وجود

... loading ...

وجود

مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی

منگل 20 فروری 2024 مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی

معصوم مرادآبادی

ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اب اس ملک میں مسلمانوں کواذیتیں دینا ایک مستقل پالیسی بن گئی ہے ۔ پہلے یہ کام فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انجام دیتی تھیں ، لیکن جب سے ان طاقتوںکو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ہے تب سے صورتحال بڑی حدتک تشویش ناک ہوگئی ہے ۔ حالانکہ اس ملک کا دستور ابھی تک سیکولر ہے اور ملک میں جمہوری نظام کی بات بھی کہی جاتی ہے ، لیکن عملی طورپر سب کچھ اکثریتی آبادی کی تشفی کے لیے کیا جارہا ہے ۔مسلمانوں کو یوں نظرانداز کیا جارہا ہے گویا وہ اس ملک کے اصل باشندے نہ ہوکر کوئی غیر ہوںجن کی جڑیں اکھاڑنا ملک کے مفاد میں ضروری خیال کرلیا گیا ہے ۔ آئے دن انھیں ذہنی اور جذباتی اذیتیں پہنچا کر ان کے اندر خوف وہراس پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیں۔رام مندر کے افتتاح کے بعد تو فسطائی طاقتوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے پر آمادہ نظر آنے لگے ہیں۔حکومت کی بنیادی ذمہ داری تمام شہریوں کے اندر احساس تحفظ پیدا کرنا اور ان کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے ، لیکن اس کے برعکس حکومت ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی پالیسی پر گامزن ہے جو مسلمانوں کو مسلسل خوفزدہ کر تی رہی ہیں۔ اس کا عملی ثبوت حال ہی میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز’بھارت رتن ‘ ان لوگوں کو دیا گیا جنھوں نے ملک میں زہریلی فضا ہی تیار نہیں کی بلکہ فرقہ وارانہ منافرت کو اس ملک کی مستقل پالیسی بنادیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ”بھارت رتن’ ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزازہے ۔ اب تک یہ ان لوگوں کو دیا جاتا رہا ہے جنھوں نے ملک کی کوئی بڑی خدمت انجام دی ہو۔لیکن بی جے پی سرکار میںاس اعزازکے معنی بدل گئے ہیں۔اب یہ ایسے لوگوں کو بھی دیا جانے لگا ہے جو حکمراں جماعت کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بن رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جن لوگوں کو اس اعزاز سے نوازا ہے ، ان میں سے بیشتر کی قومی خدمات پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ کیونکہ ان اعزازات کی تقسیم کے وقت صرف سیاسی فائدے کو ہیذہن میں رکھا گیا ہے ۔اس سال ‘بھارت رتن ‘ سے سرفراز کئے جانے والوں میں کرپوری ٹھاکر ، لال کرشن اڈوانی، ایم ایس سوامی ناتھن ، پی وی نرسمہاراو اور چرن سنگھ کے نام شامل ہیں۔نرسمہاراو کانگریس پارٹی کے دوسرے لیڈر ہیں جنھیں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سابق صدر جمہوریہ اور سینئر کانگریسی رہنما آنجہانی پرنب مکھرجی کو ‘بھارت رتن ‘ دیا گیا تھا۔ انھوں نے ‘بھارت رتن ‘حاصل کرنے سے پہلے ناگپورجاکر آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں حاضری دی تھی ، جس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ وہ کانگریس میں رہ کر آرایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہے تھے بالکل ایسے ہی جس طرح نرسمہاراو نے کی تھی۔اسی لیے آنجہانی وزیراعظم نرسمہاراو کو پس مرگ اس اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔نرسمہاراو کا سب سے بڑا ‘کارنامہ’ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں بابری مسجد شہید کروائی ۔ موجودہ سرکار نے انھیں پس مرگ اسی کا انعام دیا ہے ۔ اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کرنے والے لال کرشن اڈوانی کو بھی انعام سے نوازاگیا ہے ۔ حالانکہ انھیں عرصے سے برف میں لگاکر رکھا گیا تھا ، لیکن اچانک انھیں ‘بھارت رتن’ دے کرنئی زندگی دی گئی ہے ۔
اگر آپ لال کرشن اڈوانی کی قومی خدمات پر نظر ڈالیں تو بڑی مایوس کن تصویر ابھرتی ہے ۔ قومی سطح پر ان کے نام ایسی کوئی حصولیابی درج نہیں ہے ، جس کی بناپر انھیں ملک کاسب سے بڑا شہری اعزازدیا جائے ۔سبھی جانتے ہیں کہ انھوں نے سومناتھ سے ایودھیا تک نکالی گئی رتھ یاترا کے دوران ملک میں غیرمعمولی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی اور ملک کے دوبڑے فرقوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔ اڈوانی کی رتھ یاترا کے دوران ملک میںخوف وہراس کی جو فضا پیدا ہوگئی تھی، اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہندی صحافی رگھور شرن نے انھیں ‘بھارت رتن’ سے دئیے جانے کے بعد ایودھیا سے اپنی رپورٹ میں کچھ لکھا ہے کہ لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن دیا جانا درحقیقت رام مندر ، رام نگری اور کروڑوں رام بھکتوں کا اعزاز ہے ۔ یہ کہتے ہوئے سواتین دہائیوں پہلے کا وہ دور یاد آتا ہے ، جب مندر آندولن فیصلہ کن مرحلے میں تھا اور لال کرشن اڈوانی اس آندولن کے ہیرو کے طورپر جانے جاتے تھے ۔مذکورہ صحافی نے مزید لکھا ہے کہ’ ‘ سب سے زیادہ فیصلہ کن کردار میں وہ اس وقت نظر آئے جب رام جنم بھومی کی مکتی کے لیے سومناتھ سے رتھ یاترا لے کر وہ ایودھیا کی طرف روانہ ہوئے ۔ یہ سال 1990کی 25ستمبر کی تاریخ تھی ۔حالانکہ مندر آندولن اس سے پہلے ہی جن آندولن کے روپ میں قایمہوچلا تھا، لیکن اسے بلندیوں تک چھوا اڈوانی کی رتھ یاترا آگے بڑھنے کے ساتھ۔
ہندی روزنامہدینک جاگرن کے نامہ نگار کے اس اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اڈوانی کی اصل خدمات کا اندازہ لگا سکیں۔ اسی طرح پی وی نرسمہاراو کو ‘بھارت رتن ‘ دیئے جانے کے پیچھے ان کا وہ مذموم کردار ہے جو انھوں نے بطور وزیراعظم بابری مسجدکے انہدام کی راہ ہموار کرنے میں اداکیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ بابری مسجد انہدام کے بعد مرکز نے کلیان سنگھ سرکار کو برخاست کرکے وہاں صدر راج نافذ کردیا تھا ، لیکن اس کے باوجود وہاں بابری مسجدکے مقام پر عارضی مندر بنانے کی چھوٹ دی گئی۔اگر نرسمہاراو کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ ایسا نہیں ہونے دیتے چونکہ جوکچھ منہدم کیا گیا تھا وہ مسجد تھی اور اسی کی باقیات پر رام مندر کا ڈھانچہ تعمیر کرانا سراسر ظلم تھا۔ نرسمہاراو کا دوسرا بڑا کارنامہ ظالم وغاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قایم کرنا تھا۔ ان ہی کے دور اقتدار میں ہند۔اسرائیل دوستی پروان چڑھی جو موجودہ حکومت کا سب سے بڑا ایجنڈا ثابت ہوئی۔بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد اسرائیل سے ہندوستان کی جو قربت ہوئی ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
اب آئے ے ایک نظر چودھری چرن سنگھ پر ڈالتے ہیں جنھیں کسان لیڈر کے طورپر جانا جاتا ہے مگر حقیقت میں ان کا سب سے بڑا ‘کارنامہ’ یہ ہے کہ انھوں نے ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کا ریکارڈ قایم کیا۔ ان کے پسماندگان بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ چودھری چرن سنگھ کے بعد ان کے بیٹے اجیت سنگھ نے ان کی پیروی کی اور اب ان کے پوتے جینت چودھری بھی اپنے دادا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔چودھری چرن سنگھ کو ‘بھارت رتن ‘دئیے جانے کے بعد جینت چودھری نے سماجوادی پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملالیا ہے ۔ انھوں نے اپنے دادا کو ‘بھارت رتن’ دئے ے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”اب کس منہ سے منع کروں؟چودھری چرن سنگھ مغربی اترپردیش کے جاٹ کسان لیڈر تھے ۔یوپی کی سیاست پرگزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں اعلیٰ ذاتوں کا دبدبہ تھا ۔ سیاسی عزائم سے لبالب چودھری صاحب اس دبدبے کوہر حالت میں ختم کرنا چاہتے تھے ۔انھوں نے وفاداریاں بدلنے والے سیاسی دور کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔یہ وہ دور تھا جب عوامی نمائندے ذاتی مفاد کے لیے سرکاریں زمیں دوزکر نے کا کام کررہے تھے ۔ اس ہنرکی بدولت ہی چرن سنگھ 1967 اور1970میں کچھ عرصے کے لیے اترپردیش کے وزیراعلیٰ بننے میں بھی کامیاب رہے ۔
1975میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد اندراگاندھی نے انھیں بھی جیل میں ڈال دیا ۔1977 میں جب اندرامخالف لہر کے دوران جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو چرن سنگھ وزیرداخلہ اور اس کے بعد نائب وزیراعظم بنے ۔ لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہوئے ۔ ان کی نظریں وزیراعظم کی کرسی پر مرکوزتھیں۔1979میں دوبارہ وفاداری تبدیل کرکے وہ اندرا گاندھی کی حمایت سے وزیراعظم کی کرسی ہتھیانے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہ غیراصولی سیاست کی انتہا تھی ۔ عوام نے جنتا پارٹی کا انتخاب اندرا گاندھی کی مخالفت کے نام پر کیا تھا، لیکن چرن سنگھ نے اس حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر ان ہی کی مدد سے وزیراعظم بننا قبول کیا ۔ لیکن اس کرسی پربھی وہ زیادہ دنوں تک براجمان نہیں رہ سکے ، کیونکہ اندرا گاندھی نے کچھ ہی ہفتوں میں اپنی حمایت واپس لے لی ۔ان حقائق کی روشنی میں چرن سنگھ کی سب سے بڑی حصولیابی یہی کہی جاسکتی ہے کہ کسی اصول یا نظرئے ے کے بغیرسیاست کرو اور جہاں موقع ملے وہاں پارٹی بدل کر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی کرسی ہتھیاو ۔ اگر ایسے ہی لوگ بھارت رتن کے حقدار ہیں تو ہم اس اعزاز کو دور سے سلام کرتے ہیں۔اس کے باوجود اگر حکومت نے ایسے لوگوں کو’بھارت رتن’ دیا ہے تو یقینا ان کی کچھ ایسی خوبیاں ضرور ہوں گی، جس کے لیے وہ سب سے بڑے شہری اعزاز کے حقدار قرار دئے ے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟ وجود بدھ 04 دسمبر 2024
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی وجود بدھ 04 دسمبر 2024
یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش وجود بدھ 04 دسمبر 2024
درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش

کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی وجود منگل 03 دسمبر 2024
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

دنیا ہماری انگلیوں پر وجود منگل 03 دسمبر 2024
دنیا ہماری انگلیوں پر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر