگی ختم کردیتاہے تواس بات کاکتناامکان ہے کہ خلیج فارس سے تیل کے بہاؤمیں کوئی بڑی رکاوٹ پیداہوگی؟دوم،اس رکاوٹ کاامریکی معیشت پرکتنااثرپڑے گا؟سوم،امریکاخلیج فارس سے تیل کے بہاکی حفاظت پرکتنے فوجی اخراجات اٹھاتاہے؟ آخری یہ کہ خلیج فارس کی حفاظت کیلئے غیرفوجی متبادل ذرائع کیاہوسکتے ہیں اوراس پرکتنے اخراجات ہوں گے؟ان سوالات کے جوابات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے نظام کی حفاظت پرآنے والی لاگت،اس سے حاصل ہونے والے فوائدکے برابرپہنچ گئی ہے اوراس بات کاقوی امکان ہے کہ یہ لاگت اس پالیسی سے حاصل ہونے والے فوائد سے بھی بڑھ جائے گی۔سویہ وہ وقت ہے جب امریکاکوخلیج فارس سے فوجی وابستگی ختم کرکے ایسے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جوتیل کی ترسیل میں رکاوٹ کی صورت میں امریکی معیشت کوسہارادے سکیں۔ایک دہائی یااس سے کچھ زیادہ وقت میں جب یہ خطہ آج سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوچکا ہو گاتوامریکاکواس مقام پرہوناچاہیے کہ وہ خلیج فارس سے فوجی وابستگی مکمل طورپرختم کردے۔
موجودہ پالیسی کاصحیح جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی دورکرلی جائے۔سیاستدان اورتجزیہ نگاراکثریہ بات کہتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ تیل کے ترسیلی نظام میں آنے والی کسی رکاوٹ کے خطرے سے بچنے کیلئے امریکاکوتیل کی پیداواربڑھانی ہوگی تاکہ درآمدی تیل پرانحصارکم سے کم ہویعنی توانائی کے شعبے میں خودمختارہو۔یہ دلیل بنیادی طورپرتیل کی عالمی منڈی کے نظام کی ناسمجھی کوظاہرکرتی ہے کیونکہ قابل مبادلہ اجناس کی تجارت میں خودمختاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔دراصل تیل کی خریدوفروخت عالمی منڈی میں ہوتی ہے ، اس لیے امریکامیں اس کی قیمت دنیابھرمیں تیل کی قیمتوں سے جڑی ہوئی ہے۔تیل کی عالمی منڈی کی مثال ایک پانی کے ٹب کی سی ہے،جس میں پانی ڈالنے کیلئے بہت سے نل لگے ہوئے ہیں اوراس کی نکاسی کیلئے بھی بہت سی نالیاں ہیں۔اس لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ کسی ایک نل سے کتناپانی آتاہے اور کسی خاص نالی سے کتناپانی بہتاہے۔ رسد اورطلب کی بنیاد پرانحصارکرنے والی تیل کی منڈی میں زیادہ اہمیت تیل کی رسد کی ہے کیونکہ اگر تیل کی رسدتیزی سے کم ہوتی ہے توٹب سے پانی حاصل کرنے والے تمام صارفین ہی متاثر ہوں گے۔اس لیے اگرامریکاکی خلیج فارس سے تیل کی درآمد صفربھی ہوجاتی ہے،توبھی خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی سپلائی متاثرہونے کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں آنے والی تبدیلیوں سے امریکابھی متاثرہوئے بنانہیں رہ پائے گا۔
یہ توسوچاجاسکتاہے کہ امریکاکے خطے سے نکل جانے کی صورت میں تیل کی سپلائی کس طرح متاثرہوسکتی ہے لیکن ان سوچے جانے والے آپشنزمیں سے قابل عمل کوئی بھی نہیں لگتا۔ ایک امکان جس پرغورکیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ اگرکوئی خلیجی ملک اپنے پڑوسی ممالک پرقبضہ کرکے خطے میں موجودتیل کے بیشترذخائرپرقبضہ کرلیتاہے توپھرتیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتاہے اورایساکوئی بھی اقدام تیل کے بڑے صارفین جیسے برطانیہ اورامریکاکی طاقت کوچیلنج کرنے کے برابرہوگالیکن یہ آپشن کسی طورپرممکنات میں سے نہیں،کیونکہ خطے میں اتنی طاقت رکھنے والا کوئی ملک نہیں ہے۔عراق امریکی حملے کے بعدسے تباہ ہوچکاہے اورابھی بھی انارکی کی لپیٹ میں ہے۔ایران کومغربی پابندیوں نے کمزورکرکے رکھ دیاہے اوراس کے رہنمااندورنی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔سعودی عرب کویمن میں جنگ میں پھانس کراپنے مقاصدحاصل کرنے بعدکے نتائج سے فوائدسمیٹ لیے گئے ہیں اوربآلاخرسعودیوں نے بھی اس کرب سے نجات حاصل کرنے کیلئے خاطرخواہ اقدامات اٹھالیے ہیں اوراب وہ بھی خطے کوفتح کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
دوسری فرضی صورتحال جس پرغورکیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ خطے پرکنٹرول حاصل کرنے کی بالواسطہ جنگ سے خلیجی ممالک افراتفری اورانارکی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اوربنیادی انفرا سٹرکچرتباہ ہوسکتاہے جس سے تیل کی سپلائی بذریعہ بحری جہازمتاثرہوسکتی ہے۔لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں جواس فرضی صورتحال کوحقیقت کاروپ دینے میں رکاوٹ ہیں۔خطے میں کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جواپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے اتنی بڑی جنگ کاخطرہ مول لے۔ہوسکتاہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ بھی آسان کام نہیں۔ایران اورسعودی عرب ایک دوسرے کو نشانہ بناسکتے تھے لیکن ان دونوں کوخلیج فارس نے ایک دوسرے سے الگ رکھاہواہے اورویسے بھی چین ان دونوں کے درمیان مفاہمت کے پل کاکرداراداکررہاہے۔
عراق اندرونی تقسیم اورایران کے ساتھ سرحدلگنے کی وجہ سے نسبتاًزیادہ غیرمحفوظ ہے،لیکن ایران کوخودبے شمارچیلنجوں کاسامناہے اوراس بات کاقوی امکان ہے کہ وہ امریکاکے عراق پرحملے کی صورت میں پیش آنے والی مشکلات سے بہت کچھ سیکھ چکاہے۔اس کے علاوہ تیل کے ذخائرکابنیادی انفراسٹرکچراس قابل ہے کہ شدیدجنگ کے دوران بھی کام دیتارہے،جس کی واضح مثال1980کی ایران،عراق جنگ ہے،جب شدیدجنگ کے دوران بھی تیل کی سپلائی کم ضرورہوئی لیکن جاری رہی اور جنگ بندی کے کچھ ہی عرصے میں تیل کی قیمتیں دوبارہ مستحکم ہوگئیں۔ مہارت کی بناپرملک کی فوج بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اعلی مہارت کی حامل بن چکی ہے۔یہی وہ سب وجوہات ہیں جنہوں نے بروقت سعودی عرب کوعرب بہارکے اثرات سے بچائے رکھاہے۔مزیدیہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں اگر کوئی نئی طاقت اقتدارسنبھالتی ہے تواسے بھی تیل کی پیداوارکوجاری رکھناہوگاکیونکہ ملک کی معیشت مکمل طورپرتیل کی پیداوار پر انحصار کرتی ہے۔اگرامریکاخلیج سے اپنی کمٹمنٹ ختم کرتاہے توبھی وہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کیلئے اس کی فوج کوتربیت دینے کاعمل جاری رکھ سکتاہے۔
تیل کی سپلائی میں کسی قسم کی رکاوٹ کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئیاں کافی خطرناک ہیں۔ حالیہ اعدادوشمارکے مطابق تیل کی عالمی پیداوار میں ایک فیصدکمی سے تیل کی عالمی قیمتوں میں8 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ان اعدادوشمارکوسامنے رکھاجائے توایک لاکھ بیرل یومیہ تیل اگرکسی رکاوٹ کی وجہ سے کم سپلائی ہوتاہے، تو اس کامطلب ہے کہ سعودیہ کی برآمدات صفرہوجاتی ہے یاآبنائے ہرمزسے تیل کی سپلائی60فیصد کم ہوجاتی ہے،توتیل کی عالمی قیمتیں دگنی ہو جائیں گی۔دنیانے ابھی تک ایسی کسی رکاوٹ کاسامنانہیں کیا،لیکن ایساہونے کی صورت میں نقصان کااندازہ لگانامشکل ہے اور قیمت میں اس بھی زیادہ اضافہ ممکن ہے۔تیل کی قیمتوں کاامریکاکی معیشت پربھی گہرا اثر پڑے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تیل کی قیمت دگنی ہونے کی صورت میں امریکاکی مجموعی ملکی پیداوارمیں3فیصدکمی آئے گی،جوکہ تقریبا550/ارب ڈالربنتی ہے اورکسی بڑی رکاوٹ کی صور ت میں جیسے کہ آبنائے ہرمزسے تیل کی سپلائی مکمل طورپربندہونا،تواس کے نقصانات بھی اتنے ہی خطرناک ہوں گے۔لیکن اس کے حقیقی اثرات امریکاپرنہایت کم ہوں گے۔کیونکہ ایسی صورت میں امریکااپنے پیٹرول کے ذخیرے کااستعمال کر سکتاہے۔اس کے علاوہ قیمتوں کوکنٹرول کرنے کیلئے زیرزمین ذخائرکااستعمال بھی کرسکتاہے۔ایک اندازے کے مطابق700ملین بیرل تیل اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرومیں موجودہے۔اس کے علاوہ چارارب بیرل سے زائد تیل عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک کے پاس بھی موجودہوتاہے۔(یہ تنظیم1974میں قائم کی گئی،جس کامقصددنیابھرمیں تیل کے بحران کی صورت میں مل کراس کامقابلہ کرناتھا)۔آبنائے ہرمزسے اگر ہاں سے4۔4ملین بیرل تیل یومیہ نکالے گااوراسی طرح عالمی توانائی ایجنسی کے ارکان ممالک بھی8۔5ملین بیرل یومیہ اضافی تیل اپنے ذخائر سے نکال سکتے ہیں۔ چین جوکہ عالمی توانائی ایجنسی کارکن نہیں ہے،لیکن وہ بھی اپنے ذخائرکااستعمال کرسکتاہے،چین اپنی درآمدکے حساب سے90دن کے ذخائررکھتاہے۔یہ تمام اعدادوشماراس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ خلیج فارس سے تیل کی سپلائی میں کسی بڑی رکاوٹ کی صورت میں دنیااگرباہمی طورپرکوئی لائحہ عمل اپنائے تووہ یومیہ ہونے والے نقصانات کاازالہ کر سکتی ہے۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے معاشی فوائداورنقصانات کاجائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے وہاں رہنے پر آنے والے اخراجات کاجائزہ بھی لیاجائے۔وہاں بھاری اخراجات توامریکی جنگی جہازوں کوفعال رکھنے پرآتے ہیں۔سردجنگ کے خاتمے کے بعدسے پینٹاگون نے ایک وقت میں دودشمنوں سے مقابلے کی جوحکمت عملی بنارکھی ہے اس میں سے ایک دشمن کوہمیشہ خلیج فارس میں سمجھ کرمنصوبہ بندی کی جاتی ہے۔دومحاذوں پرلڑنے کی حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی کہ کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ امریکاکسی ایک محاذ پر اتناپھنس جائے کہ موقع پرست دوسرے محاذ سے حملہ کرکے فائدہ اٹھالیں۔اگرامریکاخلیج فارس میں جنگ کی تیاری کی حکمت عملی کوترک کرتاہے تواس کے پاس دوآپشن بچتے ہیں ،ایک یہ کہ وہ دو دشمنوں سے ایک وقت میں لڑنے والی حکمت عملی جاری رکھے لیکن وہ دوسرادشمن کسی اورخطے میں ہو،دوسرایہ کہ وہ ایک وقت میں ایک جنگ کی حکمت عملی اختیارکر لے لیکن اس حکمت عملی میں خلیج فارس سے زیادہ خطرناک کوئی خطہ نہیں جہاں اس حکمت عملی کے تحت موجودگی برقراررکھی جاسکے۔
خلیج فارس میں امریکی فوج پرآنے والے اخراجات کاصحیح اندازہ لگانامشکل ہے،کیونکہ وہاں موجود فوج اوربھی کئی جگہوں پراستعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگرامریکا ایک جنگ کی حکمت عملی اپناتاہے توایک اندازے کے مطابق سالانہ 75ارب ڈالرکی بچت ہوگی جوکہ دفاعی بجٹ کا15فیصدبنتاہے۔فوجیوں کی تعدادمیں کمی،جنگی جہازوں کی تعدادمیں کمی اور اسلحہ کی مقدارمیں کمی لاکریہ رقم بچائی جا سکتی ہے لیکن امریکا کی خلیج سے وابستگی صرف فوجیوں کی تعدادمیں کمی تک محدودنہیں۔اس خطے میں امریکاتیل کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بالواسطہ یابلاواسطہ کئی جنگیں لڑچکاہے،جن کی بھاری قیمت چکائی ہے۔امریکانے خلیج کی جنگ میں حصہ لیاتوبنیادی مقصدتیل کی سپلائی جاری رکھنا تھا۔اگرچہ امریکی بیانئے کے مطابق عراق جنگ تیل کیلئے نہیں لڑی گئی لیکن وقت نے ثابت کردیاکہ یہ صرف دنیاکودھوکہ دینے کیلئے تھااور پالیسی سازوں کے ہاں عراق میں استحکام اورجمہوریت کی جوتڑپ نظرآتی تھی اس کی بنیادی وجہ وہاں موجودتیل کے ذخائر ہی تھے۔اس لیے اب خلیج سے وابستگی ختم کرنے کے نتیجے میں نہ صرف ڈالربچیں گے بلکہ قیمتی جانوں کاضیاع بھی رک جائے گاکیونکہ اب خطے کے ممالک امریکی دھوکے کوسمجھ چکے ہیں۔
اس ساری بحث کے اختتام پریہ سوال اٹھتاہے کہ خلیج فارس سے نکلنے والے تیل کی حفاظت کیلئے فوج کے استعمال کامتبادل کیا ہو سکتا ہے؟ اگر تیل کی رسدمیں آنے والی رکاوٹ سے نمٹنے کیلئے فوج کااستعمال ہی بہترآپشن ہوتاتوآج اس پالیسی کادفاع کرنے والے بہترپوزیشن میں ہوتے۔درحقیقت امریکابہت سے غیرفوجی ذرائع استعمال کرکے اس سپلائی کی حفاظت کویقینی بنا سکتاہے۔ایک طرف توامریکاتیل کے اپنے تزویراتی ذخائرمیں اضافہ کرسکتاہے۔مثال کے طورپراگرامریکااپنے(سٹریٹجک پٹرولیم ریزرو) میںفیصدکا اضافہ کرتاہے تووہ
تیل سپلائی میں آنے والے کسی بڑے تعطل کی صورت میں عالمی طلب کومزیدچندماہ پورا کرسکتاہے۔اوراس کام کیلئے اسے دس سے چالیس ارب ڈالرخرچ کرنے پڑیں گے جووہ متاثرہ ممالک سے وصول کرسکتاہے۔
امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے پٹرول فروخت نہ کرنے کااعلان کردیا تھاجس کے بعددنیامیں ایک بھونچال آگیاتھا۔اس دن کے بعدایک خاص حکمت عملی کے تحت امریکی معیشت میں تیل کاحصہ کم کرنے کے اقدامات شروع کردیئے گئے لیکن ابھی تک مکمل طورپرپٹرول کانعم البدل ڈھونڈنہیں پائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکااوریورپ نے ایسے پالیسیوں کااجراضرورکیاہے کہ معیشت پرتیل کی تبدیل ہوتی قیمتوں کااثرنہ پڑے۔امریکامیں نقل و حمل کاشعبہ70فیصد تیل استعمال کرتاہے،اس لیے اس شعبہ پرخصوصی توجہ دینے کے عمل کارحجان بڑھ رہاہے۔جار ج بش سے لے کراوباماتک تمام صدور نے اس معاملے پر خصوصی توجہ دی لیکن ٹرمپ کے اقدامات نے نہ صرف اس خطے کوبلکہ دنیاکوتباہی کے کنارے لاکھڑاکیا۔دفاعی اورمعاشی ماہرین اب بھی ان خطرات سے بچنے کیلئے جارحانہ پالیسیوں سے گریزکا مشورہ دیتے ہوئے وائٹ ہاس کومتنبہ کیاکہ ممکنہ خطرات سے بچنے کیلئے امریکااوراس کے اتحادیوں کوہنگامی بنیادوں پرتیل کی کھپت کوکم کرنے کے اقدامات پرابھی سے اقدامات کرناہوں گے۔اس کیلئے پٹرول پرٹیکس کی شرح بڑھانی ہوگی تاکہ عوام متبادل ذرائع کا استعمال بڑھائیں۔
امریکی ماہرین کے مطابق کچھ ترقیاتی اخرجات ایسے ہوتے ہیں جو طویل عرصے بعدنتائج دیتے ہیں،جیسے کہ ریسرچ کا شعبہ ،اگرحکومت ریسرچ کے شعبے کیلئے مختص رقم میں اضافہ کر دے تواس کے نتیجے کی صورت میں2035تک ملک میں تیل کی کھپت میں50فیصدتک کمی ممکن ہوسکے گی۔اس لیے حکومت اگرآئندہ15سالوں میں100س200ارب ڈالرریسرچ جیسے شعبہ جات پرخرچ کرتی ہے جوکہ تقریباً دس ارب ڈالرسالانہ بنتے ہیں،توخلیج فارس کے دفاع پرآنے والے75ارب ڈالرسالانہ اخراجات سے بچاجاسکتاہے۔
امریکی فوج کی خلیج فارس میں موجودگی کے فوائدو نقصانات کاجائزہ لینے کے بعدون ورلڈآرڈرکونافذکرنے والوں کی خواہش ہے کہ حالیہ حکمت عملی کلی طورپرغلط نہیں ہے کیونکہ کم خطرات سے نمٹنے کیلئے بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔لیکن اب سیاسی ،دفاعی اورمعاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وابستگی کاخاتمہ ہوناچاہیے۔قومی سلامتی کے تناظرمیں دیکھاجائے تواب خلیج فارس سے آنے والے تعطل پرکسی بڑے نقصان کاخدشہ نہیں ہے۔معاشی طورپربھی ملک اب تیل کی سپلائی میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کوبرداشت کرسکتا ہے اورآئندہ اس تیل پرانحصارمزیدکم ہی ہوگا۔موجودہ حالات میں امریکاکوخلیج فارس میں اپنی موجودگی برقراررکھنے کی بجائے بتدریج خودکوایسی پوزیشن پر لاناہوگاکہ کسی بھی وقت وہ اس وابستگی کوختم کرسکے۔آنے والے دوعشروں میں تیل کے حوالے سے خودانحصاری حاصل کرنے کیلئے مزیدسرمایہ کاری کرنی ہوگی،جیساکہ ملکی ذخائرمیں اضافہ،توانائی کابہتر استعمال اورآبنائے ہرمزسے گزرنے والی تیل کی پائپ لائنوں کی استعداد میں اضافہ،ان اقدامات سے ملک جلدخودانحصاری حاصل کرلے گا۔
ادھرپینٹاگون نے پہلی مرتبہ اعتراف کیاکہ انہوں نے ٹرمپ کواس بات پرقائل کرلیاتھاکہ تیل کے معاملے میں خودانحصاری کے بعدامریکاکوخلیج میں اپنی وابستگی وہاں موجود خطرات کوسامنے رکھ کربرقراررکھنی ہوگی۔ان خطرات میں سب سے نمایاں ایران ہے۔وہ سمجھتے
ہیں کہ ایران پرایٹمی معاہدے میں مزیدسخت شرائط عائدکرنے کے بعداس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سے وابستہ خطرات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔تیل کی درآمد سے پابندی ہٹنے کے بعدایرن شایدہی کبھی خلیج فارس میں کسی گڑبڑکاسوچے۔کیونکہ ایسا کرنے سے اس کو بہت بڑی آمدنی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اس طرح جب ایران سے خطرات بھی نہ ہو نے کے برابررہ جائیں گے اورامریکاتیل پرخودانحصاری حاصل کر لے گاتواس کوتیل کی سپلائی لائن کی حفاظت کی ذمہ داری سے جان چھڑالینی چاہیے۔لیکن اگرایران جارحیت پراترتاہے توپھرامریکاکومشکل حالات کاسامناکرناپڑسکتاہے۔
ان دنوں خودامریکی عوام کے اندریہ احساس بڑھتاجارہاہے امریکاکوخلیج سے اپنی فوجی وابستگی کاخاتمہ جلدازجلدکرناچا ہئے، جس سے اس کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی اور ترجیحات بدل جائیں گی۔دوسری طرف اگرامریکااپنی فوجی وابستگی برقرار رکھتاہے،تواسے اپنے دفاعی بجٹ کابڑاحصہ اس مدمیں خرچ کرناپڑے گا۔ بہرحال یہ فیصلہ توامریکاکی خلیج فارس میں فوجی ترجیحات کی بنیادپرہوگا،جن میں جوہری پھیلاؤسب سے اہم ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے دہائیوں سے خلیج میں فوج کی موجودگی پرکبھی سوال ہی نہیں اٹھایا باوجود اس کے کہ خلیج میں فوج کی ضرورت پہلے جیسی نہیں رہی۔اس معاملے پرنظرثانی نہ کرنااوراس کے متبادل پرسرمایہ کاری نہ کرناایک بہت بڑی غلطی ہے۔اس غلطی کے نتیجے میں جہاںامریکاکواربوں ڈالرکا نقصان ہورہاہے وہیں اپنی فوج کوغیر ضروری جنگ میں بھی الجھایاہواہے اگراس سفید ہاتھی سے جلدجان نہ چھڑائی گئی تویہ سفیدہاتھی خود امریکاکواپنے قدموں تلے کچلناشروع کردے گا۔ان تمام حقائق کے بعدغزہ پراسرائیل کی وحشیانہ بمباری اوروائٹ ہاس کی پشت پناہی پرجس طرح اقوام عالم اورخود امریکامیں عوامی احتجاج کی لہرنے سراٹھایاہے،یقینااس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ امریکی جنگی مافیاکونکیل ڈالنے کاوقت آن پہنچا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔