وجود

... loading ...

وجود

دیوار چین میں انسانی لاشیں

هفته 17 فروری 2024 دیوار چین میں انسانی لاشیں

جاوید محمود

دیوار چین قدیم چین میں تعمیر کی جانے والی ان دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے جسے تقریباپانچ سوسال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی لمبائی کے اندازے تقریبا 2400 کلومیٹر سے 8 ہزار کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے تھے، مگر 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوار چین کی کل لمبائی تقریبا 21ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے مگر اس کے بارے میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی موجود ہیں۔دی گریٹ وال آف چائنا کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن ِ تعمیر کے متعلق پانچ مفروضوں کے متعلق بتایا گیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی خاکہ نویس رابرٹ ریلے نے سب سے پہلے اس مفروضے کو عام کیا تھا کہ دیوار چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم بیلی واٹ اورناٹ میں انہوں نے دیوار چین کو انسان کا سب سے طاقتور کام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے 30 برس قبل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور سائنس سونائزیشن ان چائنہ کے مصنف جوزف دھم نے کہا کہ دیوار چین انسان کی واحد تعمیر ہے جسے مریخ کے ماہرین فلکیات تھی دریافت کر سکتے ہیں۔البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا گیا مگر 2003 میں چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلاباز بانگ لوئی نے اس مفروضے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔
ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کے بہت سے حصے ہیں اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تحقیق سے مشابہت رکھتے ہیں جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔ اس کے وہ حصے جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی ممانعت ہے ۔یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی اور یہ حصے آبی ذخائر میں جا ملتے ہیں۔ بہت سے حصوں پر یہ دیوار گہری تہہ حتی کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے دوسرے سے ملتے ہیں۔ دیوار چین کا جو حصہ آپ بیجنگ کے ارد گرد دیکھتے ہیں وہاں آثار قدیمہ کی نشانیاں ہیں جن میں سے کچھ دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔دیوار چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اس بادشاہ نے دیا تھا جن کی وفات تقریبا 210 قبل مسیح میں ہوئی تھی یعنی منگولوں کے منظر عام پر آنے سے قبل کیوں کہ منگول تقریباً 800عیسوی کے قریب آئے تھے پھر چین کو خطرہ زنگوں سے ہوگا جو ممکنہ طور پرانہی کی آباو اجداد تھے، منگولوں کے ساتھ جنگ چودہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی جب بادشاہ مانگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔دیوار چین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوار چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔ان کہانیوں نے غالبا ًبان بادشاہت کی دور کے ایک اہم مورخ سیما گیان سے جنم لیا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیش رو سلطنت فن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس دیوار سے کبھی کوئی انسانی ڈھانچے یا ہڈیاں برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی شواہد ملے ہیں اور نہ ہی ان افواہوں کا آثار قدیمہ یا پرانی یادداشتوں میں کوئی ذکر ملتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوار چین کا ذکر نہیں کیا اور دیوار چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی دیوار چین نہیں گیا تھا ۔ اس وقت تیرہویں صدی کے آخر میں تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی اس لیے اس وقت دیوار بیکار ہو چکی ہوگی کیونکہ حملہ آوروں نے 50 سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔منگول جنہوں نے جنگ کے دوران دیوار چین کو نظر انداز کیا تھا انہیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مارکو پولو نے یقینا اسے بیجنگ سے شان گو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہوگا لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر