... loading ...
جاوید محمود
دیوار چین قدیم چین میں تعمیر کی جانے والی ان دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے جسے تقریباپانچ سوسال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی لمبائی کے اندازے تقریبا 2400 کلومیٹر سے 8 ہزار کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے تھے، مگر 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوار چین کی کل لمبائی تقریبا 21ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے مگر اس کے بارے میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی موجود ہیں۔دی گریٹ وال آف چائنا کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن ِ تعمیر کے متعلق پانچ مفروضوں کے متعلق بتایا گیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی خاکہ نویس رابرٹ ریلے نے سب سے پہلے اس مفروضے کو عام کیا تھا کہ دیوار چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم بیلی واٹ اورناٹ میں انہوں نے دیوار چین کو انسان کا سب سے طاقتور کام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے 30 برس قبل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور سائنس سونائزیشن ان چائنہ کے مصنف جوزف دھم نے کہا کہ دیوار چین انسان کی واحد تعمیر ہے جسے مریخ کے ماہرین فلکیات تھی دریافت کر سکتے ہیں۔البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا گیا مگر 2003 میں چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلاباز بانگ لوئی نے اس مفروضے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔
ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کے بہت سے حصے ہیں اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تحقیق سے مشابہت رکھتے ہیں جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔ اس کے وہ حصے جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی ممانعت ہے ۔یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی اور یہ حصے آبی ذخائر میں جا ملتے ہیں۔ بہت سے حصوں پر یہ دیوار گہری تہہ حتی کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے دوسرے سے ملتے ہیں۔ دیوار چین کا جو حصہ آپ بیجنگ کے ارد گرد دیکھتے ہیں وہاں آثار قدیمہ کی نشانیاں ہیں جن میں سے کچھ دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔دیوار چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اس بادشاہ نے دیا تھا جن کی وفات تقریبا 210 قبل مسیح میں ہوئی تھی یعنی منگولوں کے منظر عام پر آنے سے قبل کیوں کہ منگول تقریباً 800عیسوی کے قریب آئے تھے پھر چین کو خطرہ زنگوں سے ہوگا جو ممکنہ طور پرانہی کی آباو اجداد تھے، منگولوں کے ساتھ جنگ چودہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی جب بادشاہ مانگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔دیوار چین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوار چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔ان کہانیوں نے غالبا ًبان بادشاہت کی دور کے ایک اہم مورخ سیما گیان سے جنم لیا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیش رو سلطنت فن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس دیوار سے کبھی کوئی انسانی ڈھانچے یا ہڈیاں برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی شواہد ملے ہیں اور نہ ہی ان افواہوں کا آثار قدیمہ یا پرانی یادداشتوں میں کوئی ذکر ملتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوار چین کا ذکر نہیں کیا اور دیوار چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی دیوار چین نہیں گیا تھا ۔ اس وقت تیرہویں صدی کے آخر میں تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی اس لیے اس وقت دیوار بیکار ہو چکی ہوگی کیونکہ حملہ آوروں نے 50 سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔منگول جنہوں نے جنگ کے دوران دیوار چین کو نظر انداز کیا تھا انہیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مارکو پولو نے یقینا اسے بیجنگ سے شان گو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہوگا لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔