وجود

... loading ...

وجود

اناڑی بمقابلہ کھلاڑی

اتوار 18 فروری 2024 اناڑی بمقابلہ کھلاڑی

میری بات/روہیل اکبر
حالیہ جنرل الیکشن میں ہونے والی دھاندلی نے ثابت کردیا کہ دھاندلی بھی ہمارا قومی کھیل ہے ۔لیکن جدید دور کے میڈیا نے اس دھاندلی کو نہ صرف بے نقاب کردیابلکہ مرحوم ارشد شریف کی پڑھی ہوئی نظم کے وہ الفاظ کہ پس آئینہ کوئی اور ہے کو بھی ننگا کردیا۔ یہ دھاندلی تو ہمیں آج کیمرے کی آنکھ نے دکھائی ہے ورنہ تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس گھنائونے کام میں ہمارے اہل ہوس ملوث تھے۔ اس وقت وہ جو چاہتے وہ ہوجاتا اور یہ انکی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کسے ایوان اقتدار میںلانا چاہتے ہیں اور اور پھر کیسے اسے رخصت کرکے گھر،جیل یا پھرنشان عبرت بنانے کے لیے اور دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے اسے تختہ دار تک پہنچا دیا جاتا تھا۔یہ ساری باتیں وہ ہیںجو آج سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور اب تو رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن اور علی وزیر نے پوری کردی ہے جس کی گونج نہ صرف پاکستان میں سنائی دے رہی ہے بلکہ دنیا بھر کے سوشل ،پرنٹ اور الیکڑانک میڈیاپر زیر گردش ہے ۔آج کا انسان چونکہ پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے اور رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے جس نے نہ صرف اس الیکشن کی دھاندلی کا پردہ چاک کردیا ہے بلکہ عوام کو بتا بھی دیا ہے کہ آپ کے ووٹوں پر اس طرح ڈاکہ پڑتا ہے؟
آپ ذرا اس دور کا تصور کریں جب موبائل کا تصور بھی نہیں تھا اورکیمرہ بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔ پولیس اور دوسرے اداروں کا خوف اس قدر ہوتا تھا کہ انسان اپنے جائز حقوق کے لیے بھی ڈرکی وجہ سے تھانے نہیں جاتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی حضرات اپنے ضلع میں سیاہ کریں یا سفید کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ بڑے سے بڑا سرمایہ دار ،جاگیر دار اور اپنے علاقے کا چودھری زندہ رہنے کے لیے انہی دونوں کرداروں کے ارد گرد گھومتا تھا۔ ان کی خوشنودی میںلگا رہتا تھا اور پھر انہی کی مہربانیوں سے وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا تھا۔ ان ہی طاقتور لوگوں کا کمال تھا کہ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بھی ہروادیا گیا جو پاکستان بنانے میں اپنے بھائی قائد اعظم کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلی ،کسی مشکل ،مصیبت اور آفت سے نہ گھبرائی لیکن اسے ہمارے اپنوں نے ہی شکست دیدی ۔اس الیکشن میں بھی عمران خان کو جس طرح عوام نے ووٹ دیا اور پھر مخصوص حلقوں نے اس ووٹ کو تبدیل کردیا لیکن اس بار ہوا کچھ یوں کہ لوگوں میں شعور بھی تھا ،علم بھی تھا اور پھر سوشل میڈیا بھی تھا۔جس کی وجہ سے ووٹوں میںملاوٹ کا دھندہ نہ صرف بے نقاب ہو گیا بلکہ بری طرح فیل بھی ہوگیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں کراچی سے خیبر تک اپنی ہار جیت سے ہٹ کر صرف اس لیے احتجاج کررہی ہیں کہ ووٹوں کی گنتی پر جو ڈاکہ مارا گیا ہے، اسے ختم کیا جائے اور جو بھی جیتا ہے اسے اسکا حق دیا جائے ۔اگر ایسا ہوجائے تو پھر میاں نواز شریف سمیت تمام بڑے بڑے نام سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجائیں گے۔
سیاست کی یہ بساط اسی مقصد کے لیے بچھائی گئی تھی کہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے اور وہ اسی لیے پاکستان واپس آئے تھے کہ “ساڈی گل ہوگئی اے “اور اس کے لیے امریکہ نے سائفر کی صورت میںمداخلت کی عمران خان کو تنہا کر کے تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کیخلاف جمع کی گئی۔ 35 سال سے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے بغل گیر ہوگئے ۔رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں اورسازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرائی گئی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے بس نہیں کی بلکہ عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ ،عورت کارڈ استعمال کیا گیا۔عمران خان کی نجی لائف کو مذاق بنادیا گیا۔ عمران خان کی طرف سے دو صوبوں کی حکومت چھوڑنے کے باوجود بروقت روک دیے گئے اورنگران حکومتوں نے الیکشن کروانے کی بجائے تحریک انصاف کو ختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کردی۔ عمران خان کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کرتے ہوئے لانگ مارچ سے جبراً روکنے سے لیکرنہتے کارکنان پر شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا گیا ۔عمران خان پر قاتلانہ حملہ کروایا گیا ۔زمان پارک سے طاقت کا استعمال کر کے غیر قانونی گرفتاری کی کوشش کرنے سے لیکر سابق وزیر اعظم کو گربیان سے پکڑ کر گرفتار کر دھکے دیتے ہوئے لے جانا اور پھر میڈیا کے ذریعے ساری دنیا کو دکھا نا کہ ہم ایسا کرتے ہیں اسکے بعد 9مئی کا واقعہ ہونا اور پھر عورتوں بچوں بوڑھوں اورنوجوان نسل کو سڑکوں پر مارنے اور گھسیٹتے شدید تشدد کا نشانہ بنانا ،ارشد شریف کا قتل اورعمران ریاض سمیت عمران خان کے حق میںبولنے والوں کو زبردستی اٹھا لینا، گھروں پر حملے کر کے خواتین اور بچوں کو ہراساں کرکے پی ٹی آئی کو توڑنا اورپھر جبراً پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کرنا کارکنان پر بہیمانہ تشدد اور جھوٹے مقدمات کا سلسلہ آندھی اور طوفان کی طرح شروع ہونا، عمران خان کو توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات میں گرفتار کرنا اور پھر راتوں کو سزا سنانا، پارٹی ختم کرکے انتخابی نشان چھننا، امیدواروں انکے تجویزاورتائید کنندگان کو گرفتار کرنا، جیسے حربے استعمال کیے جانے لگے ۔لیکن عوام نے سب پلان فیل کردیے۔ آج کل تاریخ کا ایک اور جھوٹ بولا جاتا ہے کہ 2018 میں بھی حالات ایسے تھے لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا تھا جو ظلم اور زیادتی 2024 میں تحریک انصاف پر کی گئی۔ اگر غور کریں تو 2018 تو دور پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کسی الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی اسکے قائدین اور ورکروں پرایسا ظلم نہیں کیا گیا تھا جو اس بارکیا گیا لیکن اسکے باوجود عوام نے بغیر پارٹی ،بغیر نشان ،بغیر کسی انتخابی مہم کے قیدی کو ووٹ دیکر جتوا دیا لیکن دھاندلی ہمارا قومی کھیل ہے جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا ہے ۔اس لیے اس الیکشن میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا لیکن اس بار دھاندلی کرنے والے اناڑیوں کو شاید علم نہیں تھا کہ انکا مقابلہ اس بار اس ایک کھلاڑی وہ بھی فاتح کپتان کے ساتھ ہے، جس نے پوری ٹیم کی مایوسی کے باوجود ورلڈ کپ جیت لیا تھااور اس بار تو کپتان کی ٹیم میں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد ،علی محمد خان،چوہدری پرویز الہٰی،عمر چیمہ ،اعظم سواتی ،علی امین گنڈا پور،راجہ بشارت، حماد اظہر،محمود رشید،میاں اسلم اقبال،زبیر نیازی،اصغر گجر،شہزاد فاروق اورعالیہ حمزہ سمیت سینکڑوں ایک سے بڑھ کر ایک آل رائونڈر موجود ہیں اور پوری قوم عمران خان کویہ میچ جتوانے میں مصروف ہے تو پھر ہار کیسی اور ہار کا ڈر کیسا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر